(Last Updated On: )
• اردو کے کلاسیکی ادب کا تذکرہ"خوش معرکہ زیبا" جس کو نواب سعادت علی خاں ناصر نے لکھا۔ناصر کی پیدائش کی تاریخ اور سال کا علم نہیں۔البتہ کہا جاتا ھے ان کا انتقال 1857 اور 1871 کے درمیان ھوا۔ناصر نے پہلا تذکرہ نگار مصحفی کو کہا ھے۔ناصر کا تذکرہ ایک ایسی دستاویز ھے جس سے تذکرہ نگاری کی ابتد ھوئی۔یہ بھی کہا جاسکتا ھے۔ اردو میں خاکہ نگاری اسی تذکرے کے بعد پروان چڑھی۔ سعادت یار خاں ناصر نے تذکرہ خوش معرکہ زیبا میں میر کے متعلق لکھا ہے کہ بڑھاپے میں شادی کی تھی لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا سوجھی فرمایا کہ جب شادی کے بعد اندر سے بلاوا آتا ہے کہ لڑکے کو لاﺅ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ غرض میر اور سودا کی معرکہ آرائی شروع میں توحد ادب میں رہی مگر آخر میں بے ادبی تک پہونچ گئی دہلی کی فضا میں دونوں مقابلے اور حریفانہ چشمک سے آگے نہ بڑھے لکھنو ¿ کے ماحول میں ایک دوسرے کی ہجو سے بھی باز نہ رہے۔ اگر سعادت خاں ناصر کا بیان صحیح ہے تو میر کے بڑھاپے کی شادی ضرور دستوں کی تفریح طبع کا باعث ہوئی ہوگی۔سودا ، میر سے پہلے انتقال کر گئے مگر میر کی عمر نواسی نوے سال کی ہوئی۔ اس لئے سودا کی زندگی میں بھی اگر میر کی شادی ہوئی تھی تو خاصی کم سنی میں اس لئے اس پر ہجو قرین قیاس ہے، مگر سودا کو کتوں سے جو دلچسپی تھی اس کے پیش نظر میر کی ہجو اور سودا کے جواب میں شبہ نہیں اور یہ ثابت ہے کہ آخر میں یہ دونوں استاد ایک دوسرے کو بھی بخشنے کے لئے تیار نہ تھے۔ سعادت علی خان ناصر کو تاریخ اور مذھب سے بھی دلچسپی رھی۔ لیکن اس تذکرے میں ناصر کی رنگین مزاجی بھی جھلکتی ھے۔تقریباپچاس/50 سال (1165 ہجری تا 1215 ہجری) ناصر نے فارسی میں شعرا کے تذکرے اور کوائف لکھے۔ان تذکروں کی تعداد بارہ/12سے زائد ھے۔مگر یہ یاد رھے کہ علی لطف صاحب نےاردو شعرا پر پہلا تذکرہ "گلشن ہند" لکھا۔ ناصر خود بھی شاعر تھے۔ فی البدیہہ شعر خوب کہتے تھے۔
• پحنچا نہ جب وہاں کسی تدبیر سے نمک
• زخم جگر میں اس نے بھرا تیر سے نمک۔
• ۱۔ خوش معرکہ زیبا کے صفحات سے معلوم ہوتاہے کہ سعادت خان ناصر کی اکثر شعرا سے ملاقات رہتی تھی۔ شیخ ناسخ سے بھی تذکرہ نگار نے دوایک ملاقاتوں کااحوال بیان کیاہے۔ایک ملاقات کا مذکورلالہ سیوارام ،شائق کے ذیل میں ہے جس میں ناسخ کی امرد پرستی کاتذکرہ واشگاف انداز میں ملتاہے۔ میرزائی اور ناسخ کے تعلق کی نوعیت اور کیفیت یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
• “شیخ صاحب مذکورہ محلہ ٹکسال لکھنو میں رہتے تھے اور میر زائی صاحب کہ شیخ صاحب کے مکان کے پاس رہتے تھے، شیخ صاحب ان سے یعنی میرزائی صاحب سے محبت دلی رکھتے تھے اور میرزائی صاحب اس زمانے میں بہت کم سن اور جمیل وشکیل اور صاحب حسن و جمال تھے،بلکہ شیخ ٰ صاحب کو لوگ ان سے بدنام کرتے تھے۔ایک روز کی نقل ہے کہ میرزائی صاحب نے اپنے ملازم کے ہاتھ شیخ صاحب سے کچھ روپیہ قرض منگابھیجا۔ راقم تذکرہ ہذا وہاں موجودتھا۔ شیخ صاحب نے حسب الطلب بھیج دیا اور ایک پرچے پر یہ شعر فارسی کامیرزائی صاحب کو لکھ بھیجا۔ وہ شعر یہ ہے :
• چہ پروا از زر و دینار داری
• کہ دارالضرب در شلوار داری
• (خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۵۷)
• ۲۔ امانت لکھنوی اور اندرسبھا کے بیان میں ناصر نے کافی اہم باتیں کی ہیں ۔اندرسبھا اور سحرالبیان کے حوالے سے معاشرت میں جوبگاڑ پیداہوا،
• وہ چشم کشابھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
• “میاں امانت نے ایک رہس کی طرح مثنوی اندر سبھا تصنیف کی تھی۔ اس میں بجائے امانت تخلص استاد اپنا قررا دیاتھا اور اس مثنوی میں غزلیں اورہولی وٹھمری اور چھند زبان بھاگامیں کہے تھے۔ چنانچہ جس کو سن کے پنڈت کشمیری اور بہاری کہار اور میر حافظ نے چند طفلان حسین چنے اور امر دان ماہ جبیں، خوب صورت جمع کرکے او ران لڑکوں کو مثنوی یادکراکے اور تعلیم راگ اور ناچ دلوا کے ایک رہس کھڑا کیاتھا اور وہ پندرہ روپیہ روزینہ پر مجرے بھی جاتے تھے۔چنانچہ خلائق نے یہ جلسہ جدید دیکھ کر بہت پسند کیا اور ہزارہا لوگ بازاری جمع ہونے لگے۔ ایک روز مولف تذکرہ ہذابھی اس جلسہ رہس اندر سبھا میں گیا۔ دیکھامیں نے کہ ہزارہا لوگ ان امر دان حسین پر مفتون وشیفتہ ہیں اور میاں امانت مسندپر بیٹھے ہیں اور ایک لونڈا حسین مہ پارہ آگے گاتاہے۔ میں یہ دیکھ کر چندے توقف کے بعد اپنے مکان پر چلاآیا۔ غرض کہ یہ اندر سبھا خوب چمکی اور مشہور خلائق ہوئی۔ جیسے کہ میر حسن کی مثنوی سے ہزارہا عورات فاحشہ ہوگئیں، ویسے ہی اس مثنوی اندرسبھا سے ہزارہا مردلوطی ومغلم ہوگئے اور اغلام نے خوب رواج پایا۔”
• (خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۲۳۱
• اس کتاب کو مشفق خواجہ{19 دسمبر 1935-21 فروری 2005} نے مرتب کیا ہے۔ اس کو مجلس ترقی ادب لاہور{ اپریل 1970، ناشرامتیاز علی تاج} نے شائع کیا تھا۔ اعجاز عبید لکھتے ہیں۔ " مشفق خواجہ کاپہلا تحقیقی کارنامہ "تذکرہ خوش معرکہ زیبا” ہے جو ۱۸۴۸ء میں سعادت خان ناصر نے مرتب کیا تھا۔ اس تذکرے کی تحقیق ترتیب و تدوین اور تقابلی تصحیح پر انہوں نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تالیف "اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری” کے مطابق اب تک اس تذکرے کے چار مخطوطوں کا سراغ لگا ہے جن میں سے ایک خدا بخش لائبریری پٹنہ میں، دوسرا مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ میں، تیسرا لکھنو یونیورسٹی کے کتب خانے میں اور چوتھا خطی نسخہ انجمن ترقی اردو کراچی کے کتب خانے میں موجود ہے۔ مشفق خواجہ نے "تذکرہ خوش معرکہ زیبا” کے مقدمے میں ان چاروں مخطوطوں کی تفصیلات کے علاوہ متون اور شعرا کی تعداد کا فرق بھی واضح کر دیا ہے۔ ان چاروں نسخوں کی روشنی میں اس تذکرے میں شعرا کی تعداد کا تعین ۸۲۴ کیا گیا ہے اور یہ مشفق خواجہ کی تحقیقی ژرف نگاہی کا نتیجہ ہے۔ اس تذکرے کی خوبی یہ ہے کہ گلشن ہند مولفہ مرزا علی لطف، گلدستہ حیدری مولفہ حیدری، انتخاب دواوین مولفہ امام بخش صہبائی اور گلدستہ نازنیناں مولفہ کریم الدین کے بعد یہ تذکرہ پانچواں تھا جو فارسی زبان کے برعکس اردو میں لکھا گیا اور اس میں زیر تذکرہ شاعر کے علاوہ اس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ شعرا کے حالات حیات کی تفصیل اور ادبی معرکہ آرائیوں کے علاوہ ادبی، سماجی اور معاشرتی فضا اور لطائف و حکایات کا تذکرہ بھی درج ہے جن سے بعد کے تذکرہ نگاروں بالخصوص محمد حسین آزاد نے "آب حیات” میں استفادہ کیا۔ مشفق خواجہ کے بقول
• "ناصر نے تذکرے کا نام "خوش معرکہ ” محض اس بنا پر لکھا تھا کہ اس میں شعرا کی معرکہ آرائیوں کی تفصیلات درج ہیں۔ ”
• میر علی اوسط رشک نے تاریخ اس مصرع سے نکالی:
• "تاریخ یہی پائی خوش معرکہ زیبا”
•
• " مشفق خواجہ کاپہلا تحقیقی کارنامہ ’’تذکرہ خوش معرکہ زیبا‘‘ہے جو ۱۸۴۸ء میں سعادت خان ناصر نے مرتب کیا تھا۔ اس تذکرے کی تحقیق ترتیب و تدوین اور تقابلی تصحیح پرانہوں نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تالیف ’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘کے مطابق اب تک اس تذکرے کے چار مخطوطوں کا سراغ لگا ہے جن میں سے ایک خدا بخش لائبریری پٹنہ میں ،دوسرا مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ میں، تیسرا لکھنو یونیورسٹی کے کتب خانے میں اور چوتھا خطی نسخہ انجمن ترقی اردو کراچی کے کتب خانے میں موجود ہے۔مشفق خواجہ نے ’’تذکرہ خوش معرکہ زیبا‘‘ کے مقدمے میں ان چاروں مخطوطوں کی تفصیلات کے علاوہ متون اور شعرا کی تعداد کا فرق بھی واضح کر دیا ہے۔ ان چاروں نسخوں کی روشنی میں اس تذکرے میں شعرا کی تعداد کا تعین ۸۲۴کیا گیا ہے اور یہ مشفق خواجہ کی تحقیقی ژوف نگاہی کا نتیجہ ہے۔ اس تذکرے کی خوبی یہ ہے کہ گلشن ہندمولفہ مرزا علی لطف، گلدستہ حیدری مولفہ حیدری ، انتخاب دواوین مولفہ امام بخش صہبائی اور گلدستہ نازنیناں مولفہ کریم الدین کے بعد یہ تذکرہ پانچواں تھا جو فارسی زبان کے برعکس اردو میں لکھا گیا اور اس میں زیر تذکرہ شاعر کے علاوہ اس کے شاگردوں اورشاگردوں کے شاگردوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ شعرا کے حالات حیات کی تفصیل اور ادبی معرکہ آرائیوں کے علاوہ ادبی ، سماجی اورمعاشرتی فضا اور لطائف و حکایات کا تذکرہ بھی درج ہے جن سے بعد کے تذکرہ نگاروں بالخصوص محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں استفادہ کیا۔ "
• {جدید ادب جرمنی۔ شمارہ نمبر 6۔ از ڈاکٹر انور سدید،لاہور}
• چنانچہ اس کا نام ہی "تذکرہ خوش معرکہ زیبا ” رکھ دیا گیا۔ اس تذکرے میں میر تقی میر اور مرزارفیع سودا سے لے کر مولف سعادت خان ناصر تک قریباً ایک صدی کے شعرا کا تذکرہ موجود ہے جس کی تحقیق شدہ دو جلدیں مجلس ترقی ادب لاہور سے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۷۱ء میں پروفیسر حمید احمد خان کے دور میں شائع ہوئیں۔ تیسری جلد جو تعلیقات پر مشتمل ہے تا حال شائع نہیں ہوئی اور مشفق خواجہ کی وفات کے بعد شاید کبھی منظر عام پر نہ آئے"{"بحرِ تحقیق کا شناور۔ مشفق خواجہ ۔۔۔ انور سدید"، سہ ماہی 'سمت' یکم اپریل 2016}۔تذکرہ خوش معرکہ زیبا" کت تدوین مشفق خواجہ کا بڑا اہم اور دستاویزی تحقیقی کام ہے ۔۔ سعادت خاں ناصر کی تصنیف ”تذکرہ خوش معرکہ زیبا“کو انہوں نے مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا تھا ۔ جس کے بعد اس تذکرے کی آسان تشریح و تفھیم ہو جاتی ہے ۔