کائنات کا ایک بنیادی اُصول ہے کہ توانائی کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پیدا۔ البتہ اسے ایک قسم سے دوسری قسم میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر گھروں میں لگے سولر پینلز سورج کی روشنی جو توانائی کی ایک شکل ہے، کو روشنی سے برقی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں یعنی سورج کی روشنی سولر پینلز میں موجود الیکٹرانز کو حرکت میں لاتی ہے اور یوں بجلی کی صورت آپ پنکھا یا موٹر چلاتے ہیں جو برقی توانائی کو میکناکی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہاں آپ نے توانائی پیدا نہیں کی بلکہ مخلتف آلات یا مشینوں کی مدد سے اسے ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل کیا ہے۔ ایسے ہی آپ بھی توانائی کی اقسام کو تبدیل کرنے کا آلہ ہیں۔ آپ جو خوراک کھاتے ہیں وہ پودوں یا جانوروں سے حاصل ہوتی یے۔ پودے سورج کی روشنی، ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی مدد سے خوراک پیدا کرتے ہیں۔ خوراک کیا ہے؟ خوراک بہت سے بڑے مالیکولز ہیں۔ ان میں موجود اجزا دراصل بڑے نامیاتی مالیکولز ہوتے ہیں جو بنیادی عناصر جیسے کہ ہائیڈروجن ، کاربن، آکسیجن اور نائیٹروجن کے ایٹموں کو جوڑ کر بنتے ہیں۔ ان ایٹموں کو آپس میں جوڑنے میں توانائی خرچ ہوتی ہے۔ جو انکے بانڈز میں سٹور ہو جاتی یے۔ بعد میں جب یہ خوراک جاندار جیسے کہ انسان یا جانور کھاتے ہیں تو انکا جسم ان بڑے مالیکولز کو خلیوں میں جا کر آکسیجن کی مدد سے توڑتا ہے اس سے پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ توانائی جانداروں میں زندگی کی گاڑی چلاتی ہے۔
گویا آپ ایک آلہ ہیں جو کیمائی توانائی کو جو خوراک میں موجود ہے کو حرکتی توانائی(آپکا چلنا پھرنا، سانس لینا وغیرہ)، برقی توناائی(دماغ میں نیورانز کے رابطے جو برقی سگنلز پر منحصر ہوتے ہیں)، صوتی توانائی( آپ جب بولتے ہیں) وغیرہ میں تبدیل کرتے ہیں۔
آئین شٹائن کے مطابق مادہ اور توانائی دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مادہ توانائی کی کنڈنس صورت ہے۔ کائنات میں جتنی توانائی بگ بینگ کے وقت موجود تھی، آج بھی اتنی ہی ہے۔البتہ توانائی کا پھیلاؤ وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
کائنات میں کل مادہ اور توانائی نہیں بدل رہے البتہ چونکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اس لیے کل توانائی اور مادے کی کثافت کم ہو رہی ہے یعنی جہاں آج اگر کائنات میں فی کیوبک سینٹی میٹر مادہ 10 کی طاقت منفی 29 گرام ہے تو ماضی میں بگ بینگ سے کچھ سیکنڈ بعد فی کیوبک سینٹی میٹر میں یہ 10 کی طاقت 90 کلوگرام تھا۔
وجہ صاف ہے کہ کائنات دراصل پھیل رہی ہے۔اور مادے اور توانائی کے لیے اب جگہ زیادہ ہے۔
کائنات کی کل توانائی اور مادے میں سے 5 فیصد عام مادہ ہے جو برقناطیسی لہروں سے تال میل رکھتا ہے وہی مادہ جس سے ہم آپ، کہکشائیں اور ستارے بنے ہیں۔
جبکہ 26.8 فیصد ڈارک میٹر
اور 68.2 فیصد ڈسرک انرجی کی صورت ہے۔
ڈارک میٹر عام مادے کی طرح روشنی یا برقناطیسی لہروں سے
تال میل نہیں کھاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کا کوئی بنیادی ذرہ اب تک دنیا کی جدید تجربہ گاہوں میں دریافت نہیں کیا جا سکا اور اس حوالے سے دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے۔
جب ہم نہ ڈارک میٹر کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ اب تک دریافت ہوا ہے تو ہم اسکی موجودگی کا پتہ کیسے دے سکتے ہیں؟
اس حوالے سے کئی شواہد موجود ہیں ۔ ڈارک میٹر بھی عام مادے کی طرح گریویٹی یا کششِ ثقل رکھتا ہے۔ اور آئن شٹائن کے مطابق اگر مادہ کہیں موجود ہو تو وہ سپیس ٹائم یا زمان و مکاں میں خم پیدا کرتا ہے۔
روشنی خلا میں سیدھی لکیر
میں سفر کرتی ہے تاہم اگر سپیس ٹائم میں ہی خم ہو تو روشنی اس سے گزرتے ہوئے خود بھی مڑے گی۔
سو اگر ہم دور کسی ستارے کو دیکھیں اور اسکی روشنی ہم تک مڑ کر آ رہی ہو یا اس ستارے کی تصویر ہم تک ٹیڑھی میڑھی سی پہنچ رہی ہو یا یہ اپنے اصل مقام سے ہٹ کر کسی اور جگہ نظر آئے اور بظاہر اس ستارے اور ہمارے بیچ کوئی مادہ نہ ہو تو اسکا کیا مطلب ہو گا؟
یہی کہ ستارے اور ہمارے بیچ مادہ ہے بس ہمیں نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس مادے کی وجہ سے روشنی خم کھا رہی ہے کیونکہ یہ زمان و مکاں یا سپیس ٹائم میں خم پیدا کر رہا ہے۔
ایسے اور اس طرح کے دیگر بلواسطہ ثبوت ہمیں ڈارک میٹر
کا پتہ دیتے ہیں تاہم ڈارک میٹر کی مزید کیا خصوصیات ہیں اور یہ کس طرح کا ہے اس بارے میں ہم تب ہی مکمل جان پائیں گے جب ہم اسکا کوئی بنیادی ذرہ تجربہ گاہوں میں یا خلاؤں میں ڈھونڈ پائیں گے ۔
اگر ڈارک میٹر ہر جگہ موجود ہے تو زمین اور نظامِ شمسی میں بھی اور آپکے اور میرے اردگر د بھی ہو گا۔
جی ہاں ضرور ہو گا۔ مگر کتنا اور کہاں کہاں یہ ہم نہیں جانتے۔
2022 میں امریکہ کی
پرنسٹن یونیورسٹی کے محقق ایڈورڈ بیلبرونو نے نظامِ شمسی میں ڈارک میٹر اور عام مادے کے تناسب کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اُنکا استدلال ناسا کے ماضی میں وینس اور پلوٹو تک بھیجے جانے والے مشنز Poineer اور نیو ہورائزن کی رفتار اور راستے میں بدلاؤ کی وجہ ڈارک میٹر کا اثر تھا۔
ان سپیس کرافٹس کی رفتار اور سمت میں معمولی بدلاؤ کو اب تک سائنسدان پوری طرح واضح نہیں کر سکے تھے۔
ایڈورڈ بیلبرونو کے طبعیاتی ماڈل کے مطابق نظامِ شمسی میں عام مادہ تقریباً 55 فیصد ہے جبکہ ڈارک میٹر قریب 45 فیصد ہے۔
ڈارک میٹر نظامِ شمسی میں کہاں اور کس جگہ تک پھیلا ہوا ہے اس پر تحقیق کے در کُھلے ہیں۔
خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...