ہ پرسوں کا واقعہ ہے۔ 19اکتوبر کی شام تھی۔ میں پونے آٹھ بجے اسلام آباد کلب سے نکلا۔ کلب کے صدردروازے سے نکلتے ہی گاڑی بائیں طرف موڑ لی۔ چند گز کے فاصلے کے بعد دائیں طرف کنونشن سنٹر کی جانب مڑنا تھا۔ جیسے ہی موڑ پر پہنچا سامنے بڑی بڑی فولادی، خاردار تاروں والی رکاوٹیں نظر آئیں۔ رکاوٹوں کے پاس ایک پولیس والا سینہ تان کر کھڑا تھا۔ ٹریفک رک گئی۔ چند منٹ میں چاروں سڑکوں پر ان گنت گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کھڑی ہو گئیں۔ شاید بلکہ یقینا کسی وی وی آئی پی نے گزرنا تھا؛ تاہم دور دور تک کسی سرکاری قافلے کا تاحال کوئی نشان نہ تھا۔ دو تین بار کچھ من چلوں کی گاڑیوں نے پیں پیں کی آوازیں نکالیں اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ میں نے گاڑی کا انجن بند کر دیا اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر، راضی برضا ہوکر جسم کے تنے ہوئے پٹھے ڈھیلے چھوڑ دیے۔
اب مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر آنکھیں بند کرکے، ٹیک لگا کر بیٹھا رہا۔ ٹک ٹک کی آواز آئی تو پہلے تو میں نے کوئی توجہ نہ دی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ آواز کسی اور گاڑی سے آ رہی ہے۔ لیکن جب آواز تسلسل کے ساتھ آنے لگی تو میں نے آنکھ کھول کر دیکھا۔ ایک عجیب سا ہاتھ میرے ہی دروازے کے شیشے پر دستک دے رہا تھا۔ میں نے دستک دینے والے کو دیکھا تو ایک بار تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ آدمی تھا یا ہڈیوں کا ڈھانچہ، جیسے کسی بھی لمحے بکھر جائے گا۔ گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، بال جیسے سر پر گوند سے چپکے ہوئے، گلے اور کندھوں کے درمیان ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئیں۔ اس کا لباس دیکھ کر حیرت کے ساتھ خوف بھی مجھ پر حملہ آور ہونے لگا۔ اس نے لمبا گھگرا نما کرتا پہنا ہوا تھا، جو ٹخنوں سے ذرا ہی اوپر تھا۔ پنڈلیوں کا جو حصہ کرتے کے نیچے نظر آ رہا تھا، اس پر چوڑی دار پاجامے جیسا تنگ ملبوس دکھائی دے رہا تھا۔ پاﺅں میں سلیم شاہی جوتا تھا جو حد سے زیادہ بوسیدہ ہو چکا تھا۔
وہ شیشے پر مسلسل دستک دے رہا تھا۔ پہلے تو میں نے شیشہ نیچے نہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اب کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ کہہ بھی رہا تھا۔ غیر اختیاری طور پر میں نے شیشہ نیچے کر دیا۔ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔ یہ لہجہ میں نے پورے ملک میں کبھی نہ سنا تھا۔ ”کیا اعلیٰ حضرت شہنشاہ ہند کی سواری گزر گئی؟“ پوچھا تو اس نے اردو ہی میں تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے کوئی اور ہی زبان بول رہا ہو۔ میں ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ ”کیا اعلیٰ حضرت شہاب الدین محمد شاہ جہان کی مبارک سواری گزر گئی ہے؟“ ”کون سے اعلیٰ حضرت شاہ جہان؟ تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟“ ”بھلے آدمی! تمہیں میری بات کیوں سمجھ میں نہیں آ رہی۔ میں شاہی جلوس کے متعلق استفسار کر رہا ہوں جس نے گزرنا تھا؟“
”کون سا شاہی جلوس؟“
”اعلیٰ حضرت شہنشاہ دوراں شاہ جہاں شکار کے لئے نکلے تھے۔ پولیس کے گھڑ سوار دستے راستہ صاف کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے چوبدار بھاگے چلے آ رہے تھے۔ میں سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ سوچا ایک جھلک شہنشاہ ہند کی دیکھ لوں۔ اچانک چوبدار کا عصا، جس کا سرا چاندی کا تھا، میرے سر پر لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ میں سر کے بل پیچھے کی طرف گرا۔ اگر آگے کی طرف سڑک پر گرتا تو ہراول دستے کے ہاتھیوں کے پیروں تلے آ کر کچلا جاتا۔ اب ہوش آیا ہے تو چوبدار ہیں نہ ہاتھی۔ یہ عجیب پالکیاں سی کھڑی دیکھیں جن کے نیچے پہئے لگے ہوئے ہیں۔ اب مجھے بتاﺅ کہ کیا شاہی سواری گزر چکی ہے یا ابھی گزرنی ہے؟“
میرا سر گھوم رہا تھا۔ کیا شاہ جہان کے زمانے کا مردہ اٹھ کھڑا ہوا ہے؟ میں نے چیخ ماری جو گاڑی کے اندر ہی گم ہو گئی۔ بہت کوشش سے حواس مجتمع کئے اور اس سے بات کی۔ ”شاہ جہان کو گزرے تو ساڑھے تین سو سال ہو چلے ہیں۔“ لیکن میری آواز اتنی مدھم تھی جیسے میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا۔ ” سواری تو ہمارے وزیراعظم کی یا صدر صاحب کی گزرنے والی ہے۔“
”لگتا ہے میں کچھ زیادہ دیر ہی بے ہوش رہا۔ زمانے ہی گزر گئے، بادشاہی تبدیل ہو گئی۔ بھائی، مغلوں کے زمانے میں تو ہم یوں سمجھو غلام تھے۔ جب شہنشاہ کی سواری نے گزرنا ہوتا تھا تو ہمارا راستہ چلنے کا بنیادی حق سلب ہو جاتا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے نکلنے سے پہلے پولیس کے دستے آ کر سب کو راستے سے ہٹا دیتے تھے۔ بغلی سڑکوں پر خاردار فولادی رکاوٹیں رکھ دی جاتی تھیں۔ جو جہاں ہوتا تھا وہیں رک جاتا تھا۔ بیمار وہیں کھڑے کھڑے دم توڑ دیتے تھے۔ طلبا مدرسوں میں نہیں پہنچ پاتے تھے۔ مسافر قافلوں سے رہ جاتے تھے۔ ہم اس زمانے میں حیرت سے سنا کرتے تھے کہ تین ساڑھے تین سو سال بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی۔ کوئی کسی کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ حکمران عوام کی طرح بغیر کسی ہٹو بچو کے شاہراہوں پر سفر کیا کریں گے۔ لیکن حیرت ہے کہ تم لوگ اتنی دیر سے اپنی سواریاں روکے کھڑے ہو۔ ایک گھنٹے سے تو میں دیکھ رہا ہوں۔“
”ہاں! تم نے ٹھیک سنا تھا۔“
مجھے اب اس مردہ نما شخص سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔
”بادشاہتیں واقعی ختم ہو چکی ہیں۔ لیکن صرف سمندر پار۔ کافروں کے ملکوں میں۔ ہم مسلمانوں کے ہاں ابھی شہنشاہی
نظام بدستور چل رہا ہے۔ ہم شاہراہوں پر چل رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اچانک کتّوں بلّوں کی طرح ”ہش“ کرکے روک دیا جاتا ہے۔ سامنے خاردار فولادی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ چوبداروں کا زمانہ نہیں رہا۔ اب بندوق بردار سپاہی سنگینیں تانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سب حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔ ہماری حیثیت زمین پر رینگنے والی چیونٹیوں جیسی ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی آگے بڑھ کر اپنا راستہ چلنے کی کوشش کرے تو کچل دیا جاتا ہے۔ بیمار اب بھی رکی ہوئی ٹریفک میں دم توڑ تے ہیں۔ حاملہ عورتیں گاڑیوں میں بچے جنم دے کر موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ دل کے مریض قے کرکے ہاتھ سینے پر رکھے روح کو جسم سے نکال دیتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر پہنچ کر جہاز پکڑنے والے یہیں رہ جاتے ہیں۔ کمرہ ¿ امتحان میں جانے والے طالبعلم غیر حاضر رہنے کی پاداش میں فیل کر دےئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ بھی نہیں۔ اصل اذیت وہ ذلّت ہے جو ہم لوگوں کے چہروں پر ملی جاتی ہے۔ فراٹے سے گزرنے والے یہ حکمران ہمارے ہی خون پسینے کی کمائی سے ان عالی شان سواریوں میں بیٹھے ہیں اور ہمیں ہی تزک و احتشام دکھا رہے ہیں۔ ہم غلاموں کی طرح راستوں پر کھڑے کر دےئے جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہم سولہویں صدی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں اس طرح روک کر رکھا جاتا ہے جیسے ہم ریوڑ کے جانور ہوں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ تذلیل نہیں ہو سکتی۔“