مجھ سے کسی نے کومنٹ میں پوچھا کہ آپ کے ہاتھ میں جو ٹیٹو ہے اسکا کیا مطلب ہے اور گذارش بھی کی کہ اس بظاہر بیکار تجربہ پر روشنی ڈالی جائے، کبھی کسی نے پوچھا نہیں تو میرا دھیان نہیں گیا کہ اس ٹیٹو نے مجھے زندگی کے کچھ بہت انمول سبق سکھائے۔ یہ سبق ایسے انمول بھی نہیں جنہیں آپ نے کہیں سن نہ رکھا ہو اور ضروری نہیں کہ میرا ذاتی تجربہ سب کے لیے کارآمد ہو۔
ٹیٹو بنوانے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا “توجہ” حاصل کرنا۔ جب آپ جوان ہوتے ہیں اور آپ میں خود-اعتمادی کی کمی ہوتی ہے، آپ جذباتی طور پر نا پختہ ہوتے ہیں تو “منفرد” دکھنے کی چاہ اکثر جنم لیتی ہے (لیکن یہ ضروری نہیں، اکثر سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے لوگ بھی ٹیٹو بنواتے ہیں)۔ میں مغرب سے بہت متاثر تھی، اور یہی وجہ کہ وہاں کا لباس اور ٹیٹو وغیرہ بنوانے کا ٹرینڈ مجھے ہمیشہ بہت پرکشش لگتا تھا۔
ایک متوسط گھرانے سے تعلق ہو، مسلمان ہوں اور آپ نے مختلف ٹیٹو بنوائے ہوں (وہ بھی اس وقت جب یہ بہت نایاب ہوں) تو آپ ضرورت سے زیادہ “ توجہ “کھینچنے لگتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ توجہ مثبت نہیں بلکہ “منفی” تھی۔ چونکہ مغرب کا راگ الاپنے کے چکر میں کافی “انسانیت پرست” ہوجانے پر انسانی جسم کو محض انسانی جسم سمجھتی تھی لیکن یہ بھول گئی تھی کہ انسان دراصل ایک “معاشرے” میں رہتا ہے اور اس معاشرے کے کچھ اصول اور قاعدے ہوتے ہیں جو ان کے خلاف جائیں پھر انہیں “توجہ” ملتی ہے— منفی یا مثبت۔ لیکن مثبت اور منفی ہر معاشرے میں مختلف ہوتے ہیں۔ آپ معاشرے سے شکایت نہیں کرسکتے ، اگر آپ نے کچھ ایسا کرنے کی ٹھانی ہے جو عموماً لوگ نہیں کرتے تو پھر آپ کو معاشرے کا رونا دھونا نہیں کرنا ہوتا بلکہ مضبوطی سے اپنی بات پر قائم رہنا ہوتا ہے، کیونکہ خلاف جانے پر معاشرہ پھولوں کے ہار نہیں پہناتا اور یہ انمول سبق مجھے ٹیٹو والے حادثہ نے سکھایا کہ جب منفرد دکھنا ہے تو پھر معاشرے کو کوسنا نہیں بلکہ لوگوں کا ردِ عمل قبول کرکے ‘جانے دینا’ ہے۔
ٹیٹو نے مجھے ایک لاشعوری سماجی تجربہ (social experiment) کرنے کا موقع دیا۔ انسانوں کے لیے “ظاہری شخصیت” بہت معنی رکھتی ہے اور اسی ظاہری شخصیت کے اثر کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، آپ ظاہری شخصیت سے لوگوں کو چکما دے سکتے ہیں کیونکہ انسان ایک “بصری مخلوق” (visual creature) ہے۔ میری ظاہری شخصیت ہمارے معاشرے اور ثقافت کے لحاظ سے “اُس” (‘اس’ سے مراد ہمارے معاشرے میں کئی الفاظ ہیں جن میں کچھ برے کردار تو کچھ برے مزاج سے منسلک ہیں) قسم کی معلوم ہوتی تھی، لیکن میرے اندر ایک بہت ہی “شدت پسند اخلاقیات کا علم بردار انسان” (متوازن نہیں بلکہ شدت پسند) زندہ تھا۔ لوگ ہمیشہ کنفیوز رہتے تھے مجھے دیکھ کر اور پھر مجھے جان کر کہ آخر اس عورت کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے؟؟
عموماً لوگ آپ کے لباس اور انداز سے آپ کے اقدار (values) کا اندازہ لگاتے ہیں، اور اندازہ لگانے کا یہ طریقہ ہمیشہ صحیح ثابت نہیں ہوتا (کبھی کبھارصحیح بھی ہوتا ہے)۔
اکثر لوگ آپ کو دیکھ کر ماضی کے تجربات ، معاشرہ یا میڈیا وغیرہ سے مل رہے پیغامات کی بنیاد پر مبنی تصور بناتے ہیں کیونکہ یہ انسانی دماغ کی خاصیت ہے کہ وہ “رائے” (judgement) قائم کرتا ہے چاہے آپ کتنا ہی خود کو کیوں نہ سمجھا لیں۔ مجھے تین سال لگے اس مقام کو حاصل کرنے میں جہاں میں نئے لوگوں سے ملتے وقت اپنے پرانے تجربات اور جانبداریوں کو استعمال کرتی ہوں اپنی ذات کو مزید سمجھنے کے لیے کیونکہ سائیکالوجی کے مطابق آپ کی قائم کردہ رائے کا تعلق سامنے والے سے زیادہ آپ کی اپنی شخصیت یا سوچ سے ہوتا ہے۔ حتمی رائے اس لیے قائم نہیں کرتی کیونکہ اوّل تو ہم کسی کو مکمل طور پر جان نہیں سکتے اور نہ ہی اس کی سوچ اور دماغ کو پڑھ سکتے ہیں دوسرا یہ کہ لوگ ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں اس لیے رائے قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔کسی کے متعلق رائے قائم کرنا آپ کو آپ کے متعلق بہت کچھ بتاتا ہے۔
مجھ جیسے لاشعوری طور پر دوغلے، شخصی تضاد کا شکار اور کم-آگاہ لوگ یا پھر وہ لوگ جو جان بوجھ کر آپ کے اذہان میں اپنا ایک مخصوص امیج بنانے کے لیے اپنی ظاہری شخصیت اور بہترین الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں—— جی ہاں! میں “نارساسسٹ” (narcissists) کی بات کررہی ہوں، جو اس کام میں ماہر ہوتے ہیں۔ آپ اگر کسی عورت/مرد سے ملیں اور اگر آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق قائم ہونے والا ہے تو ان کے “ظاہری پیکر” اور “لفظوں کے جال” سے باہر نکل کر ان کے “عمل”(actions) پر توجہ دیں، لوگ بہت چھوٹے بظاہر معمولی دکھنے والی حرکات سے آپ کو اپنے متعلق کافی کچھ بتا دیتے ہیں، لیکن ہم جذبات، ظاہری پیکر اور لفظوں کے جال میں اس طرح پھنس چکے ہوتے ہیں کہ اس کے پار کچھ دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔
ماضی میں جن لوگوں نے میرے متعلق رائے قائم کی کہ شاید میں جدید (یہ وہ جدید ہے جو صرف لباس اور حرکات تک محدود رہتا ہے، جب کہ جدت کا ہمیشہ لباس سے تعلق نہیں ہوتا، لباس کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے) عورت ہوں، لیکن جب ان کو میرے عمل اور میری شدت پسند سوچ سے معلوم ہوا کہ یہ سب “cool girl” والا مکھوٹا (facade) ہے صرف توجہ کھینچنے کے لیے، میرے ایکشن کبھی “cool” نہیں تھے، میرے ایکشن ہمیشہ شدت پسندانہ، خود غرض اور قدامت پسندانہ تھے، تب انہیں یقیناً مجھ سے زیادہ اپنی بصیرت (judgement) پہ غصہ آیا ہوگا…..
اس لیے اپنا وقت اور جذبات کو ضائع کرنے سے بچنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے روز مرہ کے عمل اور بہت ہی معمولی رویوں پر غور کریں جنہیں آپ نظر انداز کردیتے ہیں۔ جھوٹی شخصیت بنا کر چکما دینا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیے گا کہ یہ سب زیادہ عرصہ نہیں چلتا، جھوٹی شبیہ کو ٹوٹ کر بکھرنا ہی ہوتا ہے۔ اصلیت زیادہ دیر نہیں چھپتی۔
ٹیٹو بنوانا “ڈوپامین” (dopamine— جو کہ دماغ میں پلیژر کا اخراج کرنے والا ہارمون ہے) کی مقدار کو بڑھانے کے لیے تھا، اس سے توجہ ملتی تھی اور توجہ سے ڈوپامین یعنی……….بہت سارا پلیژر۔
دوستوں! سارا کھیل “ڈوپامین” کا ہے….
لیکن ڈوپامین کی مقدار جب زیادہ ہو جائے تو اس کے بعد دماغ کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟؟؟……. یہ میں پھر کسی پوسٹ میں بتاؤں گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...