ہنری جارج کِین سترہ سال کا تھا جب 1798ء میں مدارس پہنچا اور انگریزی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ ایک سال بعد جب سرنگاپٹم کا محاصرہ ہوا تو کِین اگلی صف میں تھا۔ اس کے بعد اس کی صحت خراب ہونے لگی۔ کمانڈر ان چیف لارڈ ہیرس اس کا رشتہ دار تھا۔ اس کی وساطت سے کمپنی بہادر کی سول سروس میں آ گیا۔ سول سروس کے نوجوان افسروں کی تربیت تب کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں ہوتی تھی۔ امتحان ہوا تو کِین نے فارسی‘ عربی اور اسلامی قانون میں ٹاپ کیا۔ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد 1811ء میں وہ برطانیہ چلا گیا جہاں مشہور ’’ایسٹ انڈیا کالج‘‘ میں اسے عربی اور فارسی کا فل پروفیسر مقرر کیا گیا۔
ہمارے حوالے سے کِین کا اصل کارنامہ ہندوستان کی تاریخ پر اس کی وہ کتاب ہے جو مختصر ہونے کے باوجود اس موضوع پر لکھی گئی باقی کتابوں سے منفرد اور ذائقے میں الگ ہے۔ اس کے ابواب کے عنوانات تقویم یعنی سنین کے لحاظ سے ہیں۔ پانی پت کی تیسری لڑائی کا احوال اس نے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ مرہٹے پورے ہندوستان پر قابض ہو چکے تھے۔ صرف دو چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں ان کے راستے میں حائل تھیں۔ جنوب میں نظام اور شمال میں روہیلے پٹھان اور اودھ کی مسلمان ریاست۔ ایسے میں احمد شاہ ابدالی نہ آتا تو آج ہندوستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔ کِین لکھتا ہے کہ فیصلہ کن کردار اودھ کے شجاع الدولہ کا تھا۔ مرہٹوں نے ’’سنی‘‘ افغانوں اور روہیلوں کے خلاف اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن شجاع الدولہ نے شیعہ سنی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر احمد شاہ ابدالی اور روہیلوں کے ساتھ مل کر مرہٹوں سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پانی پت کی تیسری لڑائی میں مسلمانوں کے متحدہ لشکر کو شکست ہو جاتی تو برصغیر میں ایسا اکھنڈ بھارت بنتا کہ اندلس کی تاریخ کو دنیا بھول جاتی۔ کِین لکھتا ہے کہ ’’اگر مرہٹوں کو اس جنگ میں تسخیر نہ کیا جاتا تو برطانوی اقتدار بنارس سے آگے نہ بڑھ سکتا‘‘… یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ اور شمالی برصغیر کے شیعہ مسلمانوں اور سنی مسلمانوں کا فیصلہ کن اتحاد قیامِ پاکستان کے راستے کا نمایاں سنگِ میل تھا!
تین لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں ہندو فوج! اس سے زیادہ مستحکم ہندو اتحاد غالباً دوبارہ وجود میں نہ آ سکا۔ اور ایک لاکھ سے کم مسلمان! حسین حقانی اس وقت ہوتے تو مسلمانوں کو ایک ہی مشورہ دیتے کہ تم ہندوئوں کے ساتھ ’’برابری‘‘ کا خواب نہ دیکھو۔ یہی مشورہ انہوں نے پرسوں بھارت کے روزنامہ ہندو کے ذریعے پاکستان کو دیا ہے۔ دو فروری کے اس اخبار میں چھپا ہوا ان کا مضمون… ’’برابری کے لیے پاکستان کی مغالطہ انگیز تلاش‘‘ انسان کو حیرت میں گم کر دیتا ہے۔ جب وہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر تھے تو انہیں امریکہ میں امریکہ کا سفیر کہا جاتا تھا۔ اس مضمون کے بعد‘ جو روزنامہ ’’ہندو‘‘ میں لِیڈ کے طور پر شائع ہوا ہے‘ نہ جانے انہیں کیا کہا جائے گا یا کیا کہنا چاہیے!
کراچی یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہنے والے حسین حقانی کا سیاسی سفر اسلامی جمعیت طلبہ سے آغاز ہوا۔ میاں نوازشریف کے کیمپ سے لے کر بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کے پڑائو تک کئی منزلیں سر کیں۔ پاکستانی سیاست کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ کوثر نیازی‘ محمد علی درانی اور جاوید ہاشمی سمیت کئی سیاسی مسافروں کا نقطۂ آغاز ایک مذہبی سیاسی جماعت یا اس کا سٹوڈنٹس ونگ ہی رہا ہے۔ لیکن ان سیاسی مسافروں میں حسین حقانی کی ذہانت اور قابلیت بلند ترین سطح کی ہے۔ انگریزی تحریر و تقریر پر حیرت انگیز دسترس اور مطالعہ کی بے کنار وسعت ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس کالم نگار کو باربرا ٹک مین کی عہد ساز تصنیف March-Of-Follies سے حقانی صاحب ہی نے متعارف کرایا تھا۔ تازہ ترین بین الاقوامی مطبوعات کی انہیں حیرت انگیز طریقے سے خبر رہتی ہے۔
پاکستان امریکہ تعلقات اور مذہبی انتہا پسندی جیسے موضوعات کے بعد ان کی تازہ ترین دلچسپی پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ’’حقیقت پسندی‘‘ کا درس دینا لگتی ہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
انہیں شکوہ یہ ہے کہ پاکستانی اہلِ سیاست اور ذرائع ابلاغ نے امریکی صدر کے حالیہ دورے کے بعد یہ کیوں کہا ہے کہ بھارت کو زیادہ اہمیت دے کر امریکہ جنوبی ایشیا میں علاقائی عدم توازن پیدا کر رہا ہے! علاقائی عدم توازن (Regional Imbalance) کو انہوں نے واوین میں لکھا ہے جو طنز کا مظہر ہے! پھر وہ بھارت کی اقتصادی کامیابیاں گنواتے ہیں اور گلہ کرتے ہیں کہ پاکستان اب بھی مسئلہ کشمیر کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیراعظم کے علاوہ کسی نے جموں اور کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ پاکستان کی معیشت‘ سیاست اور حجم سمیت ہر پہلو میں کیڑے نکالنے کے بعد حقانی صاحب اس ’’امید‘‘ کا اظہار کرتے ہیں کہ چین اپنے طور پر توازن کو پاکستان کے حق میں نہیں پلٹا سکتا اور یہ کہ چونکہ چین کو چینی ترکستان میں مسائل کا سامنا ہے اس لیے وہ بھی اس عالمی رائے سے ضرور متاثر ہوگا کہ پاکستان اسلامی دہشت گردی کا مرکز ہے۔ آخر میں وہ اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ برابری کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ اور اگر سکیورٹی اور خوشحالی کے لیے کوشش کرنی ہے تو اپنا ’’سائز‘‘ یاد رکھنا چاہیے۔ پاکستان کو اپنی حیثیت یاد دلانے کے لیے وہ بلجیم کے مقابلے میں جرمنی اور ویت نام کے مقابلے میں چین کے سائز کا حوالہ دیتے ہیں۔
حقانی صاحب پاکستان کے سائز کے حوالے سے‘ جسے وہ بار بار ’’اپنا‘‘ ملک قرار دیتے ہیں‘ لگتا ہے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ ویت نام کے مقابلے میں انہیں چین تو یاد ہے لیکن امریکہ‘ جو اب ان وطن ہے‘ یاد نہیں جسے چھوٹے ’’سائز‘‘ کے ویت نام نے لوہے کے چنے چبوا دیے۔ رہا یہ مسئلہ کہ پاکستان بھارت کے ساتھ‘ ان کے بقول‘ برابری کا خواہاں ہے تو کیا وہ بین السطور یہ تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان نیپال‘ سکم‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش کی طرح ایک ’’علاقائی‘‘ ریاست بن کر رہے؟
پاکستان بھارت کے ساتھ ہمسری کا خواہاں ہے یا نہیں‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت شدید احساس کمتری کا شکار ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ پاکستان بھارتی میڈیا اور بھارتی اہلِ سیاست کے اعصاب پر سوار ہے۔ ہر قابلِ ذکر بھارتی سیاستدان کی انتخابی مہم پاکستان کے اردگرد گھومتی ہے۔ بڑے سائز کے باوجود بھارت پاکستان کے خودساختہ خوف سے آج تک باہر نہیں نکل سکا۔ وہ بھارتی طالب علم یاد آ رہا ہے جس سے کچھ عرصہ قبل آسٹریلیا میں ملاقات ہوئی۔ اس کے ماں باپ نے ایک ہی نصیحت کی تھی کہ پاکستانیوں سے دور رہنا۔ پاکستانیوں کا رویہ اور حسنِ سلوک دیکھ کر وہ حیران ہوا اور اس نے خود ہی پاکستانیوں کو بتایا کہ اسے کیا ہدایت دی گئی تھی!
مان لیا کہ اقتصادی میدان میں پاکستان سے حماقتیں ہوئیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی شعبے میں ہم پیچھے ہیں مگر اس کا مطلب یہ کیسے نکلتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ سے دستبردار ہو جائے؟ ظاہر ہے یہ ایک غیرمنطقی اندازِ بحث ہے اور اس کی پشت پر یہ فیصلہ ہے کہ ہر حال میں بھارت کی طرفداری میں اور پاکستان کے خلاف لکھنا ہے!
دنیا میں صرف سائز فیصلہ کن نہیں ہوتا۔ بہت سے دوسرے عوامل بھی ہیں۔ حسین حقانی اعلیٰ شعری ذوق رکھتے ہیں۔ کیا عجب احمد ندیم قاسمی کی یہ نظم انہوں نے پڑھی ہو ؎
میرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں تیری سیاست فن میں
زہر کیوں گھولتی ہے
میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا
رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
رہا بھارت کی طرفداری کرتے وقت اپنی پاکستانیت کا ذکر تو غنی کاشمیری پہلے کہہ گیا ہے ؎
غنیؔ روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نورِ دید اش روشن کند چشمِ زلیخا را
http://columns.izharulhaq.net/2015/02/blog-post_4.html
“