کتاب : توصیف تبسم : شخصیت و فن
مصنف : ڈاکٹر شیر علی
اشاعت : 2022ء
تعداد : 500
ناشر : اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد
صفحات: 269
اکادمی ادبیات پاکستان نے اردو ادب کی نامور شخصیات کے حوالےسے اہم کتابی سیریز ” پاکستانی ادب کے معمار ” کے نام سے شروع کی ہے ۔ اس سلسلے میں اب تک بہت سی انمول کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ڈاکٹر شیر علی صاحب کی تصنیف ” توصیف تبسم : شخصیت و فن ” اس سلسلے میں ایک شان دار اضافہ ہے اس سے قبل اس اہم ادبی سیریز میں 165 کتب منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ اس تحقیقی و تنقیدی تصنیف کے مصنف اردو ادب کے نامور نقاد ، محقق ، مبصر ، ادیب ، ماہر تعلیم ، ایڈیٹر ریسرچ جنرل ” الحمد ” ، چیئرمین شعبہ اردو الحمد اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد ” ڈاکٹر شیر علی ” صاحب ہیں ۔ آپ بیس برس سے اردو ادب کی تدریس کے ساتھ اس میں بطور محقق و نقاد خوبصورت اضافے بھی کر چکے ہیں ۔
“توصیف تبسم: شخصیت و فن ” کو ادبی منظر نامے پر ایک خاص مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔ یہ شہرہ آفاق تصنیف چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول سے قبل ” پیش نامہ ” میں چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد ” ڈاکٹر یوسف خشک ” صاحب کتاب کا کتاب کا تعارف و اہمیت پیش کرنے کے ساتھ مصنف کی اس شان دار کاوش کو بھی سراہتے ہیں اور اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ تصنیف ادبی حلقوں اور قارئین میں پسندگی کی نظر سے دیکھی جائے گی اور آج اس کتاب پر بہت سے اہل قلم حضرات اپنی پسندگی کا اظہار کر چکے ہیں ۔ ” پیش لفظ ” میں مصنف (ڈاکٹر شیر علی) ڈاکٹر توصیف تبسم کی شخصیت کا مختصرا جامع الفاظ میں تعارف پیش کرنے کے ساتھ اس کتاب کی ابواب بندی پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ آخر میں کتاب کی خصوصی اشاعت پر اکادمی ادبیات کی ادب نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
باب اول ” سوانح حیات ” پر مشتمل ہے جس کے ذیلی عنوانات ” پیدائش ،خاندان ، مہاجرت ، تعلیم ، ملازمت ، ازدواجی زندگی ، ادبی سفر ” پر مشتمل ہیں ۔ مصنف نے ان کی سوانح حیات کی تالیف میں ” ڈاکٹر توصیف تبسم ” صاحب کی کتاب ” بند گلی میں شام ” کو بنیادی ماخذ بنایا ہے ۔ ڈاکٹر توصیف تبسم کا تعارف مصنف ان کے ہی الفاظ میں رقم کرتے ہیں :
” سہوان ، خطہ یونان ، ضلع بدایوں ، اترپردیش ، بھارت کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو اپنے کیوڑے ، چنبیلی کےباغات اور حکیموں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے اس قصبہ میں 13 اگست 1928ء مطابق 15 صفر 1347ھ کو آنکھ کھولی ۔۔۔۔احمد فراز کے مشورہ سے محمد احمد تبسم کے بجائے ” توصیف تبسم ” قلمی نام اختیار کیا۔ ”
ذیلی عنوان ” تعلیم ” میں مصنف عرق ریزی سے ڈاکٹر توصیف تبسم کے تعلیمی سفر کی روداد بیان کرتے ہیں اور ساتھ اس دور کا سیاسی ،معاشی ، معاشرتی منظرنامہ بھی خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ مصنف کی تحقیق سےرغبت کا گہراثبوت دیتی ہے ۔ ذیلی عنوان ” ملازمت ” میں ڈاکٹر توصیف تبسم کی زندگی کا وہ حصہ بیان کرتے ہیں جب انھوں نے مختلف شہروں میں ،مختلف شعبوں میں ملازمت اختیار کی اور ساتھ اس دوران میں ان کے رفقا کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آرا کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ ذیلی عنوان ” ازدواجی زندگی ” میں ان کی کامیاب خانگی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ذیلی عنوان ” ادبی سفر ” میں ان کی مطبوعات ، اعزازات کی تفصیل (12)، تصانیف پر ایوارڈ (4) ، مقالات(3) پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ یہ باب ان کی سوانح پر مشتمل ہےجس میں مصنف نے ان کی سوانح اور ان کی ادبی کاوشوں کو جامع الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔
باب دوم ڈاکٹر توصیف تبسم کی شاعری کو موضوع سخن بنایا گیاہے ۔ باب کا پہلا ذیلی عنوان”توصیف تبسم بطور غزل گو ” شامل ہے جس میں مصنف ان کے شعری مجموعے کا تعارف اور ان کے شعری ارتقا کو لطافت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ ان کی غزل گوئی کا فکری و فنی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” توصیف تبسم کی غزل پڑھ کر شاعری میں نئی طرز کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کا طرز بیان اپنے اندر عمیق نظری ، تخیل کی بلندی ، نفیس مضمون آفرینی اور فصاحت و بلاغت جیسی صفات سے مزین ہے ۔ ان کے کلام کی تازگی اور جدت ، مضامین کی نوآئینی ، اسلوب کی چستی ، احساسات کی نفاست اور جذبات کی پاکیزگی و لطافت کی بہات ہے ۔ ”
اس ذیلی عنوان میں مصنف نے ڈاکٹر توصیف تبسم کی غزل گوئی کی خصوصیات کو مختلف ناقدین کی آرا کے ساتھ بیان کیاہے ۔ ” نظم نگاری ” میں مصنف نے ڈاکٹر توصیف تبسم کی نظموں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔ ” حمد ، نعت ، سلام ، منقبت ” میں توصیف تبسم کے شعری مجموعے ” سلبیل ” میں شامل حمد ، نعت ، سلام اور منقبت کا شعری مثالوں سے ان کا فکری و فنی جائزہ پیش کیا ہے اور ناقدین کی آرا کو بھی پیش کیا ہے ۔ باب دوم کا آخری ذیلی عنوان ” بچوں کی شاعری ” ہے جس میں مصنف نے توصیف تبسم کی بچوں پر لکھی گئ نظمون کا جائزہ پیش کیا ہے ۔ اس حوالے سے ان کے شعری مجموعے” آو کھیلیں ، آو گائیں ” کو اساس بنایا گیاہے ۔ یہ باب ڈاکٹر توصیف تبسم کی شعری عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
باب سوم تحقیق و تنقید پر مشتمل ہے ۔ اس باب میں ڈاکٹر توصیف تبسم کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کو نہایت جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے ۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی خدمات میں ” جنگ آزادی 1857ء کا مجاہد شاعر ( میر محمد اسماعیل حسین منیر شکوہ آبادی ) ، یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا ، خاکہ نگاری اور اقرار حسین شیخ ” شامل ہے ۔ توصیف تبسم کا منیر شکوہ آبادی کی حیات و فن پر تحقیقی کام کو مصنف نے اصل متن کی مثالوں کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس کی فکری و فنی عظمت کو منور کیا ۔ یہ مجلس ترقی ادب لاہور سے اکتوبر 2009ء میں شائع ہوئی ۔
“یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا ” توصیف تبسم کی یہ تصنیف مکتبہ جدید لاہور سے 2021ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں اچھے شعر کےاجزائے ترکیبی پر بحث کی گئ ہے جسے مصنف نے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ ” خاکہ نگاری اور اقرار حسین ” توصیف تبسم کی یہ کتاب لائبریری ڈوپلیر راولپنڈی سے2017ء میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہےجس میں خاکہ کیا ہے ؟ ، اردو خاکہ نگاری کا ارتقا ، خاکہ نگاروں کی زمانی ترتیب مختلف خاکہ نگاروں کے فن پاروں کا جائزہ لیتے ہوئے اقرار حسین تک خاکہ نگاری کے سفرکو پیش کیا ہے ۔ مصنف نے اس حوالے سے توصیف تبسم کی خاکہ نگاری پر مشتمل کتاب کا فنی فکری اور موضوعاتی حوالے سے جائزہ پیش کیا ہے ۔
باب چہارم متفرق اصناف پر مشتمل ہے جس میں ” بند گلی کی شام (یاداشتیں ) اور کہاوت کہانی ” شامل ہے ۔ ” بند گلی کی شام (یاداشتیں ) ” عکاس پبلی کیشنز کےزیر اہتمام 2010ء میں اسلام آباد میں شائع ہوئیں ۔ مصنف نے اس ذیلی عنوان میں توصیف تبسم صاحب کی یاداشتوں کی فکری و فنی عظمت پر روشنی ڈالی ہے ۔ ” کہاوت کہانی ” 2001ء میں نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوئی ۔ یہ کتاب مختلف کہاوتوں کی کہانی ہے جسے مصنف نے تحقیقی و تنقیدی جائزے سے پیش کیا ہے ۔ ” انتخاب کلام ” میں توصیف تبسم صاحب کے اہم شعری کلام کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ” معاصرین کی آرا ” میں اردو ادب کی اہم ادبی شخصیات کی توصیف تبسم کے حوالے سے آرا شامل کی گئ ہے جس میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو لائق صد تحسین کہا گیا ہے ۔
ماحصل میں مصنف نے ڈاکٹر توصیف تبسم کی شخصیت و فن کو منفرد اسلوب بیان کے ساتھ جامع الفاظ میں پیش کرنےکی کامیاب کوشش کی ہے ۔
بلاشبہ یہ کتاب تحقیقی و تنقیدی نقطہ نظر سے اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ تصنیف اسلوب کی شگفتگی اور جملوں کی چستی کےساتھ اردو ادب میں لائق تحسین اضافہ ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد مصنف کی ادب دوستی اور تحقیقی و تنقیدی شعور کا علم ہوتا ہے ۔ مصنف نے بنیادی ماخذ سے کام لیا ہے اور معاصرین کی آرا کو بھی شامل رکھا ۔ ڈاکٹر توصیف تبسم کی ادبی زندگی کے مطالعے کے لیے اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ۔ اس کاوش پر ڈاکٹر شیر علی صاحب لائق صد تحسین کے مستحق ہیں ۔ امید واثق ہے ڈاکٹر شیر علی صاحب اور اکادمی ادبیات پاکستان اردو ادب میں ایسے مزید کئی خوش گوار اضافے کریں گے ۔