توازن اردو ادب تنقیدی پروگرام نمبر ١٤ کی رپورٹ از مسعود حساس
محرم و عاشورہ ایک دوسرے کیلیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں یہی بنیاد ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا نام لیا جائے تو دوسرا از خود ذہن میں کوند جاتا ھے
محرم و عاشورہ کے تعلق سے بہت سی باتیں ہمارے درمیان مشتہر ہیں کچھ کا تعلق احادیث سے ہیں اور کچھ ہمارے معاشرے کی پیدا کردہ بھی ہیں
تاہم ان کو احترام و محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جسے نیک شگون تصور کیا جانا چاھیے
عاشورہ فقط ہمارے دور میں ہی قابل احترام ہے ایسا قطعا نہیں بلکہ اس کے روابط صدیوں سے مربوط نظر آتے ہیں
نبی کریم صلعم کی بعثت سے قبل کفار مکہ کے یہاں عاشورہ کے دن روزہ کی حالت میں کعبے کا غلاف تبدیل کرنے کا رواج تھا جبکہ انہیں ایام میں یہودِ مدینہ بھی روزے کا اہتمام کرتے تھے کیونکہ انکا ماننا تھا کہ اسی مبارک دن اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات دیتے ہوئے اسے غرق کردیا تھا
البتہ کفار مکہ کا روزہ موسی علیہ السلام کے احترام میں نہیں بلکہ کہا جاتا ھے کہ انہیں کچھ باتیں حضرت ابراہیم سے ملی تھیں جس کے سبب روزہ رکھا کرتے تھے
جبکہ ہم مسلمانوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سینے سے لگاتے ہوئے عاشورہ کو محترم گردانا جس کی تشریح میں علماء نے متعدد وجوہات رقم کی ہیں
ویسے مورخین نے اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہویے کئی تاریخی سوانح و واقعات درج کیے ہیں مثلا
اسی دن سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئ
اسی دن اللہ کے رسول نے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا
اسی دن قیامت قائم ہوگی
اسی دن ایوب ع س کو شفا ملی
اسی دن اسمعیل ع س کی پیدائش ہوئ
اسی دن سلیمان ع س کو سلطنت واپس ملی
اسی دن موسی ع س پہ توریت نازل ہوئ
اسی دن انہیں فرعون سے نجات ملی
اسی دن یوسف ع س کی اپنے ابو جان سے ملاقات ہوئی
اسی دن انہیں مصر کا منسٹر بنایا گیا
اسی دن نوح ع س کی کشتی جودی پہاڑ پہ اتری
اسی دن خلیل اللہ کیلیے انگارے گلزار بنائے گیے
اسی دن آسمان پیدا کیا گیا
اسی دن آدم ع س کی تخلیق ہوئ
اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئ
اسی دن زمین بنائ گئ
اسی دن یونس ع س مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے
اسی دن عیسی ع س کو آسمان پہ اٹھایا گیا
اسی دن ان کی پیدائش بھی ہوئ
اسی دن بارش کا پہلا قطرہ زمین پہ پڑا
ایسی نہ جانے کتنی تاریخی باتیں ہیں جو اس دن سے منسوب کی جاتی ہیں بنا بریں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد روایتیں متعدد طرق سے اسی دن کی اہمیت کے واسطے مروی ہیں جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
اسی بنیاد پہ توازن اردو ادب گروپ نے محرم الحرام کے پیش نظر میجر شہزاد نیّر کی زیرِ صدارت مسالمے کا احمر جان کی قیادت میں انعقاد کیا جبکہ اس کےمہمانانِ خصوصی صابر جاذب لیہ پاکستان ڈاکٹر مینا نقوی بھارت اور مہمانانِ اعزازی ماورا سید کراچی پاکستان ایڈوکیٹ متین طالب بھارت تھے جس کی نظامت حرف و صوت پہ قدرت رکھنے والی خوبصورت لب و لہجے کی شاعرہ گل نسرین نے کی تنقیدی پہلو سے ڈاکٹر لبنی و میجر شیزاد کے علاوہ مسعود حساس نے بھر پور نمائندگی کی
جس میں پیش کیے گیے کلام پہ تحریری و صوتی پیغامات موصول ہوئے جنہیں من و عن پیش نہیں کیا جا سکتا البتہ پیش خدمت ھے شعرا کے نمونئہ کلام کی جھلکیاں
دشت و صحرا اور کہسار و سمندر سب کے سب
شان قدرت کے تری یا رب ہیں مظہر سب کے سب
کیا زمین و آسماں ، کیا کہکشاں ، کیا مہر و ماہ
سب میں تیرا نور ہے تجھ سے منور سب کے سب
کامل جنیٹوی سنبھل (یو۔پی۔) بھارت ۔
زباں پر نام آتے ہی جھکے جاتے ہیں دل اور جاں
معطّر روح ہوجائے بذکرِ سیّدِ عرفاں
اسی کے فیض نے بخشی ہے ذرّوں کو درخشانی
وہ اُمّی جسکے آگے سربسجدہ علم اور عرفاں
خبیب تابش۔انڈیا
تشنگی کے مطالب اگر آئیں گے
کربلا کے مناظر نظر آئیں گے
منصبِ آدمیّت ملی ہے جسے
سر بھی نیزے پہ ان کے نظر آئیں گے
کربلا والوں کو پیش آئے تھے جو
پیش ایسے کسی کو سفر آئیں گے؟
گل نسرین ملتان پاکستان
نگاہ برق کو جب شعلہ بار دیکھا ہے
فلک سے اٹھتا دھواں بےشمار دیکھا ہے
فضائے کرب و بلا سے یہ آرہی ہے صدا
حسین سا نہ کہیں شہسوار دیکھا ہے
رضاالحسن رضا
"کب میں نے یہ کہا کہ سزائیں مجھے نہ دو"
کرب و بلا کی سخت خزائیں مجھے نہ دو
نسبت ہے فاطمہ سے صداقت شعار ہوں
میں پیکر وفا ہوں جفائیں مجھے نہ دو
نیر رانی شفق پاکستان
صحرائے کربلا میں یہ آنا حسینؑ کا
دیکھونبیؐ سے عہد نبھانا حسینؑ کا
عظمت پہ غور کیجیے نسبت تو دیکهيے
محبوب ِ کردگار ہے نانا حسینؑ کا
کٹتی ہوئی ہر ایک گھڑی کربلا کے نام
آتا ہوا ہر ایک زمانہ حسینؑ کا
ڈاکٹر لبنیٰ آصف
خدا کے حکم پہ یوں فیصلہ تو ہونا ہے
یوں یا حسین سدا کربلا تو ہونا ہے
یزیدِ عصر کو عادت ہے جھوٹ کہنے کی
لبِ فرات پہ سچ کوصدا تو ہونا ہے
عامر یوسف لاہور پاکستان
فاطمہ اور علی کا دلارا حسین
مصطفیٰ کی ہے آنکھوں کا تارہ حسین
معرکہ حق و باطل کا درپیش ہے
کربلا نے ہے پھر سے پکارا حسین
پرورش جس کی صحنِ نبوت نے کی
روشنی کا ہے منبع ، منارہ حسین
ملک سکندر لاہور پاکستان
جھکایا سر فقط مولا کے آگے
کسی کے خوف سے ہرگز نہ بھاگے
سنہری اک رقم تاریخ کردی
خدا کی راہ میں جاں پیش کردی
سبق سیکھو حسین ابنِ علی سے
نبی ءِ پاک کے کامل ولی سے
عامرؔحسنی ملائیشیا
جنت کی اُس کو رب نے سنائی نوید ہے
ہوتا حُسین تیری طرح جو شہید ہے
آنسو غمِ حُسین میں بہتے اُنہی کے ہیں
جن کے دلوں میں عشق نبی کا شدید ہے
اکمل حنیف، لاہور پاکستان
وہ ھجرت ہو خیبر کہ بدرو احد ہو۔
کی نصرت بہر جا علی نے نبی کی۔
وصی اپنا مولی علی کو بنایا۔
قرابت تو دیکھو علی سے نبی کی۔
علی مرتضیٰ نے تو بچپن سے کی ہے۔
حفاظت نبی کی اطاعت نبی کی۔
محمد شاکر عزم
اسلام پر نثار ہے کنبہ حسین کا
کتنا عظیم تر ہے یہ جملہ حسین کا
شہ کا نواسہ، ابن علی، فاطمہ کا لال
واللہ کیا مقام ہے بالا،حسین کا
جو دشمنِ حسین ہیں ہونگے ذلیل و خوار
تاحشرلہلہائے گاجھنڈا حسین کا
احمد کاشف مہارشٹر انڈیا
حق کیا ہے یہ جہاں کو بتایا حسین نے
اپنے لہو سے دیں کو بچایا حسین نے
خوشبو طواف کرتی ہے ہر لمحہ آس پاس
کربل میں ایسا پھول کھلایا حسین نے
اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
سلام ان پر کہ جو عالی وقار و فخرِ عظمت ہیں
سلام ان پر کہ جو شیرِ خدا نازِ شجاعت ہیں
سلام اس سر کو جس پہ بندگی خود ناز کرتی ہے
سلام ان پر بھی زیرِ تیغ جو محوِ عبادت ہیں
صبیحہ صدف بھوپال
سوار ِ دوش ِ پیمبر حسین زندہ باد
خدا کے لطف کے مظہر حسین زندہ باد
طوآف آپکا دنیا کرے گی محشر تک
خدا کے دین کے محور حسین زندہ باد
اخلادالحسن اخلاد
تنہا تھی کل تو مثل ِ بہتر حُسینیت
اور آج صف بہ صف ہوئ لشکر حُسینیت
ہر دور ِ جور و جبر میں ظالم کے سامنے
صدیوں کی خامشی میں سُخنور حُسینیت
ایمان قیصرانی
واللّٰہ، کیا بیان ہو عظمت حسینؓ کی
"تھی ہے رہے گی دل پہ حکومت حسینؓ کی"
نفرت یزیدِ وقت سے ہردم کریں گے وہ
جن کے دلوں میں ہو گی محبت حسینؓ کی
ایڈوکیٹ متین طالب، بھارت
بنجر زمیں په پھول کھلایا حسین نے
جاں دے کے دین_حق کو بچایا حسین نے
ترسارهی تھیں پیاس کو موجیں فرات کی
تشنه لبی کو جام بنایا حسین نے
ماورا سید کراچی پاکستان
لو آنسوؤں میں لپٹ کے پیہم ، دلوں سے غم کے پیام آئے
لو پھر محرم کا چاند نکلا , لو کربلا میں امام آئے
فلک پہ مہتاب خوں میں تر ہے ، زمیں سے سورج قریب تر ہے
فضاؤں میں ہے لہو کی خوشبو ، لہو لہو صبح شام آئے
ڈاکٹر مینا نقوی بھارت
ستم ستم یزدیت ، کرم کرم حسینیت
حزر حزر یزیدیت ، نعم نعم حسینیت
ہے آفتابِ ظلم شق ، بلند بام دینِ حق
سناں سناں لہو لہو ، علم علم حسینت
سرِ یزید فرش پر ، سرِ حسین عرش پر
نگوں نگوں یزیدیت، حکم حکم حسینیت
صابر جاذب لیہ پاکستان
" شکست کس کی "
عجیب منظر ہے !
دشت ِ کرب و بلا میں
خیموں کی ایک بستی نے
کاخ ِ شاھی گرا دیا ہے
زمانہ دیکھے
کہ بے ردائی نے سچ کے نیزے سے
جھوٹ کا پردہ نوچ ڈالا ہے
پیاس کے بے کراں سمندر سے
صبر کی ایک موج آکر
فرات سارا نگل گئی ہے
یہ کیسا منظر ھے !
مشک بردار بازوؤں سے
کسی نے تلوار کاٹ دی ھے
گلوئے اصغر نے نوک ِناوک کو مات دی ھے
عجیب منظر ھے !
ایک شہہ رگ نے
دھار خنجر کی کند کر دی ھے
ایک سر وہ جو اپنے تن سے جدا ھوا ھے
مرا نہیں ھے
مقابلے میں وہ کتنے سر تھے
جو زندہ بچنے پہ ناز کرتے تھے
اب شہیدوں کی زندگی سے
شکست کھا کر مرے پڑے ھیں
شہزاد نیر
اخیر میں صدر محفل شہزاد نیّر صاحب نے فرمایا کہ توازن اردو ادب کا شکر گزار ہوں کہ اس با برکت محفل کا حصہ بناکے مجھے سرفرازی عطا کہ در اصل حسین اور انکے رفقاء انسانیت کا سرمایہ ہیں حرف انکار جس کسی نے بھی پیشانی پہ لکھا وہ دو اصل اجتماعی ضمیر ھے اور جس نے بھی جبر واستبداد کی بیعت سے انکار کیا وہ استعارئہ حریت ہے حسین اور خانوادئہ حسین کے علاوہ ان کے رفقاء و جانثاران سبھی مزھب و مسلک مقام و ملک رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں
ہمارے توازن اردو ادب کے تمام شعرا نے اچھا اور معیاری کلام پیش کیا جسے میں دورانِ مشاعرہ سنتا رہا اور ان پہ تبصرے بھی کرتا رہا اخیر میں نظامت کی تعریف کرتے ہوئے اپنا کلام بھی حصول تبرک کیلیے پیش فرمایا
مسعود حساس کویت