امریکی اداکار میل گبسن کو 28 جولائی 2006 کو تیزرفتار گاڑی چلانے پر روکا گیا۔ ان کے ساتھ والی سیٹ پر شراب کی بوتل کھلی پڑی تھی۔ پولیس افسر نے جب ٹیسٹ کیا تو وہ نشے میں تھے۔ پولیس افسر نے ان کو حراست میں لے لیا۔ جب انہیں ہتھکڑی لگائی جا رہی تھیے۔ “گھٹیا یہودی۔ بھاڑ میں جاوٗ۔ تم لوگوں نے ہمیں تنگ کیا ہوا ہے۔ ایسا کام یہودی ہی کر سکتا ہے۔” پولیس افسر یہودی تھا۔
یہ سٹیٹمنت اخبار کے ہاتھ آ گئی اور اگلے روز اخبار میں چھپی۔ گبسن نے معافی جاری کی، “جمعرات کی شب میں نشے میں دھت تھا۔ میں نے ایسی حرکات کیں جو بالکل غلط تھیں اور میں شرمندہ ہوں۔ جب مجھے حراست میں لیا گیا تو میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ میں نشہ چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے پچھتاوا ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں اپنے الفاظ پر معافی مانگتا ہوں۔”
اس سے اگلے روز انہوں نے یہودی کمیونیٹی کے لئے سٹیٹمنٹ جاری کی۔ “میں نے جو کہا تھا، وہ ناقابلِ دفاع تھا۔ میں ایسا نہیں ہوں۔ میں اپنے الفاظ پر معذرت کرتا ہوں۔ میری زندگی کے اصول تو رواداری اور بھائی چارے کے ہیں۔ ہم سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں تعصب پرست نہیں۔ میرا عقیدہ تو مجھے نفرت کی اجازت بھی نہیں دیتا”
اس پر گرما گرم بحث چلتی رہی۔ ایک اخبار میں کام نویس نے لکھا، “مجھے افسوس ہے کہ میل گبسن نشے کی عادت نہیں چھوڑ سکے لیکن اس واقعے نے ان کا اصل روپ دکھا دیا۔ نشہ متعصب نہیں بناتا۔ متعصب شخص کی اصلیت کو ظاہر کر دیتا ہے۔”
ایک پروگرام میں میزبان نے تجربے کیلئے سب کے سامنے اتنی شراب پی جتنی اس روز میل گبسن نے پی تھی۔ اور پی کر اعلان کیا۔ “ہاں، اب میں نے بھی اتنی ہی پی لی ہے جتنی گبسن نے پی تھی۔ لیکن میں ابھی بھی کسی کے خلاف نفرت انگیز بات نہیں کر پا رہا۔”
کسی اور نے لکھا، “بہک کر لوگ ایسی حرکتیں اور باتیں کر جاتے ہیں جن پر بعد میں پچھتاتے ہیں۔ میل گبسن کو بخش دو۔ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھے”۔
میل گبسن کے فلم پروڈیوسر ڈین ڈیولن خود یہودی ہیں اور میل ان کے گھر اسی دوپہر کھانے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا، “میل ہماری فیملی کا بہت ہی اچھا دوست ہے۔ ہم اکٹھے کام کرتے ہیں اور بہت ہی اچھا وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ اگر وہ یہودیوں سے نفرت رکھنے والا ہوتا تو ہمارا اتنا اچھا دوست نہ ہوتا۔”
نشہ ایگزیکٹو کنٹرول کو مدہم تو کر دیتا ہے لیکن میل گبسن کا اصل روپ کیا تھا؟ ان کے حمایتی اور مخالفین اپنی اپنی سائیڈ پر قائم رہیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کئی روپ رکھتا ہے۔ اکثر ایسے روپ بھی، جن کو وہ خود بھی نہیں پہچانتا۔
ایک چوہے پر اگر سادہ تجربہ کیا جائے کہ اس کو راستے کے آخر میں پنیر ملے لیکن اٹھاتے وقت برقی جھٹکا لگے تو اگلی بار یہ کشمکش واضح ہو گی۔ کبھی آگے، کبھی پیچھے، کبھی پنیر کی طرف، کبھی دوسری طرف۔ یہ کشمکش بائیولوجیکل ذہن کی خاصیت ہے اور ذہن کی اصل سٹیٹ حالت تنازعے والی ہے۔ اور یہ ذہن کی بڑی طاقت ہے۔ بہت سی طرف سے آتے فیصلے۔ پیسے بچا لئے جائیں یا نیا فون خرید لیا جائے۔ سگریٹ چھوڑ دیا جائے یا ایک ڈبی اور سہی۔ مقابلہ کریں کہ بھاگ جائیں۔ اس کی مدد کر دیں یا منہ دوسری طرف کر لیں۔
ابراہام لنکن صدر بنے تو اپنے مخالفین ولیم سیورڈ اور سالمن چیز کو کابینہ میں رکھا۔ فروری 2009 کو زمبابوے تباہ حالی کا شکار تھا تو صدر رابرٹ موگابے نے اپنے مخالف مورگن ونگیراسی سے اقتدار کی شراکت کر لی۔ ان پر کچھ ہی عرصہ پہلے انہوں نے قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔ چین میں ہو جن تاوٗ نے اپنے مخالفین شی جن پنگ اور لی کیشینگ کو اہم ترین عہدوں کے لئے نامزد کیا جن کے ساتھ ملکر چین کی اقتصادی اور سیاسی مستقبل کی بنیاد رکھی۔
دماغ بھی اسی طرح مخالفین کی ٹیم ہے۔ مقابلہ کرنے والی پارٹیاں جو کہ آپس میں مقابلہ بھی کرتی ہیں اور گرتے کو اکٹھا ہو کر تھام بھی لیتی ہیں۔ لنکن کی زبان میں “کسی بڑے مقصد کے لئے اختلاف رکھنے والے مخالفین کا اتحاد”۔
ویسے ہی جیسے لبرل ہوں یا پھر کنزرویٹو، دونوں ہی ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔ دونوں کے پاس ملک چلانے کا اپنا لائحہ عمل اور طریقہ ہوتا ہے۔ اسی طرح دماغ مخالفین کی مقابلہ آرائی ہے جس میں سے ہر کسی کا خیال ہے کہ وہ ٹھیک ہے۔
تو پھر آپ کونسے والے ہیں؟ وہ جو اس وقت تھے جب غصہ چڑھا تھا اور اونچی آواز میں بول رہے تھے یا وہ جو اس کے بعد اپنے الفاظ پر پچھتا رہے ہیں؟ یہ دونوں آپ ہی ہیں۔