میاں جی کے چہرے پہ ہمہ وقت سکون اور اطمینان کی کیفیت رہتی اور کبھی اُن کے منہ سے فالتو یا لغو بات نہیں سنی، بہت کم گو تھے اور اکثر خلوت نشیں رہتے، اُن کے چہرے پہ اس قدر بشاشت دیکھ کر لوگ رشک کرتے، میں نے ہمیشہ میاں جی کو خلقت خدا کو راہِ راست اور راہِ ہدایت کی طرف بُلاتے ہوئے دیکھا، وہ یادِ خدا میں مشغول رہتے اور کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی، میں نے ایک دن میاں جی سے استفسار کیا کہ میاں جی آپ تو بڑے نیک اور متقی ہیں اور تقویٰ و زہد میں پوری بستی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں پھر بھی کیا ماجرا ہے کہ آپ کی چشم اکثر پُرآب رہتی ہے، وہ لب گویا ہوئے کہ بیٹا میں کوئی زاہد و متقی نہیں ہوں ایک گنہ گار سا بندہ ہوں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نادم و شرمندہ اپنے مالک کو منانے کے جتن کرتا رہتا ہوں میں نے کہا میاں جی میں نے تو جب سے دیکھا آپ کو ہمیشگاں رب تعالیٰ کی مدحت میں ہمہ تن گوش منہک پایا اور کبھی کسی سے زبان درازی یا زیادتی بھی کرتے نہیں دیکھا تو پھر کونسی اغلاط ہیں جن پر آپ کفِ افسوس مَلتے ہیں اور رب سے نادم ہیں، وہ بولے بیٹا!! تُم ابھی بچے ہو اس لیے مجھے اب جس طرح دیکھا اِسی طرح گمان کر لیا کہ میں شروع دن سے ایسا ہوں، نہیں پُتر میں بڑا عیاش اور ظالم انسان رہا ہوں، کوئی بھی رات ایسی نہ تھی جو عہدِ جوانی میں میری گھر پہ بسر ہوئی، ہر شب دوستوں کے ساتھ شراب نوشی کرتا، جوا کھیلتا اور دن رات کے بارے میں کچھ ہوش نہ تھا، جہاں پہ ہمیں خبر ملتی کہ کوئی رقاصہ آئی ہے ہم وہی پہنچ جاتے اور پوری جمع پونجی اسی پہ اڑا کے آ جاتے، میرا بیٹا دن بھر کماتا اور بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں کام کر کے کچھ نہ کچھ مایہ کما کے لاتی اور میں دونوں کی کمائی کو قمار بازی اور شراب و شباب کی محفلوں میں اڑا دیتا اور پھر خالی جیب صبح گھر لیٹتا اور پورا دن نشے میں دُھت پڑا رہتا اور بیوی بچوں کو بُرا بھلا کہتا رہتا، کبھی خیال نہیں گزرا کہ بچوں کی تربیت کروں، پڑھاؤں، لکھاؤں یا اچھا انسان بناؤں بس ان کے سامنے گالم گلوچ نکالتا اور بس، پھر ایک دن میرے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ یار کب تک یہاں اپنے دن ضائع کرتے پھریں اور ہر رات چھوٹا موٹا جوا کھیل کے ذلیل و خوار ہوتے پھریں چل یار آج بڑا ہاتھ مارتے ہیں، میں نے کہا کہ یار میں کچھ سمجھا نہیں تیرا مطمح نظر کیا ہے؟ تُو کہنا کیا چاہتا ہے اُس نے کہا کہ یار اس جوئے وغیرہ کو لات مارتے ہیں کیونکہ "جوا کسی کا نہ ہوا" اور ایک ہی دفعہ امیر ہونے کا سوچ، میں نے کہا دوست وہ کیا فارمولا ہے ایک ہی دن میں امیر بننے کا، وہ کہنے لگا کہ ہم ڈاکہ زنی کا کام شروع کرتے ہیں، میں نے کہا کہ تُف ہے تجھ پر ایسا قبیح کام بتا رہا ہے پاگل پھنس گئے تو اسی موج مستی سے بھی جائیں گے اور ساری عمر جیل میں دال پہ گزارا کرنا ہو گا، وہ کہنے لگا ڈرپوک ہو آپ ایک نمبر کے ارے مرد کی اولاد بنو مرد کی خیر قصہ مختصر اس نے مجھے شیشے میں اتار لیا اور ہمارا منصوبہ یہ بنا کہ ایک دفعہ آخری اور بڑا جوا کھیلتے ہیں اس سے ہتھیائی متاع سے ہتھیار وغیرہ خریدیں گے اور پھر چوری چکاری کا دھندہ شروع کریں گے۔
اب کی بار ہم ایک رات میں دو بڑے جوئے کھیلیں گے ہم جوا کھیلنے پہنچ گئے پہلی بار ہم نے جتنی رقم تھی پاس، پائی پائی جوئے میں لگا دی اور ہار گئے، اب دوسری بار ہمارے پاس رقم ہی نہ تھی تو ہم نے اپنی بیویاں جوئے پہ لگا دیں اور وہ بھی ہار گئے، جب بیٹے نے دیکھا کہ میں نے اس کی ماں کو ہی ہار کے کسی اور کے حوالے کر دیا تو اس نے بھی گھر بدر ہونے میں عافیت جانی، میں نے یاروں کے کہنے پہ گھر بیچ دیا اور کچھ رقم جوئے پہ اڑائی، کچھ محفلوں میں اور باقی سے ہتھیار خریدا، ہم لوگوں نے تین چار بڑے ہاتھ مارے اور کافی گنج و مایہ اکٹھا کر لیا، ایک رات ہم ایک بہت بڑے کپڑے کے تاجر کے گھر چوری کرنے گئے، جونہی نقب لگایا تو دیکھا کہ وہ تاجر ایک بڑھیا کے پاؤں دبانے میں مصروف ہے ہم رک گئے کہ یہ لوگ سو جائیں تو پھر اپنا کام شروع کریں مگر وہ تھے کہ اطمینان سے باتیں بھی کر رہے تھے اور وہ تاجر پاؤں دبائے جا رہا تھا آخر اس بڑھیا نے کہا کہ بیٹا تُو اب سو جا میں اپنے رب کو راضی کر لوں، ہمیں وہی بیٹھے بیٹھے صبح ہو گئی مگر بڑھیا نے عبادت کا فریضہ ترک نہیں کیا اور ہم اس رات ناکام ہی واپس لوٹے، میں گھر تو بیچ چکا تھا اس لیے ایک دوست کے گھر رہن بسیرا کیے ہوئے تھا جب ہم دوست کے گھر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی دوسرے دوستوں کے ساتھ اگلی رات اسی گھر نقب زنی کا منصوبہ بنایا اور پھر وہ چل دیے میں اکیلا وہی چارپائی پہ چند لمحے اونگھنے واسطے لیٹ گیا، اچانک میرے اندر ایک کسک سی پیدا ہوئی اور میرا خیال بار بار بڑھیا کی عمر، اتنی عبادت اور اتنا مالدار تاجر اور پھر بھی ماں کی اس حد درجہ خدمت ان باتوں کی طرف گیا اور پھر اپنے ایک ایک کرتوت کا سوچنے لگا اور خود سے گھَن آنے لگی، اندر سے ایک آواز اٹھی کہ کیا مجھے نہیں مرنا؟ میں نے کبھی کوئی نیکی کی؟ اس طرح کے سوالات نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا۔
اس سے پہلے کہ دوست کھانا لے کے آتا میں وہاں سے رفوچکر ہو گیا اور قریبی مسجد میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا، انہیں اپنی رام کہانی سنائی اور توبہ کی کوئی راہ نکلنے کا پوچھا، اُنہوں نے سچی توبہ کا مشورہ دیا اور کہا کہ جناب توبہ تو آخری سانس تک کرنے کا موقع مالکِ لم یزل دیتا ہے غرض میں نے سچی توبہ کر لی پھر ایک بیوہ عورت سے نکاح کیا جس کا اپنا گھر تھا اور محنت مزدوری کرنے لگا وہی سے ایک دکان بنائی اور گزر اوقات چلانے لگا، بیٹا جب سے اللہ سے سچی لو لگائی دنیا کا خیال خودبخود ترک ہو گیا اور راحتِ قلب کی دولت سے سرفراز ہوا، اچھا بیٹا اب نماز کا وقت ہو گیا ہے چلو نماز پڑھیں ۔