رپورٹ
ایڈوکیٹ متین طالب بھارت
پروگرام نمبر 19
عنوان۔آو غزل کہیں یا نظم (فراق)
برقی دنیا میں ترقی وجہ سے آج کل سوشل میڈیا پر اردو کے متوالے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یوں تو برقی دنیا میں کئی گروپ ، تنظیمں اور تحریکیں اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں لیکن کچھ گروپ محض وا واہی اور قہقہ فروش کے اڈے بن کے رہ گئے ہیں جس میں رہ کر وقت گزاری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہے۔ ان تمام خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو کے کچھ معتبر لوگوں نے مل کر ایک سوشل میڈیا کی تحریک کی بنیاد رکھی جس مؤقر تحریک کو "توازن اردو ادب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔"توازن اردو ادب" یہ تحریک اس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کررہی ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کررہی ہے. تحریک ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں. عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد یقیناً تحریک ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت نیز کامیابی کی ضمانت ہے. محترم احمد منیب صاحب نے بڑے ہی خلوص و محبت سے اس تحریک کی بنیاد ڈالی ہے اور استاذی محترم المقام مسعود حساس صاحب جیسی اہل علم شخصیت کا اس تحریک میں سرگرم رہنا تحریک کی معتبر ہونے کی ضمانت ہے۔
توازن اردو ادب نے کچھ ہی عرصے پہلے برقی دنیا میں اردو ادب کی محفلوں کے انعقاد کا سِلسِلہ شروع کیا۔ اسی سلسلے کی 19 ویں کڑی کے تحت پروگرام بعنوان "آؤ غزل یا نظم کہیں"( فراق) کا کامیاب انعقاد مورخہ 11 اکتوبر 2019 بروز جمعہ کو عمل میں آیا۔ اس شاندار اور باوقار مشاعرے کی صدارت محترم اکمل حنیف صاحب، لاہور پاکستان نے بخوبی انجام دی۔ اور اس محفل میں جناب سید زیرک حسین صاحب اسلام آباد سے مہمانِ خصوصی کے طور پر موجود تھے اور مہمانِ ِ اعزازی کے طور پر محترم امیرالدین امیربیدر صاحب کرناٹک بھارت سے موجود تھے پروگرام کے آرگنائزر طور محمد احمر جان رحیم یار خان صاحب نے اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دئیے۔ اور محترم اشرف علی اشرف صاحب نے علالت کے باوجود اپنے منفرد لب و لہجہ میں نظامت کرکے محفل میں چار چاند لگا دئیے۔ لیکن دوران پروگرام موصوف کی صحت نے ساتھ نہیں دیا اس لیۓ انھوں انتظامیہ سے معذرت کرتے ہوئے عین وقت دوسرے ناظم کا مہیا کرنے کی درخواست کی اس اڑے وقت میں تحریک کے روحِ رواں محترم المقام مسعود حساس صاحب نظامت جیسے مشکل امر کے لۓ خود کو پیش کرکے اردو سے والہانہ محبت کا ثبوت پیش کیا۔ اور نظامت کا بار اپنے کاندھوں پر لیتے ہوئے محفل میں روح پھونک دی۔
پروگرام کا آغاز مقررہ وقت پر محترم ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی صاحب کی حمد پاک سے کیا گیا اس کے بعد محترم شاہ رخ ساحل تلسی پوری صاحب نے نعت پاک پیش کرکے محفل کو مزید نورانی بنا دیا۔ ناقدین حضرات میں محترم المقام مسعود حساس صاحب، محترمہ ڈاکٹر لبنی آصف صاحبہ اور محترم کامل جنٹیوی صاحب نے نقد و نظر کے فرائض بحسن خوبی انجام دیئے تشگان علم کو خوب مستفید فرمایا اور ذرین مشوروں سے نوازا جسے شعرائے اکرام نے کھلے دل سے قبول کیا۔ محترم جابر ایاز صاحب نے ہر شاعر کے کلام کو اپنی آواز میں گنگنا کر اردو سے والہانہ محبت کا ثبوت پیش کیا۔ معزز شعرائے اکرام نے وقت پر حاضر رہ کر محفل میں اپنا مرصع و مسجع کلام پیش کرکے ناظرین کو خوب محظوظ کیا اور ناظرین و حاضرین حضرات نے تمام شعراۓ اکرام کو داد و تحسین سے نواز کر حوصلہ افزائی کی۔ آخر میں محفل کے صدر محترم اکمل حنیف صاحب نے مرصع و جامع خطبۂ صدارت پیش کیا اور صدر کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔ محفل میں جن شعراۓ اکرام نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی اسطرح ہیں۔
شعراءِ کِرام
*
ایسے دل اور زبان کردے مجھکو عطا
عمر بھر میں کروں تیری حمد و ثن
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
سامنے ہوں مرے وہ حسیں جالیاں
اور آئے قضا دیکھتے دیکھتے
شاہ رخ ساحل تلسی پوری
میری کتابِ زیست کے ہر ورق اور دل کی
ہر دھڑکن پر نام تمہارا لکھا ہے
جابِر ایاز سہارنپوری بھارت
کیافائدہ فراق میں چھانیں جہاں کی خاک
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
حکیم نعمان انصاری میانوالی
بہ رنگ خوشبو جو دل میں ہے ہجر کا موسم
اسے وصال جو رکھا یہیں پہ رکھا ہے
عامر یوسف لاہور پاکستان
جانے کس دروازے سے تم آتے ہو
دیواروں کو خواب سنانے بیٹھی ہوں
ڈاکٹر لبنیٰ آصف، پاکستان
ہونٹ پر جب ترے غیر کی بات تھی
زندگی کی مری آخری رات تھی
مصطفیٰ دلکش ممبئی الہند
وہ بھی کیا دور تھا موضوعِ سخن تھے ہم بھی
ہر گلی موڑ پہ ہوتی تھیں ہماری باتیں
جمیل ارشد.مہاراشٹر۔انڈیا
پھر یہ سوچا کہ اگروصل کا انجام ہے یہ
پھر یہ بہتر ہے کہ میں درد سے یاری کرلوں
ہجر الفت کی بقاء ہے تو پھر اسکی خاطر
تھوڑا برداشت کروں
عشق کواوڑھ لوں میں روح پہ طاری کرلوں
خبیب تابش۔مہاراشٹر۔انڈیا
جب سے روٹھا ہے وہ مرا ہمدم
غم کی تصویر بن گیا ہوں میں
شاہ رخ ساحل تلسی پوری
ساتھ تم تھے تو کٹی زندگی اک پل کی طرح
پھر تمھیں کھوکے گذارا اسے پل پل کرکے
ایڈوکیٹ متین طالب بھارت
سیما گوھر رام پور انڈیا
تنہائیوں میں ہم کو رلاتا ہے بار بار
"ان کا خیال کیوں ہمیں آتا ہے بار بار"
اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
ہم نے مانا دن غمِ دوراں میں کٹ ہی جائے گا
کس طرح بیتے شبِ ہجراں ترے جانے کے بعد
سعید سعدی بحرین
چھیڑ دیتی ہے ہوا بھی ترے قصے آ کر
اور رستے یہ تری یاد دلا دیتے ہیں
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
وہ
ملن کی شامیں ہوا ہوئیں،وہ شب فراق بھی کٹ گئی،
سبھی قربتیں سبھی فاصلے، دبے پاؤں آ کے گذر گئے،
ساجدہ انور کراچی
جب ھجر کے چولهے میں جلائ گئ اتنا
پھر وصل کے هاتھوں سے دھواں هونے لگی هوں
ماورا سید کراچی
یادوں کی انجمن میں رخ یار دیکھ کر،
ہم تھے کہ آنسؤوں کو بہاتے چلے گئے
اطہر حفیظ فراز
مجھے جذبات کے اظہار کااچّھا طریقہ تو نہیں آتا
مگر پھر بھی مرا پکّا ارادہ ہے
کہ تیری یاد میں ایک خوبصورت نظم کہنی ہے ۔۔
عامر لیاقت عامر
فراق اس کا نہ تھا گر تم پہ بھاری
تو پھر کیوں گال نم دھوئے نہیں تھے؟
عامرؔحسنی ملائیشیا
اس شب تو میں چراغ کی صورت جلی رھی
جس شب خیال یار مرے ساتھ ساتھ تھا
افروز رضوی۔۔۔۔کراچی
جو ہو سکے تو اسی راہ سے گزر نکلو
نظر نظر سے ملاؤبہت اداس ہوں میں
امیرالدین امیر بیدر بھارت
بناہے جب سے بہنوئی ایڈیٹر
دنادن دیکھو سالا چھپ رہا ہے
محمد قسیم احمد چونچ گیاوی
اب وہ غمِ فراق سے گھبرائیں بھی تو کیا
پَل کرجو لوگ سائے میں غم کے، بڑے ہوئے
اکمل حنیف، لاہور پاکستان
از قلم
ایڈوکیٹ متین طالب۔