توازن اردو ادب
پروگرام نمبر۔5
بعنوان ادب لطیف
مورخہ 18 جولائ بروز جمعرات 2019 کو منعق ہوا
صدارت
روبینہ میر کشمیر بھارت
پروگرام آئیڈیا
احمد منیب لاہور
پروگرام آرگنائزر
احمر جان پاکستان
پبلیشر
عامر حسنی ملائیشیا
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مجموعہ کلام۔
شوہر برائے فروخت
بازار میں اک نئی دکان کھلی. جہاں شوہر فروخت کیے جاتے تھے۔
اس دکان کے کھلتے ہی عورتوں کا ہجوم بازار کی طرف چل پڑا… سبھی دکان میں داخل ہونے کے لیے بے چین تھیں!
دکان کے داخلہ پہ بورڈ پر کچھ ہدایات اور شرائط لکھی تھیں:
"" >> اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک دفعا ہی داخل ہوسکتی ہے.
>> دکان کی 6 منزلیں ہیں، اور ہر منزل پر شوہروں کے اقسام کے بارے میں لکھا ہوا ہے.
>> خریدار عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے.
>> مگر ایک بار اوپر جانے کے بعد پھر سے نیچے
نہیں آ سکتی سواے باہر نکل جانے کے.""
ایک خوبصورت لڑکی کو دکان میں داخل ہونے کا موقع ملا….
پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا:
”اس منزل کے شوہر اچھے روزگار والے اور الله والے ہیں."
لڑکی آگے بڑھ گئی….
دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا:
”اس منزل کے شوہر روزگار والے، الله والے ہیں، اور بچوں کو پسند کرتے ہیں."
لڑکی پھر آگے بڑھ گئی….
تیسری منزل پر لکھا تھا:
”اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں، الله والے ہیں، بچوں کو پسند کرتے ہیں،
اور خوبصورت بھی ہیں."
یہ پڑھ کر لڑکی کچھ دیر کیلئے رک گئی مگر پھر یہ سوچ کر کہ چلو ایک منزل اور اوپر جا کر دیکھتے ہیں
چوتھی منزل کے دروازے پر لکھا تھا:
”اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں، الله والے ہیں، بچوں کو پسند کرتے ہیں، خوبصورت بھی ہیں، اور گھر کےکاموں میں مدد بھی کرتے ہیں."
یہ پڑھ کر لڑکی کو غش سا آنے لگا، سوچا کہ ياﷲ ایسے بھی مرد ہیں دنیا میں..! وہ سوچنے لگی کہ یہاں سے شوہر خریدے اور گھر چلی جائے. مگر پہر بھی اس کا دل نہ مانا تو ایک منزل اور اوپر چلی گئی.
وہاں دروازہ پر لکھا تھا:
”اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں، الله والے ہیں، بچوں کو پسند کرتے ہیں، بے حد خوبصورت ہیں، گھر کے کاموں میں مدد کرتے ہیں، اور رومانٹک بھی ہیں"
اب اس عورت کے اوسان جواب دینے لگے وہ خیال کرنے لگی کہ اس سے بہتر مرد بھلا اور کیا ہو سکتا ہے. مگر اس کا دل پھر بھی نہ مانا وہ اگلی منزل اوپر چلی آئی.
یہاں بورڈ پر لکھا تھا:
”آپ اس منزل پر آنے والی 3338 ویں خاتوں ہیں! اس منزل پر کوئی بھی شوہر نہیں ہے!یہ منزل صرف اس لئے بنائی گئی ہے
تا کہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ
عورت کو مطمئن کرنا ناممکن ہے!
ہمارے اسٹور پر آنے کا شکریہ. سیڑھیاں باہر کی طرف جاتی ہیں.
صبر و شکر کرنا سیکھیں
اور نماز قائم کریں.
روبینہ میر کشمیر بھارت
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مزاحیہ غزل بزم کے باذوق قارئین کے حوالے
شادی رچا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
دھوکا میں کھا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
منہ میں اب ایک دانت سلامت نہیں تیرے
ہڈی چبا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
جھانسے میں آج آتا نہیں کوئی کس لئے
چونا لگا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
جنتا کو غم کے آنسو پلانے لگا ہے جو
چائے پلا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
گھوڑے کی ریس کا جو بڑا نام بن گیا
مرغا لڑا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
قوال نام چین بنا ہے جو دوستو
سحری جگا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
اب نوکری گئی تو میری اہمیت نہیں
بیگم کو بہا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
یوں دیکھتے پی دیکھتے اک لین لگ گئی
چکر چلا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
اتنا اکڑ رہا ہے جو پاشو، عمان میں
اونٹیں چرا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
محمد اقبال
بیلن نظام آبادی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مزاح
محبت کی ، وفا کی ، پیار کی کھٹیا کھڑی کردی
کبھی دل اور کبھی دلدار کی کھٹیا کھڑی کردی
ادھر سی۔ او۔ کو ڈانٹا ایس پی نے اپنے دفتر میں
ادھر سی او نے تھانے دار کی کھٹیا کھڑی کردی
کامل جنیٹوی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ہم نے اپنا الّو سیدھا رکھا ہے
چڑھتےسورج سے ہی ناطہ رکھا ہے
ہذا مِن فَضْلِ رَبّی کے سائے میں
روح افزا کا لوکل نسخہ رکھا ہے
پانی میں ہم دودھ ملاکربیچیں گے
نام دُکان کا سَت بسم اللہ رکھا ہے
پٹواری سے مل کر میرے چاچا نے
میرے کھیت میں اپنا حصّہ رکھا ہے
گاڑھا سا محلول ہے گڑ اور چینی کا
شہد کا نام تو شیریں عمدہ رکھا ہے
مولانا نے حلوے سے منہ موڑ لیا
ہم نے تو سوجی کا حلوہ رکھا ہے
فیشن دیکھ کےکون کرےاب اندازہ
اللہ رکھی ہے کہ اللہ رکھا ہے
امرت پی کر بھی شاید مر جاؤں گا
زہر نے اب تک مجھ کو زندہ رکھا ہے
میرے باطن میں ہیں کتنے بل اشرف
پر ظاہر کو سیدھا سادہ رکھا ہے
اشرف علی اشرف
سندھ پاکستان
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ایک صاحب کو چار شادیوں کا شوق تھا تو اس نے یہ خلاصۃ نکالا : شادی کے چار حروف
نکاح کے چار حروف
شوہر کے چار حروف
بیگم میں چار حروف
بیوی میں چار حروف
زوجہ میں چار حروف
نساء میں چار حروف
WIFE میں چار حروف
حتیٰ کہ دلہن میں بھی چار حروف
ان سب ناموں کے حروف کی تعداد سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ بیویاں چار ہی ہونی چاہیں!
تو اس کے جواب میں ایک خاتون کی تحقیق بھی سن لیں:
ڈنڈے میں چار حروف
جوتے میں چار حروف
تھپڑ میں چار حروف
غصّہ میں چار حروف
شامت میں چار حروف
مرنے میں بھی چار حروف
اور بہت سے اشارے ملتے ہیں اسلئے اگر آپ غصہ دلا کر اپنی شامت کو آواز دے کر جوتے، تھپڑ اور ڈنڈے نہیں کھانا چاہتے تو ایک ہی بیوی پر گزارا کریں
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ایک شعر;
دعوٰی لگے ہیں کرنے محبت کا بھیڑیے
دیکھو کہ مینڈکی کو بھی ہونے لگا زکام
محمد زبیر
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎=
جج : تم عینی شاھد ہو۔
عورت : جی ہاں۔
جج : جو کچھ دیکھا تھا بیان کرو۔
عورت : جی میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
جج: پھر تم کیسی عینی شاھد ہو؟
عورت : جی میرا نام عینی ہے اور شاھد میرے شوھر کانام ہے۔
کامل
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
بد سے بدنام برا
ایک غریب آدمی روزانہ ایک کاغذ پر
“اے میرے پروردگار مجھے ایک لاکھ روپے بھیج دے”
لکھ کر ایک غبارے کے ساتھ باندھ دیتا اور آسمان کی طرف اڑا دیتا تھا۔ غبارہ اڑتا ہوا پولیس اسٹیشن کے اوپر سے گذرتا تو پولیس والے اس غبارے کو پکڑ کر پرچی میں لکھی ہوئی عبارت کو پڑھتے اور اس غریب اور بھولے بھالے آدمی کی دعا پر ہنستے۔
ایک روز پولیس والوں نے غبارے میں رکھی پرچی میں لکھی دعا پڑھ کر سوچا کہ کیوں نہ اس غریب آدمی کی مدد کی جائے ، سب پولیس والوں نے ملکر چندہ کیا تو بمشکل پچاس ہزار روپے جمع کیئے اور اس غریب آدمی کے گھر جا کر رقم دے آئے۔
دوسرے روز پولیس والوں نے پھر غبارہ دیکھا تو حیران ہوئے اور اسے فوراً پکڑا اور اس میں لکھی عبارت پڑھی تو انکے ہوش اڑ گئے۔ اس میں لکھا تھا
“ یا رب العالمین آپکی بھیجی ہوئی رقم مل تو گئی لیکن آپکو یہ رقم پولیس والوں کے ہاتھ نہیں بھیجنی چاہیئے تھی، حرام خور اس میں سے آدھی رقم کھا گئے “.
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مشاعرہ اور کنوینر
میں بھی کرانے والا ہوں اب اک مشاعرہ
تشریف جس میں لائیں گے شاعر و شاعرہ
مل کر دبنگ لوگوں سے چندہ کروں گا میں
گر کم پڑیں گے نوٹ تو گھر گھر پھروں گا میں
ممبر سے دس ہزار ودھایک سے لوں گا بیس
جو ہیں امیدوار میں ان کو بھی دوں گا پیس
دو لاکھ جو بھی دیگا صدارت اسی کی ہے
سمجھو تمام لوگوں میں عزت اسی کی ہے
جتنے ہیں میرے شہر میں شاعر و شاعرات
آئیں گے صرف کھانے پہ سن لیں مری یہ بات
مہمان شاعروں میں سبھی ہوں گے محترم
سب کو پلائی جائے گی چائے گرم گرم
جس نے مجھے بلایا تھا اس کو بلاؤں گا
جتنے مجھے ملے تھے بس اتنے تھماؤں گا
پیسوں کے معاملے میں جو نخرے دکھائے گا
واپس بنا لفافے کے گھر اپنے جائے گا
دس بیس شاعروں سے سجے گا مشاعرہ
شاعر ہو ایک کام کا، اک ڈھنگ کی شاعرہ
مائک پہ اپنے خوب میں جلوے دکھاؤں گا
شعراء میں جو بھی ٹھلوے ہیں ان کو بلاؤں گا
آئے گا میرا نام بھی کنوینروں میں اب
ہوگا مرا شمار بھی بازی گروں میں اب
دھندا نہیں ہے کوئی بھی چھوٹا یہ جان لو
کروائیں گے مشاعرہ ہر سال ٹھان لو
شہرت بھی تم کماؤگے دولت کے ساتھ ساتھ
چلتی ہے یہ دکان بھی عزت کے ساتھ ساتھ
بابا تمام سال کا خرچہ نکالیے
کروائیے مشاعرہ پرچہ نکالیے
نا معلوم
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
تازہ تازہ ۔۔۔۔۔۔
پھر بہت مشکل ہے بچنا عشق کے طوفان سے
جھانکتا ہو جب کوئی رہ رہ کے روشندان سے
ہو گیا ہوں قید گھر میں جب سے یہ میں نے سنا
اس نے کردی ہے شکایت اپنے ابا جان سے
داد آ کر چومتی ہے خود بخود میرے قدم
روز لاتا ہوں غزل اک میر کے دیوان سے
کامل جنیٹوی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
گاجر کے دو ٹکڑے کریں،
ایک شیرے میں اور دوسرا نمک لگا کر رکھیں چند دن بعد
ایک ٹکڑا مربہ اور دوسرا اچار بن جائے گا۔
گاجر وہی لیکن ماحول مختلف نتیجہ الگ۔۔
لہذا جوکچھ بننا چاہیں تو ویسے ماحول کے لوگوں میں بیٹھیں..
یہ مثال پسند نہ ہو تو گاجر دھو کر کھا لیں..
*ہنسنا جُرم ہے
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
غزل
اس نئے دَور کے ہیں کرشمے نئے
عین ممکن ہے طوطا بھی مَینا لگے
آستیں میں پلے اور ڈستے رہے
اس جنم سے بھی پہلے کہیں سانپ تھے؟
عورتوں نے اتارے ہیں آنچل کہیں
اور سر پر ہیں مردوں نے یہ لے لئے
اک اداکار کے رُوپ میں زندہ ہوں
میرے کردار کے پرخچے اُڑ گئے
جو وراثت میں بیٹی کا حق مار لیں
چُلُّو بھر پانی لے کے نہیں ڈوبتے
جگنو کے روپ میں اُڑ رہی تتلیاں
جگنوؤں نے بھی تتلی کے پر لے لئے
دِکھنے میں ہم لگیں سب سے معصوم بھی
جب کہ حق دار کے حق ادا کب کئے؟
دیکھ کر بچے ماں باپ اک روپ میں
چہروں پر اُنگلیاں پھیرتے رہ گئے
ہم نے چہروں پہ چہرے نئے پہن کر
کتنے معصوم جزبوں کے خوں کر دیے
آنکھوں میں گونجتی روشنی کی قسَم
اس کی خاموشی میں کتنے پیغام تھے
برق تہمت کی گرتی رہی تھی مگر
ہم بھی دامن سکندر بچا کے چلے
ملک سکندر ۔ چنیوٹ ، پاکستان
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
اب کے بھی الیکشن میں ہم ہارگئے بھیا
اپنے سبھی ہتھکنڈے بے کار گئے بھیا
اک ووٹ کی خاطر ہم لٹو کی طرح گھومے
دروازے پہ دشمن کے سو بار گئے بھیا
ملا کی سنی ہم نے پنڈت کی سنی ہم نے
اجمیر گئے بھیا، ہریدوار گئے بھیا
کھائی نہ کبھی جس نے رکشہ کی سواری
بھی
اس کیلئے بھی لیکر ہم کار گئے بھیا
امید سے اتنے کم جو ووٹ ملے ہم کو
لگتا ہے کہ اپنے بھی دھتکار گئے بھیا
ساگر ایوبی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
دعوٰی لگے ہیں کرنے محبت کا بھیڑیے
دیکھو کہ مینڈکی کو بھی ہونے لگا زکام
محمد زبیر، گجرات، پاکستان
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مزاح رنگ
ترا لہنگا جو مہنگا ہو گیا ہے
بڑا مشکل گزارہ ہو گیا ہے
وہ شرمیلی سی محبوبہ نہیں اب
جواب اس کا کرارا ہو گیا ہے
یہ حالت دیکھ عامر ؔبھاگ نکلا
تو زلفوں سے کنارہ ہو گیا ہے
عامرؔحسنی ملائیشیا
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
طے ہو گی کوئی عمر تو مرغے کی بھی لیکن
ہو جاتی ہے معلوم یہ مہمان کو کیسے
نون۔ نون۔ فاطمی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مشہور ادیب بننے کے سنہری اصول
جام ساقی فرماتے ہیں مشہور ادیب بننے کے انہوں نے کچھ اصول واضح کئے ہیں۔ ان کا فرمان ہے ان اصولوں کو اپنا کر ایک ادیب آسانی سے ایک مشہور ادیب بن سکتا ہے لیکن عظیم ادیب بننے کا کوئی فارمولہ موجود نہیں، ادیب کی عظمت وقت طے کرتا ہے لیکن ادیب کے پاس وقت اتنا کہاں کہ وہ انتظار کرے ہر ادیب مشتاق یوسفی، احمد فراز نہیں جن کو اتنا وقت مل جائے اور وہ اپنی عظمت کو اپنی زندگی میں دیکھ سکیں ورنہ زیادہ تر غالب کی طرح روتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں اور بعد میں وقت ان کا عظیم ترین شاعر قرار دیتا ہے۔ لیکن مشہور اور عظمت میں بہت فرق ہے عظمت کا اکثر ادیب کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ عظمت مردوں کو ملتی ہے۔ جس کا مرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن مشہور ہونے کے مزہ زندہ شخص لیتا ہے۔ مشہور ہونے کے جام ساقی نے درج ذیل اصول واضح کئے ہیں وہ یہ ہیں۔
1 پہلا اصول یہ ہے کہ معاشرے میں آپ کا مرتبہ بلند ہونا چاہیے، بلندی سے یہاں مراد قد نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ قد چھوٹا بھی چلے گا۔
2 دوسرا اصول یہ ہے کہ جیب بھاری ہونا چاہیے اور آپ کو اس کو ہلکا کرنا آتا ہو۔ کنجوس ادیب مکھی تو چوس سکتا ہے مگر مشہور نہیں ہوسکتا۔
3 تیسرا اصول یہ ہے کہ آپ کو فورا ایک ادبی حلقہ بنا لینا ہے اور ادب کے فروغ کے لیے چند ایک معدودے معروف اور غیر معروف لوگ اکھٹے کریں اور ادب کی خدمت یعنی اپنی تعریف کا سماں پیدا کریں۔
4 چوتھا اصول ہے کہ اخبار میں ادبی صفحات کے منتظمین سے تعلق بنائیں جو آئے دن آپ کی تعریف میں لکھیں اور آپ کی عظمت کے پہلو لوگوں کو بیان کریں تاکہ لوگ آپ کی عظمت کے معترف ہوجائیں۔
5 سوشل میڈیا کے دور میں اس پہلو پر بھرپور توجہ دیں اپنے فیس بک پیج بنائیں، ویب پیج بنائیں اور وٹس ایپ گروپ کے ایڈمن بن جائیں۔
6 پبلیشرز کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں تاکہ جو بھی لکھیں وہ چھپ جائے اور آپ پیسے لگائیں اور تشہیر کریں اس سے پبلیشر کی دکان چلے گی اور آپ کو مشہور ہونے کا موقع مل جائے گا۔
7 مشہور ادیب بننے کے لیے پڑھنے لکھنے کی ضرورت چنداں نہیں مگر آپ کو اس کی عادت ہے تو سونے پر سہاگہ ہے
نوٹ۔ اگر آپ کے پاس یہ تمام خوبیاں ہیں تو آپ کو کوئی بھی مشہور ہونے سے نہیں روک سکتا۔
ڈاکٹر محمد کلیم
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مزاح
کل رات میں نے دیکھا ہے یارو عجیب خواب۔
سونا بھی جس نے چین سے دشوار کردیا
بیوی کو اپنی دیکھ کے حوروں کی بھیڑ میں ۔
جنت میں ۔میں نے جانے سے انکار کردیا ۔
ڈاکٹر رضی امروہوی (علیگڑھ)
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
جناب حمایت علی شاعر مرحوم کے لیے دعائے مغفرت، ان کے کچھ مصارع پہ گرہیں برائے خراج تحسین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اپنے سسرالی محلے میں میاں گھر نہ خرید
""زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا""
۔۔۔۔۔۔۔
مزہ تو تب ہے کہ کہہ دیں مجھے مرے ماتحت
"جہاں پہ بیٹھے ہو تم وہ جگہ ہماری ہے"
ـــــــــــــــــ
ہے اس کی شعری تعلی کا باطنی مفہوم
"کہ اس کے علم پہ ہے اس کے جہل کا سایہ" (ادنی تصرف کے ساتھ)
ــــــــــــــــ
کس طرح یہ ممکن ہے کہ خوشبو کی سہیلی
"خوشبو کی طرح اڑ کے ترے دل میں اتر جائے"
ــــــــــــــ
سامنے آ کر حسینوں کے پگھل جاتے ہیں لوگ
""دیکھتے ہی دیکھتے کتنا بدل جاتے ہیں لوگ ""
ــــــ
مشہور نغموں پر گرہیں::
ــــــــــ
میں پورے دو کلو باسی پکوڑے کھاکے سوؤں تو
""خداوندا، یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں""
۔۔۔۔۔۔۔
ڈکیتوں سے کہنے لگے بنک والے
""نوازش , کرم، شکریہ، مہربانی""
۔۔۔۔۔۔
کسی بابے نے بتلایا یہ گاکر عقد اربع پر
""ہمیں گزری ہوئی باتوں کو دہرانا بھی آتا ہے""
( ڈاکٹر عزیز فیصل۔ اسلام آ باد)
انتخاب ۔عامر لیاقت عامر
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
بہو کی تلاش
عصرِ حاضر میں ایک ماں بہو کی تلاش کا قصہ سناتی ہے۔۔۔ ایک مزاحیہ نظم ملاحظہ کریں!
بیٹے کے واسطے مجھے دُولہن کی ھے تلاش۔
پھرتی ہوں چار سُو لئے اچھی بہو کی آس۔
لیکن کھلا کہ کام یہ آساں نہیں ھے اب۔
خود لڑکیوں کی ماؤں کے بدلے ہوئے ہیں ڈھب۔
پڑھ لکھ کے لڑکیاں بھی ہیں کاموں پہ جارہیں۔
لڑکوں سے بڑھ کے بعض ہیں پیسے کما رہیں۔
معیار شوہروں کا کُچھ ان کی نظر میں ھے۔
مشکل کوئی سماتا دلِ معتبر میں ھے۔
اک ماں سے رابِطہ کیا رشتے کے واسطے۔
کہنے لگی گھر آنے کی زحمت نہ کیجئے۔
لڑکی ھے بینک میں وہیں لڑکے کو بھیجئے۔
"سی۔وی" بھی اپنی ساتھ وہ لے جائے یاد سے۔
مل لیں گے ہم بھی بیٹی نے"او کے" اگر کیا۔
ورنہ زیاں ھے وقت کا ملنے سے فائدہ؟
اک اور گھر گئے تو نیا تجرِبہ ہوا۔
لڑکی کی ماں نے چُھوٹتے ہی بر ملا کہا۔
نوکر ہیں کتنے آپ کے گھر میں بتائیے؟
ہر بات کھل کے کیجئے، کچھ نہ چھپائیے۔
بیٹی کو گھر کے کام کی عادت نہیں ذرا۔
اس کے لئے تو کام کچن کا ھے اک سزا۔
شوقین ھے جو لڑکا اگر دال، ساگ کا۔
لڑکی کی پھر نگاہ میں "پینڈو" ھے وہ نِرا۔
برگر جسے پسند ہو ، پیزا جسے پسند۔
رُتبہ نگاہِ حُسن میں اُس کا ہی ہے بلند۔
اک اور گھر گئے تو طبیعت دہَل گئی۔
پاؤں تلے سے گویا زمیں ہی نکل گئی۔
پوچھا ہمیں جو لڑکی نے نظروں سے ناپ کے۔
کیا کیا پکانا آتا ھے بیٹے کو آپ کے؟
گر شوق ھے کُکِنگ کا تو بے شک سلیکٹ ھے۔
بیڈٹی بھی گر بنا نہ سکے تو رِیجکٹ ھے۔
گو تیز ہوں مزاج کی، دل کی بھلی ہوں میں۔
چونکہ اکیلی بیٹی ہوں لاڈوں پلی ہوں میں۔
اِک گھر کیا جو فون تو لڑکی ہی خود ملی۔
کہنے لگی کہ گھر پہ نہیں ہیں مدر مری۔
کہتی تھیں فون آئے گا رشتے کے واسطے۔
شادی جِسے ھے کرنی وہ بات آپ ہی کرے۔
فرصت نہیں ھے مجھ کو ملاقات کےلئے۔
گھر لوٹتی ہوں جاب سے آنٹی میں دیر سے۔
ہاں چاھے بیٹا آپ کا گر جاننا مجھے۔
کہیئےکہ فیس بُک پہ مجھے ایڈ وہ کرے۔
لکھ لیجئے احتیاط سے آپ آئی ڈی مری۔
موجود فیس بُک پہ میں ہوتی ہوں ہر گھڑی۔
اِک دوسرے کو کرلیں گر انڈرسٹینڈ ہم۔
بعد اس کے ہی بجائیں گے شادی کا بینڈ ہم۔
اک اور گھر گئے تو عجب حادثہ ہوا۔
لڑکی نے بےدھڑک مرے بیٹے سے کہہ دیا
ورکنگ ہوں میں، سو ہیں میرے کچھ مرد بھی " فرینڈ"
اُمید ھے کہ آپ یہ کرتے ہیں "انڈرسٹینڈ"۔
دُنیا نکل گئی ھے کہاں سے کہاں جناب۔
اب بھول جائیں آپ بھی غیرت کا وہ نصاب۔
جس گھر گئے، وہاں ہمیں جھٹکے نئے لگے۔
'عرشی' ہمارے ہاتھوں کے طوطے ہی اُڑ گئے۔
آخر کھلا یہ راز کہ اپنی ہے سب خطا۔
بیٹے کی تربیت میں بہت رہ گیا خلا۔
کھانا پکا سکے جو نہ چائے بنا سکے۔
وہ کس طرح سے آج کی لڑکی کو بھا سکے۔
لڑکی کے دوستوں سے بھی ہنس ہنس کے جوملے۔
دل میں نہ لائے رنج، نہ ہونٹوں پہ ہوں گلے۔
بیوی کے وہ مزاج کا ہر پل غلام ہو۔
تیور اُسی کے دیکھتا وہ صبح و شام ہو۔
پڑھ لکھ کے لڑکیوں کا رویہ بدل گیا۔
بے شک زمانہ چال قیامت کی چل گیا
انتخاب: قاسمی سَحر
شاعر: عرشی ( پورا نام نامعلوم)
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
میرا بچپن
وہ لڑکیاں بھی کسی دہشت گرد سے کم نہیں ہوتی تھیں جو ٹیچر کے کلاس میں آتے ہی انہیں یاد دلا دیتیں تھیں کہ
"سر آپ نے ٹیسٹ لینے کا بولا تھا"۔
ہاہاہاہاہاہاہا
آج کل کے بچے کیا سمجھیں گے کہ ہم نے کتنی مشکلات میں پڑھائی کی ہے۔
کبھی کبھی تو ٹیچر صرف موڈ فریش کرنے کے لئے بھی ہماری پٹائی کر دیتے تھے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
آج کل کے بچے ریفریش ہونے کے لیے جہاں 'واٹر پارک' اور 'گیم سینٹر' جانے کی ضد کرتے ہیں.
وہیں ہم ایسے بچے تھے جو ممی اور پاپا کے ایک پھٹکے سے ہی فریش ہو جاتے تھے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
وہ بھی کیا دن تھے جب بچپن میں کوئی رشتے دار جاتے ہوئے 10 روپے دے جاتے تھے اور ماں8 روپے GST کاٹ کر 2 روپے تھما دیتی تھیں۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
اگر گھر کا TV بگڑ جائے تو ماں باپ کہتے ہیں بچوں نے بگاڑا ہے مگر جب بچے بگڑ جائیں تو کہتے ہیں TV نے بگاڑا ہے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
آج کل کے ماں باپ صبح اسکول بس میں بچوں کو بٹھا کر ایسے بائے بائے کرتے ہیں جیسے بچوں کو بیرون ملک بھیج رہے ہیں.
اور ایک ہم تھے جو روزانہ دو چار چپیڑ کھا کر اسکول جاتے تھے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
بھلا ہو ہنی سنگھ اور جان سینا کا جنہوں نے بچوں کو فیشن کے نام پر بال باریک اور چھوٹے رکھنا سیکھا دیئے۔
ہماری تو سب سے زیادہ پٹائی ہی بالوں کو لیکر ہوتی تھی۔
ہم دل جلے کے اجئے دیوگن بنے پھرتے تھے اور جس دن پاپا کے ہاتھوں لگ جاتے تھے اس دن نائی کی دوکان سے کرانتی ویر کے نانا پاٹیکر بنا کر ہی گھر لاتے تھے.
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
تاریخ گواہ ہے کہ ساری ساری رات بارش ہوتی تھی…
مگر صبح سکول جانے کے وقت رُک جاتی تھی۔
اپنے خاص دوستوں میرا بچپن
وہ لڑکیاں بھی کسی دہشت گرد سے کم نہیں ہوتی تھیں جو ٹیچر کے کلاس میں آتے ہی انہیں یاد دلا دیتیں تھیں کہ
"سر آپ نے ٹیسٹ لینے کا بولا تھا"۔
آج کل کے بچے کیا سمجھیں گے کہ ہم نے کتنی مشکلات میں پڑھائی کی ہے۔
کبھی کبھی تو ٹیچر صرف موڈ فریش کرنے کے لئے بھی ہماری پٹائی کر دیتے تھے۔
آج کل کے بچے ریفریش ہونے کے لیے جہاں 'واٹر پارک' اور 'گیم سینٹر' جانے کی ضد کرتے ہیں.
وہیں ہم ایسے بچے تھے جو ممی اور پاپا کے ایک پھٹکے سے ہی فریش ہو جاتے تھے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب بچپن میں کوئی رشتے دار جاتے ہوئے 10 روپے دے جاتے تھے اور ماں8 روپے GST کاٹ کر 2 روپے تھما دیتی تھیں۔
اگر گھر کا TV بگڑ جائے تو ماں باپ کہتے ہیں بچوں نے بگاڑا ہے مگر جب بچے بگڑ جائیں تو کہتے ہیں TV نے بگاڑا ہے۔
آج کل کے ماں باپ صبح اسکول بس میں بچوں کو بٹھا کر ایسے بائے بائے کرتے ہیں جیسے بچوں کو بیرون ملک بھیج رہے ہیں.
اور ایک ہم تھے جو روزانہ دو چار چپیڑ کھا کر اسکول جاتے تھے۔
بھلا ہو ہنی سنگھ اور جان سینا کا جنہوں نے بچوں کو فیشن کے نام پر بال باریک اور چھوٹے رکھنا سیکھا دیئے۔
ہماری تو سب سے زیادہ پٹائی ہی بالوں کو لیکر ہوتی تھی۔
ہم دل جلے کے اجئے دیوگن بنے پھرتے تھے اور جس دن پاپا کے ہاتھوں لگ جاتے تھے اس دن نائی کی دوکان سے کرانتی ویر کے نانا پاٹیکر بنا کر ہی گھر لاتے تھے.
تاریخ گواہ ہے کہ ساری ساری رات بارش ہوتی تھی…
مگر صبح سکول جانے کے وقت رُک جاتی تھی۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
اپنے خاص دوستوں کو ضرور بھیجیں یہ بچپن کی حسین اور خوشگوار یا دیں ہیں…….
ہاہاہاہا ہاہاہاہا
کو ضرور بھیجیں یہ بچپن کی حسین اور خوشگوار یا دیں ہیں…….
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ہمیں بھی شاعری کے، دیکھیے انداز آتے ہیں
زبردستی ہر اک کو گھیر کے غزلیں سناتے ہیں،
ہمیں خود بھی سمجھ آتی نہیں ہے ہم جو کہتے ہیں
ڈھٹائی دیکھیے کہتے ہیں تو کہتے ہی جاتے ہیں
کبھی منہ دیکھتے رہتے ہیں اپنا، لوگ حیرت سے
کبھی اپنے ہی جیسوں سے بہت سی داد پاتے ہیں
کبھی بچ کر نکل آتے ہیں ہم پنڈال سے لیکن
کبھی انڈے ٹماٹر بن پکاے خوب کھاتے ہیں
فقط ہم ہی نہیں اس کھیل کو آگے بڑھاتے ہیں
بہت سے ہیں یہاں آکر جو بے ڈھب ہی سناتے
"ساجدہ انور،" "کراچی، پاکستان"
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ایک وزیر اپنے معالج سے
میری طبی رپورٹس ایسی زبان میں بتائیں…کہ میں سمجھ سکوں
ڈاکٹر…….. بہتر جناب ..سنیں
آپکی,رپورٹ کے مطابق
یوں ہے کہ ………….,,
آپکا بلڈ پریشر گھوٹالوں کی طرح بڑھ رہاہے………
پھیپھڑوں کی کام کرنے کی یقین دہانی جھوٹی محسوس ہو رہی ہے …..
داہنی طرف کا گردہ اپنے عہدے کو چھوڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے ……..
چربی میں مہنگائی کی طرح اضافہ ہو رہا ہے ………..
شریانیں "رستہ روکو" تحریک کر رہی ہیں….,….,
نظام تنفس اپنی حمایت واپس لینے پر تلا ہے
جگرتحریک عدم تعاون پرآمادہ ہے ………
ان تمام باتوں سے سر میں موجود اعلی کمان پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور عنقریب آپکی حکومت برخاست ہونے والی ہے
وزیر بے ہوش
تازہ ترین خبریں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...
اُردو مضمون لوری
"ماں" دنیا کا ایک شیریں ترین لفظ ہے اور ماں وہ شخصیت ہے جو اپنی اولاد کیلئے بیش بہا نعمتوں...
ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد
صالحہ رشید کی رپورٹ پریاگ راج ۹؍ نومبر ، پریس ریلیز ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو...