بدر ’چاند‘ اور چندرلوک پرکاشن کی سماجی تحریکوں میں طوائفوں کے تئیں ہمدردی پیدا کرنے والی، انھیں دوزخی زندگی میں ڈالنے والے اوباشوں، غنڈوں اور زناکاروں کے تئیں نفرت پیدا کرنے والی سماجی کہانیاں، اُگرجی کی البیلی کتابیں، زمانے کے ساتھ ساتھ میں نے بھی پڑھی تھیں۔ ایک زمانے میں بنارس میں پریم چند جی سے ملاقات کرنے گیا تو ان سے کُپرن [Kuprin]کے روسی ناول ’یاما‘ کی تعریف سن کر اسے بھی پڑھ چکا تھا۔ ’ٹو بیگ آئی ایم اشیمڈ‘ [To Beg I Am Ashamed] نامی انگریزی میں، طوائف بننے والی ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی دوشیزہ کی کہانی بھی پڑھ چکا تھا۔ کسی فلم اسٹار طوائف نے اپنی دردناک کہانی سنا کر نیتاجی سبھاش چندر بوس کو آبدیدہ کردیا تھا اور اس کی اخباری ہل چل سے ہم بھی آبدیدہ ہوئے تھے۔ چیچک ہونے پر کوٹھے والوں کی ٹھکرائی ہوئی، ایک بھٹکی ہوئی، خوفناک سوزاک میں مبتلا، شناسا طوائف کے آخری دنوں کا چشم دید گواہ بھی رہ چکا تھا؛ تب بھی میرے ذہن میں بھیانک زلزلہ آیا تھا۔ ایک طوائف کے انجام سے اب طوائف کا ازلی روپ دیکھتے وقت تلخ و شیریں تجربات سے پُر زندگی کے تین برس اور گزر چکے تھے۔ بدرِمنیر کا انجام دیکھ کر جذبے اپنی پوری طاقت سے ابھرے تو تھے لیکن اس وقت وہ گونگے ہی رہ گئے تھے۔ آج لوٗلوٗ کی ما ں کے متعلق وہ جذبے سوالوں کے تیر بن کر دل کے کونے کونے کو چھلنی کررہے تھے 151 مجرم کون ہے؟ وہ طوائفوں کے دلال، وہ ناکارہ شوہر، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مجبور ہوکر طوائف بننے والی شریف گھریلو عورت 151 کون مجرم ہے؟ خوفناک مرض سے مرنے والی طوائف بدرِمنیر بھی ا صل میں طوائفوں کے خاندان میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ رفیق نامی ایک غنڈہ دلال تھا۔ وہ اسے لکھیم پور کے قرب وجوار کے کسی گاؤں سے اس کے باپ کو سوا سو روپے دے کر، باقاعدہ نکاح کرکے، لکھنؤ لایا؛ انوری نامی کسی طوائف کے یہاں رکھا۔ اس کے یہاں تین لڑکیاں اور رہتی تھیں۔ ایک بہت ضدی تھی، اسے بہت مارا پیٹا جاتا تھا۔ رفیق اور انوری دونوں ہی بہت ظالم تھے، جوتوں، لاتوں، گھونسوں سے لڑکیوں کو پیٹنے کے علاوہ ان کے ظلم کی حد نہ تھی؛ وہ تپتے ہوئے چمٹے یا سلاخ سے ضدی لڑکی کی کمر، پسلیوں کے آس پاس، رانوں اور پستانوں کے نچلے حصّوں کو داغتے بھی تھے۔ بدرِمنیر یہ سب دیکھ کر اتنی سہم گئی کہ جیسا کہا جاتا ویسا ہی کرتی تھی۔ اس نے اپنی فرمانبرداری اور خدمت سے رفیق اور انوری دونوں کو خوش کر رکھا تھا، اس لیے سال ڈیڑھ سال تک اس سے پیشہ نہ کرایا گیا۔ ہر لڑکی کو کام کے لائق ناچ اور گانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بدرِمنیر کا گلا قدرتی طور پر سریلا تھا۔ اس نے سیکھنے میں بھی پوری دلچسپی لی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بھی شروع کیا، کام میں ہوشیاری دکھائی۔ رفیق کو خیال آیا کہ اسے اچھی تعلیم دے کر بڑی محفلوں میں نام کمانے کے قابل بنایا جائے۔ انوری اتنے دن انتظار کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ دونوں میں ساجھے کی کھیتی تھی، کہا سنی ہوگئی۔ انوری نے کہہ دیا کہ اگر تمھیں من مانی کرنی ہے تو اس کا کہیں اور انتظام کرو۔ رفیق نے اسے چوک میں کوٹھا دلادیا،ملمعے کے گہنوں سے سجادیا اور موسیقی کی اچھی تعلیم کا بندوبست بھی کردیا۔ تگڑمی تھا ہی، بدرِمنیر کا نام چاروں طرف پھیلا دیا۔ شام کو موسیقی کی ایک دو محفلوں میں پانچ چھے روپے تک کما لیتی تھی۔ یہ سنہ 1935-36 کی بات ہے۔ انہی دنوں دوستوں کے ساتھ گانا سننے کے لیے میں بھی اس کے یہاں گیا، دو تین بار دوستوں کے ساتھ اور چار چھے بار اکیلا۔ تب تک مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا، ہاں اتنا جانتا تھا کہ اس کے یہاں صرف موسیقی کے شائقین کا ہی استقبال ہوتا ہے، عیاش طبع لوگوں کا نہیں۔ وہ اپنے ہی طبقے میں کسی کی بیوی ہے، خاندانی ہے، اس بات سے میرے دل میں بدرِمنیر کے لیے عزت ہوگئی تھی۔
اس کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ ہفتہ واری مزاحیہ رسالے ’چکلّس‘ کی اشاعت شروع کی۔ اس کی وجہ سے شام کو بھی ادبی دوستوں کی نشست میرے یہاں ہونے لگی، پرانے دوست چھوٹنے لگے۔ ایک بار یونہی اُس کا خیال آیا تو بازار میں ایک دوست سے معلوم ہوا کہ بدرِمنیر کو بھیانک چیچک نکلی تھی، بہت بدصورت ہوگئی ہے۔ اس کے آدمی نے اسے نکال دیا ہے، کہیں اور کوٹھا لے کر رہنے لگی ہے۔ خیر، میں بھول گیا۔
سنہ 37 کی سردیوں کی بات ہے۔ شام کے وقت ایک میلا کچیلا، آوارہ قسم کا مسلمان لڑکا میرے یہاں آیا، کہا کہ بدرِمنیر بہت بیمار ہے، آپ کو بلایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہے؟ اس نے اکبری دروازے کے باہر جو جگہ بتائی، وہاں اس وقت جانے کی ہمت نہ ہوئی، لیکن دل میں رحم کا جذبہ بھی تھا۔ میں نے کہا کہ نو بجے آؤں گا، تم مجھے کہاں ملو گے؟ اس نے جگہ بتادی۔
اس وقت میرے پاس روپے نہیں تھے، ایک دوست سے پچاس روپے ادھار لے کر ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔ جس گلی، جس گھر میں وہ لڑکا مجھے لے گیا اس میں کبھی خواب میں بھی طوائف کے بسنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ طوائفوں کی زندگی کے دوزخ کو اس رات پہلی بار دیکھا۔ طوائف لفظ کے ساتھ اس وقت تک میرے ذہن میں موسیقی اور رقص کی ماہر، محفل باز، باتونی، خوبصورت لبھانے والی کا ہی تصور تھا۔ مردوں کی حیوانیت کا شکار ہونے والی، اتنی نچلی سطح کی؛ حسن، گُن، فن سے عاری؛ گوشت پوست کی شکستہ مشینوں کے متعلق پڑھ سُن کر بھی میں نے انھیں دیکھا یا جانا نہیں تھا۔
سردی کی رات تھی، سڑکوں گلیوں میں سناٹا ہونے لگا تھا۔ وہ لڑکا مجھے دو تنگ گلیوں میں گھما کر ایک پرانے مکان میں لے گیا۔ باہر چار دروازے تھے، تین باہری کمروں کے تھے، ایک گھر کا داخلی دروازہ تھا۔ درمیان میں لکھوری اینٹوں کا صحن، دو طرف دالان، ان میں دو کمرے، ایک کوٹھری تھی۔ دو دیواروں کے سہارے چھپّر بانسوں پر کھڑا تھا، ان میں دو طرف ٹاٹ کے پردے لٹکا کر ایک کمرہ سا بنا لیا گیا تھا۔ دونوں دالانوں کے دو دروں میں بھی ٹاٹ کے پھٹے جھینے پردے اور ان کے اندر ڈِھبریوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ قریب اور دور سے، نشے کے گھوڑے پر سوار بہکی بہکی، شیخی سے بھری، جھگڑتی ہوئی اور گالیوں سے بھری آوازیں ٹاٹ کے پردوں سے آرہی تھیں۔ ایک دالان کے کھلے حصّے میں ایک عورت چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا رہی تھی۔
لڑکے کی ’’آجائیے، چلے جائیے‘‘ کی آوازوں نے اس چھوٹے سے گھر میں رہنے والوں کو چونکا دیا۔ آج سوچتا ہوں کہ شاید اتنی مہذب زبان میں وہاں کسی کا استقبال نہ ہوتا ہوگا، اسی لیے مرد عورتیں چونکے ہوں گے۔ میں ٹاٹ اور چھپّر کے بنے کمرے میں گیا۔ سرہانے اور پہلو کی طرف دو دیواروں سے لگی ہوئی چارپائی پر بدرِمنیر پڑی تھی، پائینتی کی طرف دیوار میں بنے ایک طاق میں ڈِھبری جل رہی تھی۔ ایک پرانا سا مونڈھا لڑکے نے چارپائی کے پاس رکھ دیا اور مجھ سے بیٹھنے کو کہا۔ میں نئی عمر، نئے ماحول اور رحم دلانہ جذبے کے اثر میں کھڑا ہی رہا۔ روشنی کم ہونے کی وجہ سے اسے ٹھیک طرح دیکھ نہیں پارہا تھا۔
بدرِمنیر نے آہستہ سے کہا: ’’آپ کو بڑی تکلیف دی۔ یہ جگہ آپ کے لائق نہ تھی۔‘‘
میں نے روشنی کے لیے لڑکے سے ڈِھبری مانگی اور وہ لے آیا۔ میں اسے پہچان نہیں سکا کہ یہی بدرِمنیر ہے۔ میرے سامنے پھٹے لحاف میں لپٹی عورت کا صرف ہڈیوں بھرا چہرہ اور ایک ہاتھ تھا؛ چہرہ بڑے بڑے لال دانوں سے بھرا ہوا تھا، آنکھیں اور کھلے دانتوں کی قطار خوفناک لگ رہی تھی۔ روشنی میں میرا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر وہ ہنسی تھی۔ میری طرف دیکھ کر بھی نہ دیکھتی ہوئی اس کی پھٹی سی آنکھیں مجھ سے نہ دیکھی گئیں۔ میں نے لڑکے کی طرف ڈِھبری بڑھادی۔ اسے طاق میں رکھ کر لڑکا بولا : ’’محبوبن، اب ہم جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا‘‘ بدرِمنیر کی دھیمی آواز نکلی۔ میں چارپائی سے ذرا دور ہٹ کر مونڈھے پر سنبھل کر، دیوار کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ’’محبوبن‘‘ نام ذہن میں اٹکا، تب لڑکا پھر بولا: ’’تم نے کہا تھا، پیسے دلائیں گے۔‘‘
’’ہاں، یہ لو۔‘‘ میں نے جیب سے شایداٹھنّی یا روپیہ نکال کر دے دیا۔ لڑکا چلا گیا۔
اس کی کہانی میں نے اسی دن سنی تھی۔ چیچک نکلنے کے بعد رفیق کے دل سے وہ بالکل اتر گئی۔ ایک دن اس کوٹھے میں ایک نئی لڑکی بسانے کے لیے لے آیا اور بدرِمنیر کو مار پیٹ کر کوٹھے کی سیڑھیوں پر دھکیل دیا۔ بے سہارا ہوکر وہ انوری کے پاس گئی۔ اس نے اپنے پاس رکھنے سے تو انکار کردیا لیکن ہمدردی سے پیش آئی۔ اس نے اس چکلہ خانے کی بڑی بوڑھی کو بلا کر آمنا سامنا کرادیا۔ یہاں کمرہ نہیں تھا، چھپّر ڈلوانے، چارپائی وغیرہ خریدنے کے لیے پرونوٹ لکھ کر پچیس روپے دیے۔ وہ بیاج پر لیے گئے پچیس روپے پچھلے آٹھ مہینے میں بھی ادا نہ ہوسکے۔ جسمانی کاروبار کے لیے ایک مرد سے چونّی اٹھنّی سے زیادہ نہیں ملتا تھا۔ اس گھر میں سب ایسی ہی نکالی ہوئی بدنصیب طوائفیں تھیں۔ یہ طوائفوں کے سماج کا سب سے نچلا طبقہ تھا۔
لڑکے کے باہر جانے کے تھوڑی دیر بعد دو تین عورتیں لالٹین لیے بدرِمنیر کی عیادت کے بہانے مجھے دیکھنے آئی تھیں۔ اس ماحول میں میرے جیسے معزز سفید پوش کا آنا رات میں سورج نکلنے کی طرح ہی ناممکن سی، ان دیکھی، ان سنی بات تھی۔ میں خود ایک عجیب تذبذب کی کیفیت سے دوچار تھا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے تک وہاں رہا۔ بدرِمنیر بات کرنے کے جوش میں تھی۔ بولتے بولتے ہانپ جاتی تھی، رک جاتی تھی۔
اس چکلہ خانے کو چلانے والی اور اس کا یار پیسے کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ انوری کے پچیس روپے کبھی ادا نہ ہوتے۔ گاہکوں سے پیسے وصول کرنے کا اختیار چکلہ چلانے والی اور اس کے یار کا ہی تھا۔ اس لیے ادھار بھی چڑھا رہا اور روز کے خرچ کے نام پر بدرِمنیر کی روز کی کمائی میں بھی اس کا حصہ نہ رہا۔ اس چکلہ خانے میں بدرِمنیر (اس چکلہ خانے میں اس کا نام محبوبن) کی کمائی سب سے زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ اڈّہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کہیں پوچھ نہیں ہوسکتی تھی؛ حسن، جوانی، صحت سب برباد ہوجانے کے بعد وہ یہاں آتی تھیں، ان کے درمیان بدرِمنیر اپنی بھری جوانی لے کر آئی تھی۔ چکلہ چلانے والی اسے گاہکوں سے فرصت نہ لینے دیتی تھی۔ آٹھ دس مہینے میں وہ تیسری بار بیمار پڑی تھی۔ پہلی بار میعادی بخار چڑھتا رہا۔ اس میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ جب بخار کی وجہ سے کام نہ کر پاتی تو ’’بیٹھے بیٹھے کھا رہی ہے حرام زادی، یہاں تیرا باپ بیٹھا ہے‘‘ جیسی تلخ باتیں سنتی اور بخار اترتے ہیں ادھار کی رقم بھرنے کے لیے پھر گاہکوں کی خدمت میں جُٹ جاتی۔ دو مہینے پہلے کسی سے سوزاک مرض ملا۔ بہت ہلکا اثر تھا، پھر بھی پندرہ بیس دن کسی کام کی نہ رہی۔ ادھار اور بڑھ گیا۔ اِدھر ایک ہفتہ پہلے ایک ہی دن میں دو آدمیوں سے یہ مرض ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے مرض اتنی تیزی سے بڑھا کہ چار دن میں پورا بدن دانوں سے بھرگیا۔ کمر سے لے کر ناف کے اوپر تک پکی ہوئی پھنسیوں اور ان کے زخموں کے چھتّے کے چھتّے دکھائی دے رہے تھے۔ بدرِمنیر اپنے مرض سے جو تکلیفیں برداشت کررہی تھی وہ تو تھیں ہی، اُدھار کے طعنوں، گالیوں اور نکال دینے کی دھمکیوں سے اسے زیادہ اذیت ہورہی تھی۔ بدرِمنیر کو اپنی اذیت میں جانے کیسے میرا نام یا دآیا۔ میں نے اس سے قربت کا رشتہ کبھی قائم نہیں کیا تھا؛ اس کے شریفانہ برتاؤ اور فن موسیقی کی وجہ سے اس کو عزت ضرور دی تھی۔ شاید کبھی باتوں باتوں میں اسے اپنا پتہ ٹھکانا بھی بتایا ہی ہوگا، اسی لیے وہ لڑکے کو میرے پاس بھیج سکی۔ بہرحال، وہ ساری باتیں تو اسرار ہی ہیں۔ اس وقت بدرِمنیر کی جیسی حالت تھی، اس کی وجہ سے میں نے خاص طور پر کچھ نہیں پوچھا تھا۔ وہ جو کچھ کہتی رہی، میں سنتا رہا۔ وہ تقریباً ستّر روپے کی قرضدار تھی۔ وہ قرض سے نجات چاہتی تھی۔ صحتیابی کی اسے آرزو نہ تھی، کیونکہ موت کا احساس اسے ہوچکا تھا۔ میں نے پچاس روپے اسے دینے کے لیے نکالے۔ اس نے کہا: ’’یہ روپے میرے پاس رکھنا بے کار ہے۔ آپ کے آنے سے وہ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھے آپ سے مدد ملے گی۔ وہ چھین کر لے جائیں گے اور مجھے آپ کو بار بار تکلیف دینے کے لیے مجبور کریں گے۔ آپ اُن ہی کو دے دیں۔‘‘
جب چلنے لگا تو بدرِمنیر نے ایک فقرہ کہا جو اب تک چبھ رہا ہے:’’میں کہتی تھی، خدا نہیں ہے 151 خدا ہے 151 خدا ہے۔‘‘
جب باہر آیا تو بیٹھک والے کمرے کی ایک ادھیڑ عورت نے کہا:’’جارہے ہیں بابوجی؟‘‘
وہ اور اس کا دڑھیل یار باہر آگئے۔ عورت نے اور اس کے یار نے کچھ باتیں کیں، بدرِمنیر کے لیے ہمدردی کے نقلی بول بولے۔ میں نے ان پر دھیان نہ دے کر کہا کہ کل انوری سے پرونوٹ لے کر کوئی آجائے، میں ادائیگی کردوں گا؛ بیس روپے عورت کے ہاتھ میں رکھے کہ اس کی دوا دارو کراؤ۔
دوسرے دن دوپہر کو وہ داڑھی والا خود میرے یہاں آیا۔ میں نے بدرِمنیر کا قرض چکادیا۔ دوا دارو اور انجکشن کے لیے اس نے پچیس روپے اور مانگے۔ انسانیت کے ناتے دے تو دیے لیکن میری جیب پر بھاری پڑے۔ خیر، پھر کوئی نہ آیا۔ دو دن گزر گئے۔ میرا دل کسی کام میں نہ لگتا تھا؛ جو دیکھ آیا تھا وہ نظر سے، دل سے دور نہ ہوتا تھا۔ بدرِمنیر کا حال جاننے کی خواہش ہوتی تھی، لیکن دوبارہ وہاں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ آخر تیسرے دن میں اپنے آپ کو روک نہ پایا؛ جیسے تیسے دن گزرا۔ رات کے سناٹے میں پہنچا؛ اندر سے گالی گلوچ، مار پیٹ اور کوسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ دروازے پر پہنچ کر پھر اندر جانے کا جوش ٹھنڈا ہوگیا۔ لیکن اب یہا ں تک آکر واپس جانے کو دل بھی نہیں مانتا تھا، میں اندر چلا ہی گیا۔ چکلہ چلانے والی کا دڑھیل یار اس گھر میں رہنے والی، دالان میں گری روتی ہوئی ایک عورت کو لاتیں مار رہا تھا، اور باقی سب طرف سناٹا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی داڑھی والا صحن میں آیا 151 ’’کون؟ آئیے بابو صاحب۔ محبوبن تو مر گئی، ابھی کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ ہوا۔‘‘
چکلہ چلانے والی کمرے سے باہر نکل آئی۔ جس دالان میں عورت مار کھا رہی تھی اسی میں بنے ٹاٹ کے کمرے سے ایک عورت اور مرد بھی نکل کر باہر آکھڑے ہوئے۔ چکلہ چلانے والی بڑے بڑے علاج کروانے کی باتیں بتا رہی تھی۔ دوسری عورت اور اس کا عاشق بھی مرحومہ کی تعریف کرنے لگے۔ میں نے ایک بار لا ش دیکھنے کے لیے کہا۔ اپنے ٹاٹ چھپّر کے رنگ محل میں زمین پر بدرِمنیر کی لاش کفن سے ڈھکی رکھی تھی۔ چارپائی وہاں سے ہٹائی جاچکی تھی۔ کفن ہٹا کر دڑھیل نے چہرہ دکھایا۔ میرے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ چار دن پہلے دیکھا ہوا چہرہ اب پہچانا نہیں جاتا تھا۔ دایاں آدھا گال، نیچے کا آدھا ہونٹ، اوپر کا پورا ہونٹ نتھنوں تک تین دن میں گل سڑ کر غائب ہوچکے تھے۔ اندر کے بھوت جیسے دانت اور خوفناک چہرہ دیکھ کر مجھے چکر آنے لگے، پاؤں لڑکھڑانے لگے۔ اس کے بعد چاہنے پر بھی مہینوں تک وہ چہرہ نہ بھول سکا۔ آج بھی یادوں میں تصویر ابھر کر دل کو بے چین کررہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوفناک منظر کوئی نہیں دیکھا۔
“