توارُد کیا ہے؟
”غیر ارادی طور پر کسی خیال کا دو اشخاص کی منظومات میں داخل ہونا“
مصطفى غلفان کی کتاب ”المعجم الموحد لمصطلحات اللسانيات“ صفحہ نمبر 40 پر توارد کی یہ تعریف رقم ہے کہ :
”التوارد : هو ورود لفظين معا في سياق معين“
ترجمہ : ”مخصوص سیاق و سباق میں دو الفاظ کا ایک ساتھ جمع ہو جانا“
مخصوص سیاق و سباق سے مراد معنیٰ کی ہم آہنگی ہے. یعنی مخصوص معنیٰ میں دو الفاظ کا وارد ہو جانا.
عربی کی ایک لغت ”معجم الرائد“ میں ہے کہ :
[توارد الشاعران : اتفقا في معنى واحد يرد بلفظ واحد من غير أن ينقل أحدهما عن الآخر]
ترجمہ : ”دو ہم خیال منظومات کا اتفاقی طور پر دو مختلف شعراء کے کلام میں پایا جانا توارُدِ شاعر کہلاتا ہے“
توارد کی چند مثالیں دیکھیں کہ :
یاد آیا مجھے گھر دیکھ کے دشت
گھر کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یاسمین کنیز، شاگردِ انشاء
جبکہ غالب کا شعر ہے کہ :
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
کشاف تنقیدی اصطلاحات کے صفحہ نمبر 51 پر لکھا ہے کہ خوش حال خان خٹک (متوفی ١١٠٠ھ) کے بیٹے عبدالقادر خان نے جو باپ کی طرح پشتو زبان کا شاعر تھا اس کے ایک شعر کا خیال غالب نے اپنے شعر میں باندھ لیا، عبدالقادر کہتا ہے کہ :
زمین پر بہت سی خوبصورت مدفون ہستیاں ہیں، جو پھولوں کی شکل میں نمودار ہوگئی ہیں
اب اسی خیال کے سہارے غالب کا شعر دیکھیں کہ :
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
…
داغ دہلوی کا مشہور شعر ہے کہ :
رُخِ رَوشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
اس شعر کے بعد بیخود دہلوی سے توارد واقع ہوا ہے :
جس وقت ٹھہر ا شمع سے آکر مقابلہ
پروانے ہوں گے آپ کے رُخسار کی طرف
…
ناسخؔ لکھنوی کا شعر ہے کہ :
قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو کیا ہوا ناسخؔ
تڑپ کے رہ گیا اب اُس کے بال و پر ہی نہیں
اس پر جلیلؔ مانک پوری کو توارد ہوا کہ :
اُس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لئے
در قفس کا ہو کھُلا ‘طاقتِ پرواز نہ ہو
…
شفقؔ کا شعر ہے کہ :
اﷲ رے میرے سوزشِ پنہاں کی گرمیاں
گردن کا طوق ‘پاؤں کی زنجیر لال ہے
اس پر امیرؔ مینائی کا توارد ملاحظہ فرمائیں کہ :
اﷲ رے گرمیاں ترے وحشی کی اے پری
زنجیر پاؤں میں جو پڑی لال ہوگئی
…
شفقؔ کا شعر دیکھیں کہ :
جب سے کسی نوکِ مژہ کا خیال ہے
نشتر ہے‘تیر ہے‘مرے تن پر جو بال ہے
اس پر استاد ابراهيم ذوقؔ کا توارد ملاحظہ کریں کہ :
جب سے دِل میں ہے کسی کی نوکِ مژگاں کا خیال ہے
نشترِ زنبور ہے تن پر جو میرے بال ہے
…
داغ دہلوی لا ایک شعر ہے کہ :
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
اس پر احمد رضا خان بریلوی کا توارد دیکھیں کہ :
جان و دل، ہوش و خِرد، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو ساماں گیا
…
مرزا غالبؔ کا مشہور مطلع ہے:
ہر ایک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
غالبؔ ہی کے ہم عصر صاحب زادہ نثار علی رام پوری (ولادت ۱۲۴۸ھ) کہتے ہیں:
مجھ سے کہتے ہیں وہ کہ تو کیا ہے
کوئی پوچھے یہ گفتگو کیا ہے
غالبؔ کی ولادت ۱۲۱۴ھ کی ہے۔ نثارؔ ، غالبؔ سے چھوٹے ہیں۔ معلوم نہیں غالبؔ نے اپنی غزل کس زمانے میں کہی ہے اور نثارؔ نے کب۔ غزل کی اِس زمین میں یہ مضمون بلا شبہ توارد ہوسکتا ہے۔ بہر حال نثارؔ کا شعر بہتر ہے۔ ’’یہ اندازِگفتگو‘‘ کے مقابلے میں صرف ’’یہ گفتگو‘‘ اچھا معلوم ہوتا ہے۔
——–
سرقہ کیا ہے؟
”کسی تحریر کا وہ حصہ جسے کوئی اس طرز پر اپنی تحریر میں شامل کرے جیسے وہ اسی کا کام ہے“
یعنی کسی کی تحریر کو من و عن اپنے نام سے پیش کردینا۔ یا کسی مصنف کی تحریر کے بنیادی خیال کو چرا کر اسے اپنے الفاظ میں ڈھال دینا۔ یا پھر مختلف مصنفین کی تحاریر کے ٹکڑے جمع کر کے ان سے اپنا مضمون بنا لینا۔
عربی لغت ”معجم الرائد“ میں ہے کہ :
”سَرَقة في الأدب : أن يأخذ الأديب شيئا من أدب غيره وينسبه إلى نفسه“
ترجمہ : سرقۂ فی الأدب سے مراد کسی ادیب کا دوسرے کے کلام کو اخذ کرکے اپنی طرف نسبت کر دینا ہے
سرقہ کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
عرفیؔ جو مرزا غالبؔ سے کئی صدیوں پیشتر گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
منم آں سیر زجاں گشتہ کہ با تیغ و کفن
تا درِ خانئہ جلّاد غزل خواں رفتم
غالب کا شعر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ توارد تو ہے نہیں، ترجمہ بھی نہیں ہے۔ استفادہ کہیں گے یا سرقہ؟ میں نہ تو مرزا یاس یگانہؔ چنگیزی ہوں کہ دشمنی کروں، نہ اندھا کہ کہوں عرفی کا شعر نظر نہیں آ رہا، آپ خود غالب کا یہ شعر دیکھیں اور خود فیصلہ صادر کریں :
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عُذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا؟
داغ دہلوی کا شعر ہے کہ :
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
باندھ کے رکھا ہے تم نے جو وہ مال اچھا ہے
اور پھر امیر مینائی کا شعر دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ اس قدر لفظی و معنوی اشتراک سرقہ نہیں تو اور کیا ہے؟
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
ایک لرلطف بات یہ دیکھیں کہ ایک غزل جو حافظ شیرقزی کے دیوان میں ہے، بعینہٖ لفظ بہ لفظ مکمل غزل سلمان ساؤجی کی کلیات میں بھی موجود ہے. اس کا مطلع ملاحظہ فرمائیں کہ :
ز باغِ وصل تو یابد ریاضِ رضواں آب
نہ تابِ ہجر تو وارد شرارِ دوزخ تاب
بحوالہ : سرقے کی روایت، تاریخ کی روشنی میں، سید خالد جامعی، صفحہ 17
———
سرقہ میں چوری کا قصد ہوتا ہے جبکہ توارد میں مطابقت محض اتفاقیہ ہوتی ہے. سخاؔ دہلوی نے بہت عمدہ بات کی: ’’سرقہ کی خبر یا تو سرقہ کرنے والے کو ہوتی ہے یا اس کے خدا کو‘‘؛ یہ بات صد فی صد درست نہ بھی ہو تو بھی قرینِ قیاس ضرور ہے۔ یہاں چند اصولی نوعیت کی بحث ملاحظہ فرمائیں :
دنیائے خیال میں اکثر ہوجاتا ہے کہ ایک مضمون جو پہلے سے کسی شاعر نے اپنے شعر میں باندھا، بعد میں کسی اور کے ذہن میں توارد ہوجائے۔ اس کی تین وجوہات ہیں:
پہلی، دورانِ مطالعہ کوئی خیال یا خوبصورت مضمون کسی شاعر نے پڑھ لیا جو اس کے شعور کے کسی کونے میں محفوظ ہوگیا۔ عرصے بعد اسے یاد نہ رہا کہ یہ مضمون کس کا تھا اور شعوری ارادے کے بغیر وہی مضمون دورانِ فکرِ شعر نظم ہوگیا۔
دوسری، اتفاقاً بھی کوئی ایسا خیال قدرتی طور پر ذہنِ شاعر سے ٹپک سکتا ہے، جو اس سے قبل کسی نے باندھا ہو۔
تیسری وجہ، ارادتاً کسی کے خیال کو اپنے لفظوں میں بیان کر دیا گیا (یہ سرقہ ہے)۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن صفحہ نمبر85-86 سے انتخاب)
جب دو مختلف شاعروں کے اشعار میں تخیل اور مضمون ایک ہو تو ناقدین اسے سرقہ قرار دیتے ہیں۔ مزید اگر تشبیہہ اور استعارہ بھی ایک جیسا ھو تو وہ ثابت شدہ سرقہ کہلاۓ گا۔
چونکہ شاعری میں معدودے چند مثالیں ہی ملیں گی جہاں ایک شاعر کا پورا کلام سرقہ سے پاک ھو ورنہ اکثر شعراء کے اشعار میں سرقہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ سرقہ کی حمایت میں ناروا قسم کی تو جیہیں پیش کی جاتی رہی ہیں جیسے یہ کہنا کہ چونکہ ہر شاعر سرقہ سے متہم ہے تو اسے سرقہ نہیں بلکہ توارد، اخذ، تقلید، مطابقت یا متحدالخیا لی سمجھنا چاہیے۔ بہرحال سرقہ کی جیسے بھی خوبصورت لفظوں سے توجیہہ کی جاۓ سرقہ، سرقہ ہی ہے۔
سرقہ کی اقسام :
سرقات شعری کی دو قسمیں ہیں
(1) سرقہ ظاہر
(2) سرقہ غیر ظاہر
سرقۂ ظاہر کی قسمیں :
(الف) نسخ و انتحال
بعینہٖ دوسرے شاعر کے شعر کو اپنا کر لینا اور یہ بہت بڑا عیب ہے.
(ب) مسخ و اغارہ
لفظی ادل بدل سے دوسرے شاعر کے شعر کو اپنا کر لینا۔ اگر دوسرے شعر کی ترتیب پہلے سے بہتر ہو تو سرقہ نہیں ترقی ہوتی ہے اور یہ جائز ہے ورنہ نہیں۔
(ج) المام سلخ
دوسرے شاعر کے شعر کا مضمون اپنے الفاظ میں ادا کر کے اپنا لینا۔
سرقۂ غیر ظاہر کی قسمیں :
سرقہ غیر ظاہر معیوب نہیں بلکہ اگر اچھا تصرف ہے تو مستحسن سمجھا جاتا ہے. اس کی متعدد صورتیں ہیں :
(1) دو شاعروں کے اشعار میں معنوی مشابہت کا ہونا۔
(2) ایک کے شعر میں دعویٰ خاص ہو اور دوسرے شعر میں عام۔
(3) کسی کے مضمون کو تصرف سے نقل کرنا۔
(4) دوسرے شعر کے مضمون کا پہلے شعر سے متضاد و مخالف ہونا۔
(5) پہلے شعر کے مضمون میں مستحسن تصرف کرنا اور یہ بہت مستحسن ہے.
بحوالہ : سرقے کی روایت، تاریخ کی روشنی میں، سید خالد جامعی، صفحہ 13
نوٹ :
کسی خاص غرض میں شعرا کا اتفاق سرقہ نہیں کہلاتا (جیسے شجاعت یا سخاوت وغیرہ سے کسی کی تعریف کرنا) کیونکہ ایسی باتیں تمام لوگوں کی عقول و عادات میں مذکور ہوتی ہیں۔ البتہ اس غرض پر دلالت کرنے کے لئے جو تشبیہات اور استعارات و کنایات استعمال کئے جائیں ان میں سرقہ ہو سکتا ہے۔ مگر جو استعارات و تشبیہات نہایت مشہور ہیں، جیسے شجاع کو اسد سے تشبیہ دینا اور سخی کو دریا سے وغیرہ وغیرہ ان میں سرقہ نہیں ہوتا۔
سرقۂ شعری کے ذکر میں، میں نے متداولہ رائے سے کسی قدر اختلاف کیا ہے ۔ متداولہ رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شعر بجنسہ یا بتغیر الفاظ کسی دوسرے کلام میں پاتا جائے تو اس کو سرقہ سمجھنا چاہیے میں نے اس پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ سرقہ اس وقت سمجھا جائے گا اگر اس دوسرے شاعر نے باوجود علم کے بدنیتی سے یعنی لوگوں پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ میرا شعر ہے وہ شعر بجنسہ یا اس کا مضمون بتغیر الفاظ چرایا ہو۔ مثلاً غالب کا مطلع ہے کہ :
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن بڑھ آئیں گے کیا
اور شاد لکھنوی کہتے ہیں
کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ پائیں گے کیا
زخم بھر جائیں گے تو ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا۔
اس میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ شاد کو غالب کے شعر سے آگاہی تھی تو یقیناً یہ سرقہ کی حد میں آتا ہے۔
البتہ اس قاعدے سے وہ اشعار مستثنیٰ ہیں جن میں کوئی محاورہ یا مثل باندھی جائے ۔ مثلاً سانپ نکل گیا، اب لکیر پیٹا کرو ایک مثل ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ ایک زریں موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا اب اس کی کوشش بیکار ہے. اس مثل کو ان چار شاعروں نے باندھا ہے ۔
خیالِ زلف دو تا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹ کر
(شاہ نصیر دہلوی)
سانپ تو بھاگ گیا پیٹتے ہیں لوگ لکیر
خوب پوشیدہ کئے تم نے دکھا کر گیسو
(تمنا)
سردے دے مارو گیسوئے جاناں کی یاد میں
پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا
(رند)
دکھلا کے مانگ گیسوؤں والا نکل گیا
پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا
(شاد لکھنوی)
ان میں کوئی شعر کسی دوسرے شعر کا سرقہ نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہر شاعر نے ضرب المثل کو باندھا ہے مگر تعجب ہے کہ شاد ایسا استاد اور کہنہ مشق شاعر نے رند کا پورے کا پورا مصرعہ بلا کیسی تغیر و تبدیل کر کے اپنے کلام میں شامل کر لیا۔
نوٹ :
جب تک با وثوق ذرائع سے یہ علم نہ ہو کہ سرقہ کیا گیا ہے اس وقت تک کسی شعر پر سرقہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔