دورِ جدید کی آمد اپنے ساتھ بڑھتی آبادی اور ہر کام کو جلد کرنے کی لگن لے کر آئی۔ آبادی کا سب سے زیادہ اضافہ بڑے شہروں میں ہوا۔ نیویارک، پیرس، لندن اور شکاگو جیسے آبادی کے مرکز گنجان آباد ہوتے چلے گئے۔
لیکن انسانوں کی اور ان کی ضرورت کی اشیاء کی نقل و حرکت کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ایک بڑے مسئلہ نے جنم لیا۔ ٹرانسپورٹ کے طریقے سے منفی اثرات ہونے لگے۔ ٹریفک جام، آلودگی، حادثاتی اموات بڑھنے لگیں۔ خوراک پیدا کرنے والی زمین کا کچھ حصہ بھی ایندھن کے طور پر استعمال ہونے سے خوراک کی قیمت میں اضافہ ہونے لگا۔ فضائی آلودگی اور زہریلے مادوں کے ماحول میں بکھرنے سے لوگوں کی صحت متاثر ہونا شروع ہو گئی۔
نہیں،یہ گاڑیوں کی نہیں، گھوڑوں کی بات ہے۔
گھوڑا جو قدیم زمانے سے انسان کا ساتھی چلا آ رہا تھا، جدید آبادیوں میں تانگے، بگھیاں اور سٹریٹ کارز کھینچنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ سامان لے کر جانا ہو، کسی نے اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو، بحری جہازوں سے سامان اتارنا ہو، فائر بریگیڈ ہو یا کچھ اور، اس سب کو گھوڑے کی طاقت سے کیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر نیویارک میں دو لاکھ گھوڑے تھے۔ ہر سترہ لوگوں کے لئے ایک۔
گھوڑا گاڑیوں کے رش نے سڑکوں کو بلاک کر کے رکھ دیا۔ ان کے پہیوں میں لوہے کے گھومنے کی اور گھوڑے کے سُموں کی آوازیں اس قدر شور برپا کئے رکھتی تھیں کہ اس شور کی وجہ سے اعصابی بیماریاں شروع ہو گئیں۔ ہسپتالوں اور حساس مقامات کے قریب گھوڑوں کے آنے پر پابندی لگا دی گئی۔
کئی بار یہ بے قابو ہو جاتے اور حادثات کا باعث بنتے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں رش زیادہ تھا۔ 1900 میں ان سے ہونے والے حادثات سے نیویارک شہر میں 200 لوگوں کی اموات ہوئیں۔ فی کس آبادی کے حساب سے یہ آج گاڑیوں سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں دگنا تھا۔
گھوڑے کی کارآمد عمر صرف تین سال تھی۔ کوئی گھوڑا جب کام کے قابل نہ رہتا اور کھینچتی گاڑی میں گر جاتا، اسے اسی وقت موقعے پر گولی مار دی جاتی۔ ان کی لاشیں کئی دن سڑک پر پڑی رہتی جب یہ کچھ سڑ جاتیں تو صفائی کا عملہ ان کو آری سے کاٹتا اور اٹھا کر لے جاتا۔
لیکن سب سے برا ان کا فضلہ تھا۔ ایک گھوڑا ایک دن میں اوسطا 24 پاؤنڈ فضلہ خارج کرتا تھا۔ نیویارک شہر میں پچاس لاکھ پاؤنڈ روزانہ۔
جب ان کی تعداد زیادہ نہ تھی تو فضلے کی اپنی مارکیٹ تھی۔ کسان اس کو کھاد کے طور پر استعمال کرتے۔ لیکن شہروں کے پھیلنے کا مطلب یہ نکلا کہ یہ اس کھپت سے بہت زیادہ تھا۔ خالی جگہوں پر اس کے ساٹھ فٹ اونچے ڈھیر لگے ہوتے۔ شہر کی سڑکوں پر یہ ہر طرف بکھرا ہوتا۔ لندن کی تنگ سڑکوں پر کئی جگہ دو دو فٹ گہرا۔ گرمیوں میں اس کی بدبو ہر طرف پھیلی ہوتی۔ جب بارش ہوتی تو فٹ پاتھ اس سے بھر جاتے اور لوگوں کے گھروں میں اور تہہ خانوں میں پانی کے ساتھ پہنچ جاتا۔ لندن اور نیویارک جیسے شہروں میں پرانی بلڈنگز کا آرکیٹکچر دیکھا جائے تو اس سے حفاظت کے طریقے نظر آئیں گے۔ یہ اس کو روکنے کے لئے اونچے براؤن سٹون ہیں۔
یہ فضلہ اربوں مکھیوں، چوہوں اور اس طرح کے دوسروں جانوروں کے لئے بہترین چیز تھی جو شہروں میں ہر طرف نظر آنا شروع ہو گئے۔ گھوڑوں کو خوراک چاہیے تھی اور یہ جہاں پر اگائی جاتی، وہاں پر انسانوں کے استعمال کی فصل نہیں اگائی جا سکتی تھی۔ خوراک کی قیمت زیادہ ہونے لگی۔ اگر اس وقت گلوبل وارمنگ کا علم ہوتا تو گھوڑا آج کی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرناک تھا جس کی وجہ اس سے نکلنے والی میتھین گیس تھی جو بڑی طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے۔
ٹائمز نے 1894 میں پیشگوئی کی کہ اگلے پچاس سال میں لندن کی ہر سڑک نو فٹ تک گھوڑوں کے فضلے کے ڈھیر سے بھری ہو گی۔ نیویارک میں 1898 میں شہری آبادی کی پلاننگ کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا ایک نکاتی ایجنڈی 'گھوڑا' تھا کیونکہ تمام دنیا کو اس مسئلے کا سامنا تھا۔ دس روزہ کانفرنس تین روز میں ہی ختم ہو گئی۔ کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔
دنیا اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ نہ گھوڑوں کے بغیر رہا جا سکتا تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ۔
پھر یہ مسئلہ غائب ہو گیا۔ نئی ٹیکنالوجی نے اس کو حل کر دیا۔ آٹو موبائل نے گھوڑوں کی ضرورت ختم کر دی۔ پٹرول سے چلنے والی یہ گاڑیاں چلانا اور ان کی روزانہ دکھ بھال نہ صرف بہت آسان اور سستی تھی بلکہ ماحول دوست بھی۔ دنیا کے شہر اب ترقی کی راہ پر آگے بڑھ سکتے تھے اور ان کو اپنی ناک بند کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
دھواں دیتی گاڑیوں نے آلودگی کا یہ بحران حل کر دیا تھا۔