(Last Updated On: )
سنہ 2017 میں ڈاکٹر ایم اے حق سے میرا رابطہ ہوا۔ ایم اے حق ایسے پہلے سینئر ادیب تھے جن سے ادب کی بنیاد پر میرا تعلق جڑا تھا۔ اس وقت وہ رسالہ عالمی انوار تخلیق نکالتے تھے۔ جس کا، موسمِ گرما 2017 کا شمارہ منظرِ عام پر آ چکا تھا اور اس میں میرا ایک افسانچہ ’شرمندگی‘ شائع ہوا تھا۔ اُس وقت مختلف اخبارات میں میری تحریریں شائع ہو رہی تھیں اور رسائل کی معلومات مجھے نہ کے برابر تھی۔ میرا افسانچہ رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کے موسم گرما 2017 کے شمارے میں میں شائع ہوا ہے یہ اطلاع مجھے وسیم عقیل شاہ نے دی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ایک معیاری رسالہ ہے اور اس میں افسانچوں کا انتخاب بڑا سخت ہوتا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ میں نے تو افسانچہ بھیجا ہی نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر ایم اے حق کو بحیثیت افسانچہ نگار جانتا تھا۔ ان کے کئی افسانچے پڑھے تھے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک رسالے کے مدیر بھی ہیں۔ پہلے ان سے فیس بک میسنجر پر بات ہوئی۔ نمبروں کا تبادلہ ہوا اور پھر براہ راست فون پر بات چیت ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے ایک ادبی ویب سائٹ سے میرا افسانچہ منتخب کیا تھا۔ ہم بہت جلد دوست ہو گئے۔ گھنٹوں باتیں ہونے لگیں۔ فون پر انھوں نے میرے کئی افسانچوں کی اصلاح کی۔ نئی نسل کی ہمت افزائی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ افسانچے کی باریکیوں سے وہ بخوبی واقف تھے۔ افسانچے کے فروغ میں انھوں نے اپنی زندگی لگادی۔ شروعات میں انھوں نے افسانے لکھے پھر محمد بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے لگے۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور افسانچہ نگاری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ فون پر ہماری روزانہ گفتگو ہوتی تھی۔ وہ نئے نئے منصوبے بناتے۔ مجھے سناتے۔ میں بھی اس پر اپنی رائے دیتا۔ میری رائے کا وہ احترام کرتے۔ اور ہمت افزائی والے کلمات ادا کر کے میرا حوصلہ بڑھاتے۔ لیکن پہلا منصوبہ مکمل ہو نہیں پاتا تو کوئی دوسرا منصوبہ بنا لیتے اور پہلا منصوبہ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہ ایک خامی تھی ان میں۔
فون پر تو ان سے بہت باتیں ہو چکی تھیں۔ بس اب ان سے ملاقات کی تمنا تھی جو 2018 میں پوری ہوگئی۔ 4 اکتوبر 2018 بروز جمعرات کو وہ میرے چھوٹے سے شہر ناندورہ (ضلع بلڈانہ، مہاراشٹر) تشریف لائے۔ ڈاکٹر تسلیم عارف بھی ساتھ تھے۔ دراصل وہ ممبئی گئے تھے۔ واپس رانچی جاتے وقت ہمارے اصرار پر ناندورہ اتر گئے۔ ریل کے ذریعے ممبئی سے رانچی جاتے ہوئے راستے میں ناندورہ پڑتا ہے۔ ہم نے ان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا۔ اسی پروگرام میں ان ہی کے دست مبارک سے میری کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’الجھن‘ کی رسم اجرا ہوئی۔ اسی محفل میں انھوں نے خاکسار کو رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کا معاون مدیر بنائے جانے کا اعلان کیا اور بعد میں باقاعدہ طور پر لیٹر بھی دیا۔ ناندورہ سے جاتے وقت انھوں نے ایک جملہ کہا تھا جو اب تک میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا، ’’مہاراشٹر کے دوسرے شہروں کے مقابلے ناندورہ میں ادب کم ہے لیکن خلوص زیادہ ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے فون پر کئی بار کہا کہ وہ ناندورہ پھر سے آئیں گے ابھی ان کا دل بھرا نہیں۔ لیکن صحت نے ساتھ نہ دیا۔ طبیعت اکثر خراب رہتی تھی۔ ناندورہ آئے تھے تب بھی بہت ساری دوائیاں ان کے ساتھ تھیں۔
اور 18 مئی 2021 کو کورونا وبا سے جنگ لڑتے لڑتے وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر ایم اے حق جتنے اچھے افسانچہ نگار تھے اتنے ہی اچھے افسانچے کے نقاد بھی تھے۔ انھوں نے محمد بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے شروع کیے اور ایسے افسانچے لکھے کہ خود بشیر مالیر کوٹلوی ان کے افسانچوں سے کافی متاثر ہوئے اور کہنے لگے: ’’یہ حق میرا یار افسانچے کا بہت بڑا پارکھ ہے۔‘‘
ایم اے حق اور بشیر مالیر کوٹلوی دونوں جگری یار تھے۔ 18 مئی 2021 کو ڈاکٹر ایم اے حق کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کے دو دن بعد محمد فاروق قادری (کشمیر) سے موبائل پر میری گفتگو ہو رہی تھی۔ ہم دونوں ڈاکٹر ایم اے حق کے متعلق بات کر رہے تھے اور انھیں یاد کر رہے تھے۔ پھر محمد بشیر مالیر کوٹلوی کی بات نکلی تو میں نے کہا کہ بشیر صاحب، حق صاحب کے یوں چلے جانے سے بہت رنجیدہ ہو گئے ہیں۔
تب فاروق قادری نے ان کی دوستی کا ایک قصہ سنایا۔ واقعہ یوں ہے کہ فاروق قادری نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’1980 کے بعد ہندوستان کے مشاہیر افسانچہ نگار:تفہیم و تجزیہ‘‘ سے متعلق بشیر مالیر کوٹلوی کو فون کیا اور پوچھا:
’’میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں منٹو اور جوگندر پال کے بعد تیسرے اور چوتھے نمبر پر آپ اور ڈاکٹر ایم اے حق کا ذکر کر رہا ہوں لیکن میں تذبذب میں ہوں کہ آپ دونوں میں سے کس کا ذکر پہلے کروں؟‘‘
تب بشیر مالیر کوٹلوی نے جواب دیا:
’’ایم اے حق نے افسانچے پر زیادہ کام کیا ہے اس لیے آپ مجھ سے پہلے حق کا ذکر کریں۔‘‘
اس کے بعد فاروق قادری نے ڈاکٹر ایم اے حق کو کال کی اور یہی مسئلہ ان کے سامنے رکھا۔ تب ڈاکٹر ایم اے حق نے جواب دیا:
’’میں نے بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے کی شروعات کی تھی لہذٰا بشیر مالیر کوٹلوی میرے سینئر ہیں اس لیے آپ ان کا ذکر مجھ سے پہلے کریں۔‘‘
واہ کیا دوستی ہے…!!!
ڈاکٹر ایم اے حق جب بات کرتے تو کرتے ہی چلے جاتے اور میری بات دل ہی میں رہ جاتی۔ یوں لگتا سمندر کی اونچی اونچی لہریں میری جانب آرہی ہیں اور دور تک دھند ہی دھند چھا گئی ہے۔ بات سے بات نکالتے چلے جاتے بات لمبی ہوتی جاتی۔ ان سب باتوں کے باوجود ان کی باتوں میں ایک کشش تھی ایک جادو تھا کہ سامنے والا شخص اس میں گرفتار ہو جاتا۔ پہلی دفعہ بھی اگر کسی سے بات کر رہے ہو تو یوں لگتا کہ برسوں کی یاری ہے۔ بڑی دلچسپ اور آزاد شخصیت کے مالک تھے وہ۔ رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کے شمارے اور افسانچوں کے دو مجموعے ’’نئی صبح‘‘ اور ’’ڈنک‘‘ اُردو ادب کو ان کی بیش قیمتی دین ہیں۔
****
از قلم : محمد علیم اسماعیل
****
از قلم : محمد علیم اسماعیل