ٹکسالی دروازہ لاہور کے معروف بارہ دروازوں میں سے ایک ہے. ٹکسالی دروازہ مغل دور میں تعمیر کیا گیا تھا. کہا جاتا ہے کہ ٹکسالی گیٹ کا نام یہاں سکے ڈھالنے کیلئے قائم کی گئی ٹکسال کی وجہ سے پڑا. کنہیا لال ’’تاریخ لاہور‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’شاہان سلف کے عہد میں اس دروازے کے اندرون شمالی میدان میں دارالضرب شاہی ایک عالی شان مکان بنا ہوا تھا اور اسی جگہ ہر ایک کا سکہ مسکوک و مضروب ہوتا تھا اس ٹکسال کے سبب سے اس کا نام ٹکسالی دروازہ مشہور ہوا” جبکہ سید محمد لطیف نے ٹکسالی دروازے کے نام کہ متعلق دو اور روایات بھی درج کی ہیں. بقول سید لطیف “اس دروازے کا رخ ٹیکسلا کی جانب ہے جو مہاتما بدھ کے قابل تعریف کارناموں کے لیے مشہور ہے…..یہ بات واضح ہے کہ اس نام کو ٹکاس سے اخذ کیا گیا ہے کو ایک دور میں پنجاب کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے اور اب کافی تعداد میں جہلم اور راوی کے درمیان پہاڑیوں میں موجود ہیں”
راولپنڈی گزیٹیئر 94- 1893 میں درج ہے کہ “ٹکاس” ٹیکسلا کہ قدیم باشندے تھے اس کے علاوہ تاکسیلیز یا ٹیکسالیز نامی حکمران بھی گزرا ہے جس نے دریاے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے پر حکومت کی. مگر لاہور گزٹیئیر 1883ء کے مرتبین نے ٹکسالی دروازے کے ٹیکسلا کی جانب ہونے کے کو غلط قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے ” ٹیفن تھیلر نامی سیاح کا بیان ہے کہ یہ دروازہ ٹیکسلا کے قدیم شہر سے منسوب ہے لیکن اگر ٹیکسلا آثار قدیمہ کا شہر ہے تو راولپنڈی کے قریب شاہ کی ڈھیری کے آثار اس سے پہلے آتے ہیں. اس طرح یہ مفروضہ درست معلوم نہیں ہوتا” بعض لوگ اس دروازے کا نام “لکھی دروازہ” بھی بتاتے ہیں.البتہ معروف یہی ہے کہ یہ دروازہ عہد شاہ جہانی میں تعمیر ہونے والی ٹکسال کی وجہ سے ٹکسالی دروازہ کہلاتا ہے.
موجودہ دور میں نہ تو ٹکسال ہے اور نہ ہی دروازہ. عموماً لاہور میں سیر و سیاخت کے لیے آنے والے شریف سیاخ ٹکسالی دروازے کی جانب رُخ نہیں کرتے اس کی وجہ غالباً ٹکسالی کا ریڈ لائٹ ایریا کے قریب ہونا ہے پر یقین جانیں ٹکسالی کے لوگ ہمارے جتنے ہی “شریف” ہیں. ٹکسالی میں دیکھنے کی اور بھی کئ چیزیں ہیں. داخل ہوتے ساتھ ہی قدیم ٹکسالی مسجد متوجہ کرلیتی ہے. ٹکسالی دروازہ مذہبی ہم آہنگی کی بھی عمدہ مثال ہے یہاں مسجد, مندر اور گردوارہ قریب قریب ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ ہمارے جتنے مُتشدد نہ تھے. ٹکسالی کا شیخوپوریاں بازار جو اکبر کے صاحبزادے سلیم عرف شیخو کہ نام پر ہے اپنے کھسہ جات، کوہاٹی اور پشاوری چپل کے حوالے سے خاص شہرت کا حامل ہے۔
آلات موسیقی کی معروف مارکیٹ لاہنگا منڈی بھی ٹکسالی میں ہے. اس کے علاوہ ٹکسالی میں موجود بگھی بازار, ترنم چوک, مسلم ہائ سکول, زمرد چوک بھی کافی مشہور ہیں. ٹکسالی مختلف شعبوں میں کمال حاصل کرنے والے ستاروں کی رہائش گاہ بھی رہا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی,علامہ اقبال,چیترم,مولانا عبدالقادر آذاد ,ملکہ ترنم نور جہاں, شاہدہ منی, ادکارہ نادرہ و نازلی, شازیہ منظور, سرحد پار شہرت پانے والی اداکارہ پروین بوبی, سابق پی سی بی چیف سلیکٹر محمد الیاس, معروف کرکٹر نزر محمد و مدثر نزر, اور محسن لاہور سر گنگا رام قابل ذکر ہیں. سر گنگارام کی سمادھی بھی ٹکسالی کے قریب ہی ہے. اور مقام افسوس یہ ہے کہ لاہور کی تعمیر و ترقی کے لیے تن من دھن سے کام کرنے والے اس محسن کی سمادھی اور رہائش آج بحالی کے لیے ترس رہی ہے.
لاہور کی وجہ شہرت کھابے شہاب الدین حلوائ, فضل الدین المعروف پھجا, عارف چٹخارہ, شاہ چکن توا,تاج محل سویٹ ٹکسالی کی شان ہیں. لاہور کا اولین سینما ناظر تھیٹر جو تقسیم کے بعد پاکستان ٹالکیز کہلایا بھی ٹکسالی میں ہے. ٹکسالی کے قریب ہی ایک گوراہ قبرستان بھی ہے آبادی میں ہونے کے باوجود آج یہ قبرستان ویران نظر آتا ہے. تحقیقات چشتی میں درج ہے کہ پنجابی کے معروف شاعر مادھو لال حسین کا حجرہ بھی ٹکسالی میں ہے. لال حسین سے منسوب حجرے میں استاد دامن نے بھی رہائش احتیار کی. آجکل اس میں استاد دامن اکیڈمی قائم ہے. کبھی یہاں ادبی محفلیں ہوا کرتی تھیں اب یہ ادبی بیٹھکیں ویران ہیں. اندرون ٹکسالی دروازے میں حکیم فضل الٰہی مرحوم کا معروف دواخانہ ’’چشمہ حیات‘‘ آج بھی قائم ہے. دواخانے کے سامنے ایک جوتوں کی دکان سے ایک صاحب نے آواز دی انہوں پوچھا تاریخی عمارتیں تلاش کر رہو میاں؟ کہا جی معاملہ تو کچھ ایسا ہی ہے تو انہوں کچھ جگہوں کی نشاندہی کی اُن سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ سابق اولمپین ہیں اور آجکل ریلوے کی ٹیم کے کوچ ہیں. انہوں نے بتایا کہ ٹکسالی دروازہ فن پہلوانی کے حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے کئی نامور پہلوان ٹکسالی کے اکھاڑوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان میں بوٹا پہلوان ،مہنی پہلوان، گاموں پہلوان بالی والا ,گونگا پہلوان ساجا گھگھو، فرید پینٹر، برکت ناگاں والا، محمد حسین اور عظیم پہلوان قابل ذکر ہیں۔ ٹکسالی میں قدیم شاہجہانی مسجد بھی ہوتی تھی اب اس کو گرا کر نئی مسجد تعمیر کردی گئی ہے اس کے ساتھ ہی معروف مزار بابا نو گزے پیر ہے۔ شاید اندرون لاہور میں ٹکسالی دروازہ وہ واحد جگہ ہے جہاں میوزک کلچر،تاریخی نوادرات, لاھوری کھانا سب کچھ ایک جگہ ملتا ھے……
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔