رٹّو کے زیرہ، زعفران اور جن و پری
ناشتے میں جانور کبھی نہیں کھایا، جاندار سبزی ہی لی یا کبھی کبھار دلیہ، کارن فلیکس اور یا تخم مرغ۔ آج جب پاکستان کے تین سو روپے کلو کے حساب سے خریدے کدو کے سالن پر زیرہ چھڑکنے لگا تو رٹّو یاد آ گیا جسے ان دنوں رٹّو کینٹ کہا جاتا تھا، آج بھی کہتے ہونگے کیونکہ یہ ایک زمانے میں مہاراجہ کشمیر کی فوج کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی۔ یہاں کا زیرہ اور زعفران اپنی عمدگی اور خوشبو کے باعث بہت معروف ہیں۔ میں نے یہ دونوں نہیں سونگھے کیونکہ میں ایسے وقت میں وہاں گیا تھا جب برف ہی برف تھی۔ بغیر اسفالٹ کے پتھروں والی تنگ سڑک پر فوجی جیپ کے ٹائروں پر زنجیریں چڑھا کر ماہر ترین ڈرائیور لانس نائیک غفار نے بارہ کلو میٹر کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔
رٹّو، شہر استور سے پندرہ کلومیٹر درہ برزل کی جانب واقع گاؤں گوری کوٹ کے ایک جانب چڑھائی چڑھنے کے بعد مڑ کر آتا ہے۔ دراصل وہاں تعینات تین افسر بور ہو رہے تھے، انہوں نے تنوع کی خاطر میری رفاقت لینے کی غرض سے چھوٹا پیغام بھیجا تھا کہ افسر بیمار ہیں، ڈاکٹر بھیجا جائے۔ بیمار تو کوئی تھا نہیں اس لیے ساری رات، بنکرز کی ٹپکتی چھتوں کے نیچے ادھر ادھر ہوتے ہیں، ہم گپیں لگاتے رہے تھے۔
صبح کو وہاں پر قائم ایم آئی روم (میڈیکل انسپکشن روم) کا لانس نائیک میل نرس مجھے ملنے آیا تھا۔ میں اس کے ساتھ معائنہ کرنے کی غرض سے چلا گیا تھا۔ راستے میں لانس نائیک نے بتایا تھا کہ ایک مریض نے بہت اجیرن کیا ہوا ہے جو کہتا ہے کہ اس پر پری آتی ہے۔
جس پر پری آتی تھی وہ وہیں ایم آئی روم میں موجود تھا۔ دھان پان سا نیلی آنکھوں والا خوبرو شگری لڑکا۔ میں نے پہلے باقی فوجی مریض دیکھے اور پھر اس سے مخاطب ہوا۔ "ہاں جوان، تم کہتے ہو تم پر پری آتی ہے؟" میں نے پوچھا۔
"جی سر" اس نے یقین سے جواب دیا۔
" اچھا یہ بتاؤ اس کی شکل کیسی ہے؟" میرا اگلا سوال تھا۔
" سر وہ بہت خوبصورت ہے" بتاتے ہوئے اس کے چہرا گلنار ہو گیا تھا۔ "جوان تمہیں کسی سے پیار ہوا؟" میرے اس سوال کا جواب اس نے اثبات میں دیا تھا۔
" اچھا اب وہ لڑکی جس سے تمہیں پیار ہوا کہاں ہے؟"
اس سوال کا جواب اس نے نظریں جھکا کر دیا،" سر اس کی شادی ہو گئی ہے" پھر اضافہ کیا،" سر پری کا شکل اس سے بہت ملتا ہے"۔
اس پر میں نے اسے فوج کی زبان میں کہا،" تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم کسی کی بیوی کو خیال میں لاتے ہو"۔
وہ چپکا نہ رہا،" نہیں سر مجھے تو پری دکھائی دیتی ہے وہ نہیں۔ پری مجھے اپنے گھر بھی لے گیا تھا"۔
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا، "اچھا کہاں لے گئی تھی"۔
"سر پتہ نہیں مگر وہاں عمارتیں بہت بڑا بڑا تھا۔ سر میں نے اسلام آباد دیکھا ہے، وہاں کی عمارتوں سے بھی بڑا عمارتیں"۔
"اچھا اور کیا دیکھا؟" میں نے استفسار کیا۔
" سر اس کا گھر میں اس کا چھوٹا چھوٹا بھین بھائی بھی تھا"۔
میں نے پوچھا،" وہ کیسے دکھتے تھے"۔
وہ جواب دینے سے پہلے تھوڑا سا اداس ہو گیا تھا،" سر اچھے تھے مگر ان کے سر یوں تھے" اس نے اپنے سر کو ہاتھوں سے لمبوترا کرتے ہوئے بتایا۔
بچپن میں پڑھی سنی کہانیوں کے زیر اثر میں جن سے زیادہ جنوں کے بچوں اور جن عورتوں سے ڈرتا ہوں، اس لیے لمحے بھر کو میں بھی ڈر گیا تھا۔ خیر میں نے اسے کہا کہ وہ گوری کوٹ پہنچ کر میرے پاس رپورٹ کرے۔ پری سے اس کی جان چھڑا دیں گے۔
میرے وہاں سے واپس جانے کے چند روز بعد اس نے گوری کوٹ میں میرے دفتر آ کر رپورٹ کی تھی۔ جو حوالدار اسے لے کر پہنچا تھا، میں نے اسے اس مریض سپاہی کو ایڈمیشن بیرک میں داخل کرنے کا حکم لکھ کر دیا۔ ان کے میرے دفتر سے نکلنے کے ایک منٹ بعد ہی باہر شور مچ گیا۔ میں دیکھنے کو دفتر سے باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ بڑے بڑے قوی حوالدار اور سپاہی اس نازک لڑکے کو پکڑتے ہیں مگر وہ بازو کے ایک ہی جھٹکے سے کبھی ایک طرف والے کو کبھی دوسری طرف والے کو ہوا میں اچھال دیتا ہے اور وہ چند میٹر دور جا کر گرتا ہے۔
اس کی آنکھیں ہمارے کرنل کے دفتر کے دروازے پر گڑی تھیں۔ ایک لمحے کو تو شرارت سوجھی تھی کہ لوگوں سے کہوں اسے چھوڑ دو کیونکہ ہمارے کرنل بہت ڈرپوک تھے۔ بہرحال میں نے ایک طاقتور نائیک سے کہا کہ اس مریض جوان کے پیچھے سے جا کر اس کے پاؤں زمین سے اٹھا دے، جونہی وہ گرے دو افراد اس کے بازو پیچھے کر دیں اور ایک میل نرس کو حکم دیا کہ مسکن دوا کا انجکشن بھر کے لائے اور فورا" اس کے سرین میں لگا دے۔ یوں اس کو ہم نے اسے قابو کرکے سلا دیا تھا۔
اسی رات جب میں آفیسر میس میں جو سابق مہاراجہ کا ریسٹ ہاؤس تھا، کرنل صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھا سکریبل کھیل رہا تھا تو کرنل صاحب کے بیٹ مین نے آ کر بتایا تھا کہ سر یہاں سے دو کلومیٹر دور کوئی آدمی ہسپتال کا (سرخ) کمبل اوڑھے سڑک پر سو رہا ہے، اس بارے میں ایک مقامی راہگیر نے اطلاع دی ہے۔
فوری طور پر یونٹ سے دو جوانوں کے ساتھ کرنل صاحب کی جیپ منگوائی گئی۔ میں ساتھ گیا اور جا کر سوئے ہوئے شخص کو جگایا تو وہ وہی پری والا جوان تھا۔ میں نے دونوں سپایوں سے کہا کہ پچھلی نشست پر اسے اپنے درمیان بٹھائیں اور ادھر والا ادھر کا اور ادھر والا ادھر کا اس کا بازو اس کی پشت کے پیچھے سے پکڑے رکھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کھائیوں والی پہاڑی سڑک تھی۔اگر وہ ڈرائیور کی گردن دبوچ لیتا تو جیپ کھائی میں گر سکتی تھی۔
جب ہم اسے لے کر یونٹ کے نزدیک پہنچے تھے تو پوری یونٹ ٹارچیں لالٹینیں لے کر اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ یونٹ پر پہنچ کر سب کو واپس بلانے کے لیے سیٹیاں بجوائی گئی تھیں۔ راستے میں اس جوان نے بتایا تھا کہ پری آئی تھی اس لیے وہ اس کے پیچھے چلتا ہوا چلا گیا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ پانچ کلومیٹر میں وہ کہیں نہیں اڑی اور تم کھائی میں نہیں گرے تو معصومیت سے بولا تھا،"سر آخر میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں" مجھے ہنسی آ گئی تھی۔
اگلے روز میں نے اسے گلگت کے فوجی ہسپتال ریفر کر دیا گیا تھا۔ مگر شام کو شہر استور سے ایم آئی روم انچارج کا فون آیا تھا کہ سر ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔ روڈ بلاک کی وجہ سے مریض اور جیپ کے ڈرائیور کو استور میں رکنا پڑا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے پری آ رہی ہے۔ جسیم کشمیری ڈرائیور حنیف نے کہا کہ تیری پری کی تو ایسی تیسی۔ اب کبھی وہ نیچے ہے ، کبھی وہ اوپر۔ کیا کریں سر۔ میں نے اسے انجکشن بتایا جس کے لگانے سے پری کی جگہ وہ پری والا سو گیا تھا۔
اس جوان کا ذہنی علاج سنا ہے ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں بھی نہیں ہو سکا تھا کیونکہ وہ بھاگ گیا تھا۔ یقینا" اسے برخواست کر دیا گیا ہوگا مگر مجھے یہ پرانی کہانی اس لیے یاد آئی کہ زینب زیادتی و قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران علی نے کہا کہ اس پر جن آتے تھے جو اسے بچیوں سے زیادتی کرنے کے بعد انہیں قتل کرنے پر اکساتے رہے۔ اب جیل میں اس کے جن اسے کیا کرنے کو اکسا رہے ہیں کچھ پتہ نہیں اور جن اسے سلاخوں سے باہر کیوں نہیں نکال سکتے، اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
پھر ایک اور شخص ہیں مبینہ انکاونٹر سپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار احمد جو خود جن بن کر غائب ہیں۔ اتنی تگ و دو تو انگریزوں کو بھی سلطانہ ڈاکو کو بھی گرفتار کرنے کے لیے نہیں کرنی پڑی تھی۔ سنا ہے کہ سلطانہ ڈاکو تو غریبوں میں سخی مشہور تھا جو امیروں کو لوٹ کر ان کی مدد کیا کرتا تھا، بدلے میں وہ اسے چھپنے میں مدد دیتے تھے۔ تو یہ جن پولیس والے، غریبوں کے لیے تو سخی مشہور نہیں ہیں، پھر ان کی کسی نوع کی سخاوت کا اجر کون دے رہا ہے۔ خدا نخواستہ میں نہ تو زرداری صاحب کو الزام دے رہا ہوں نہ ملک ریاض کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ہمت ہے کیونکہ میری اوقات دو کوڑی کی بھی نہیں۔ کم از کم خود کو دو کوڑی کا رپورٹر کہنے والے نصرت جاوید صاحب تو یہ کہہ ہی چکے ہیں کہ اگر زرداری اتنا بھاری ہوتا تو ڈاکٹر عاصم کو ایذا سے بچاتا۔ ویسے ڈاکٹر صاحب کو اجر مل چکا ہے البتہ لوگ معترض ہیں۔
جنوں پریوں کے قصے یونہی نہیں ہوا کرتے۔ ان کی وجہ یا تو ذہنی امراض بنتی ہیں یا پھر کسی بھی نوع کی کسی کے لیے سخاوت۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“