بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
جس ملک کے پارک اور کھیلوں کے میدان ویران ہوں وہاں کے ہسپتال خوب آباد رہتے ہیں
۔ہمارے یہاں لوگوں کی من پسند تفریح ہیں ۔خوب کھانا پینا اور پھر بیمار پڑنا۔
ہمارے یہاں سب سے منفعت بخش کاروبار بھی دو ہیں ایک اسکول دوسرا ہسپتال۔
دونوں ہی اگر چل پڑیں تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں.
ملک میں مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے ہاسپٹلز کا
مہنگا علاج افورڈ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔
جس طرح آپ کراچی میں 50 روپے فی کس سے لیکر 5000 روپے فی کس تک کے کھانے کھا سکتے ہیں اسی طرح ہمارے یہاں علاج معالجے کی بھی وسیع رینج دستیاب ہے۔
اپنی اپنی استطاعت کے مطابق آ پ فیضیاب ہو سکتے ہیں ۔
ہزاروں روپے فیسیں بٹورنے والے کوالیفائیڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سیے لیکر عام ایلو پیتک ہومیوپیتھک حکیم ہربلسٹ پیر فقیر اور عامل بابے سنیاسی شبانہ روز خدمت خلق میں مشغول ہیں ۔
مولوی صاحبان بھی کب کسی سے پیچھے رہتے ہیں دم کرتے ہوے آپ کی بائیں جیب پر ہی نگاہیں مرکوز رکھتے ہیں تاکہ بالواسطہ انکی جیب گرم ہوسکے ۔
سب سے دلچسپ حال تو پیروں فقیروں اور عاملین کا ہے ۔
جن کے یہاں کینسر جیسی موزی بیماری سے لیکر شادی بیاہ عشق محبت طلاق نوکری بچوں کی پیدائش جیسے معاشی و معاشرتی مسائل کا علاج اور حل بدرجہ اتم موجود ہے۔غرضیکہ یہ عامل حضرات قلیل معاوضے پر زندگی میں درپیش مسائل و مصائب کے حل کا complete package مہیا کرتے ہیں ۔
بی اماں فرمایا کرتی تھیں کہ انکے بچپن میں ہندوستان میں ایک بہت پہنچے ہوے باباجی ہوتے تھے جن کی واحد وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہمہ وقت ظاہری کپڑوں سے نیاز پڑے رہتے تھے۔
یہ انکا تجاہل عارفانہ تھا کہ شان بے نیازی کہ ایک زمانہ انکا معتقد تھا۔
زمانہ حال میں اللہ والوں کا حال تو ہم گناہ گار نہیں جانتے مگر بہت سے پیر فقیروں سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
جو ہمہ وقت بہترین وضع قطع کے لباس میں ملبوس رہتے ہیں ۔
ان کے آستانوں پر ہم جیسوں کے لیے تو لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جن کو انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے
مگر جن کے پاس قائد اعظم کی سفارش ہو تو انکا جلد نمبر لگ سکتا ہے۔
ایک مرید سے کسی من چلے نے پوچھا کہ بھائی میاں آپکے پیر صاحب کی تو داڑھی ہی نہیں ہے تو نہایت عقیدت سے بولے کہ داڑھی تو ہے مگر ہماری آنکھیں ہی نہیں ہیں ۔
پوچھا کہ آپکے پیر صاحب نماز تو پڑھتے ہی نہیں تو گویا ہوے کہ حضرت کی نمازیں مکہ مدینہ میں ادا ہوتی ہیں ہماری بصیرت اس درجہ کی نہیں کہ انہیں دیکھ سکییں۔
آپ جس پیر فقیر عامل کے پاس بھی چلے جائیں وہ آپکو
آپکے دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی قرانی آیت تکرار سے بطور وظیفہ پڑھنے کیلئے دے دے گا۔
دیکھا یہ گیا ہےکہ لوگ کچھ عرصے تو بہت ذوق وشوق سے جھوم جھوم کر انکا ورد کرتے ہیں مگر چند روز اگر کام نہ بنے تو تساہل کا شکار ہوجاتے ہیں اور اگر مزید کچھ روز میں مطلوبہ نتایج کا حصول ہوتا نظر نہ آئے تو یہ نہ صرف ذکر وازکار ترک کررہتے ہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے بھی مایوس ہوجاتے ہیں ۔
تسبیحات و وظائف میں دنیاوی مقاصد اور فوائد کے بجائے اللہ کی رضا اور محبت کا حصول پیش نظر ہو تو یر بگڑی بات بنتی ہوئی نظر آئے گی۔
ایک بار ہم اپنے دوست کم بزرگ کے ساتھ ایک مشہور پیر صاحب کے آسستانے پر حاظری کے لیے گئے۔بزرگ کے گھٹنوں میں درد تھا اور ہمیں بھی اپنی ڈوبی ہوئ رقم کی وصولی درکار تھی۔
وہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں کافی خلق خدا جمع تھی اور قبلہ خود ایک اونچی سی چوکی پر براجمان تھے۔
منحنی جسامت ، سرخ انگارہ آنکھیں اور اس پر طنتناتی ہوئی آواز واللہ عجب قیادت ڈھا رہی تھی ۔
فردا فردا ایک ایک سائل انکی قدم بوسی کرتا اور اپنا مسئلہ بیان کرتا ۔
ہمارے لئے یہ منظر بالکل نرالا تھا لہذا مجسم حیرت بنے عقیدت اور احترام سے اس مجلس کا حصہ بنے رہے۔
پیر صاحب حضرت آدم علیہ اسلام سے لیکر اکیسویں صدی تک اس دنیا سے گزرنے والی تمام مقدس ارواح سے رابطے میں تھے۔جس علاقے کا سائل ہوتا وہاں کی نیک روح سے براہ راست مشورہ فرماتے اور پھر سائل کی مشکل حل کرنے کی عرضی پیش کردیتے۔
اس دوران ایک مظلوم شوہر نے پیر صاحب سے اپنی ساس اور بیوی کے گستاخانہ رویے کی شکایت کی تو پیر صاحب نے ان دیکھی قوتوں کو حکم دیا کہ اسکی ساس اور بیوی دونوں کو اوندھا لٹا کراتنے ڈنڈے لگاو کہ دونوں سدھر جائیں پھر چند لمحات غائبانہ طور پر سارے منظر سے لطف اندوز ہوتے سائل کو مبارکباد دی کہ جاو تمھاری بیوی راہ راست پر آگئی وہ بیچارہ خوشی سے نہال قدم بوسی کرکے اطمینان سے جانے لگا تو پیر صاحب کی پاٹ دار آواز نے اسکے قدم ساکت کردیے ۔
میاں ایسے ہی منہ اٹھائے چل دیئے ۔
اس عمل کی زکوتہ کون دے گا ؟
کیا پیر صاحب کو بیوقوف سمجھا ہوا ہے ؟
جو چپکے نکل رہے ہو۔
اس غریب بے گستاخی کی معافی مانگی اور فورا سو دو سو روپے کے نوٹ جیب سے نکالے اور نذرانہ پیش کردیا ۔اس کے بعد حاظرین میں سے کسی کی مجال نہ ہوئی کہ بغیر نذرانہ دیئے وہاں سے نکلتا۔
غرض بورڈ آفس میں امتحانی کاپیوں کی چیکنگ سے لیکر گھٹنوں تک کے روحانی آپریشن پیر جی نے وہیں بیٹھے بیٹھے نمٹا دیئے ۔
ہم نے بھی اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ایک شخص ہماری رقم ہڑپ کرگیا ہے ۔چونکہ ہم کسی خاص شخصیت کے ریفرنس سے گئے تھے لہذا پیر صاحب نے بڑی شفقت فرمائی اور ان دیکھی قوتوں کو ہماری ریکوری کرنے کی ہدایت کی اور ہمیں جلد معاملہ حل ہونے کی نوید سنائی ۔
ہنوز انتظار جاری ہے۔
ہمارے ساتھ گھٹنوں کے علاج کے لے جائے والے بزرگ آج کل گھر پر آرام فرما ہیں کیونکہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے ہیں۔اگر بروقت صحیح علاج کروالیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
اندھے اعتقاد کی کمی تھی یا ایمان کی حرارت ۔
ناچیز کے ناپختہ ذہن میں اس دوران ایک کشمکش چلتی رہی کیا یہ اندھی عقیدت و شخصیت پرستی ،بت پرستی کی ہی شکل تو نہیں ہے ۔
بطاہر یہ ایک شارٹ کٹ دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاک صاف رہنا پنج وقتہ ادائیگی نماز ،صدقہ وخیرات کرنا ،خود دعا کرنا بہت مشکل کام لگتا ہے ،کیونکہ یہ محنت طلب یے اور ہم حددرجہ سہل پسند ہوچکے ہیں ،
یہ رویے ہماری ضعیف ا الاعتقادی کا مظھر ہیں اور سہل پسندی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔۔
اللہ کو راضی کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔وہ تو ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔
بس اسکی یاد میں رونے والی آنکھ اور تڑپنےوالا دل چاہیے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ٹٹڑ روایت ہے کہ
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے توہمارے رب آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کروں گا۔"