سندھ میں کئی ایسے مقامات ہیں جو اپنے اندر صدیوں کے حقائق کو سموئے ہوئے ہیں، اگر ہم ذرا سی چھان پھٹک کریں تو ان مقامات کے مخفی در ہم پر وا ہو سکتے ہیں، ایسے ہی انگنت تاریخی مقامات میں سے ایک "لکی شاہ صدر" بھی ہے۔ کچھ لوگ اس نام سے یقیناً چونک گئے ہوں گے کہ اس سے ملتا جلتا نام کراچی کے علاقے صدر میں بھی واقع ہے۔ لیکن ہم جس لکی شاہ صدر کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ کراچی کے شور و غل سے میلوں دور کی مسافت پر ایک ایسا پُر فضا مقام ہے جہاں پر کیرتھر پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو پاکستان کے شمال میں سندھ کے ضلع جیکب آباد سے شروع ہوتا ہے اور جنوب میں کراچی تک جاتا ہے۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں واقع چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ بھی کیرتھر رینج کا حصہ ہے یعنی کٹی پہاڑی بھی کیرتھر رینج کا سینہ چیر کر بنائی گئی ہے، لیکن لکی شاہ صدر کا مقام واقعی بڑا ہی خوش قسمت (لکی) ہے کہ وہاں کٹی پہاڑی جیسے کوئی خوں آشام آثار نہیں ہیں بلکہ یہاں تو پہاڑوں کے اندر بہتے ہوئے پانی کے چشمے ہیں اور پانی کی آواز ایک نغمے کی صورت میں جب کانوں میں پڑتی ہے تو انسان اپنے آپ کو کہیں اور ہی پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے، غرض یہ ایک ایسا دلفریب نظارہ ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔
اس ہفتے ایک بزنس ٹِرپ کے سلسلے میں سکھر جاتے ہوئے ہم اس تاریخی مقام پر کچھ دیر کے لیے رکے اور صدیوں پرانی تاریخ کو قریب سے دیکھا، اس کے ساتھ ہی ہم نے گہرائی سے مشاہدہ کیا اُن گزرے ہوئے زمانوں کا جو اس سرزمین پر آکر گزر گئے، ان گزرے ہوئے زمانوں کی باقیات آج بھی یہاں باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، اگر چہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے لیکن ابھی بھی یہاں پر موجود مذہبی ہم آہنگی، پہاڑوں اور چشموں کی نسبت سے مختلف عقائد پر مبنی ریت رواج اور مقامی لوگوں کے اپنے اپنے عقائد کے مطابق ان کی تشریح و توصیف نے ہمیں بیحد متاثر کیا۔
"لکی شاہ صدر" موجودہ ہندو، مسلم کی تفریق سے ماوراء ایک ایسا مقام ہے جہاں سندھ کا صدیوں پرانا رواداری کا روایتی فلسفہ پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے کہ یہاں پر موجود مزار جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے لیے بھی قابل احترام جگہ ہے اور اسی طرح پہاڑوں میں ہندؤوں کے ہزاروں سالوں پر محیط دیوی دیوتاوں کے مٹتے ہوئے نقوش و مقامات اور ان سے وابستہ کتھا کہانیاں مسلمانوں کو بھی اتنی ہی عزیز ہیں جتنی کہ کسی ہندو کو عزیز ہیں۔
"لکی شاہ صدر" صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں ایک قدیم شہر ہے۔ یہ شہر سیہون کے جنوب میں 19 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے کے قریب دریا کے کنارے پر موجود ہے۔
محمد یوسف جویو کے مطابق؛
"ہندوستان کی تقسیم سے پہلے سیہون کے بعد یہ دوسرا مشہور شہر تھا اور دریائے سندھ یہاں سے مشرق میں نزدیک ہی بہتا تھا جہاں مشہور 'لکی گھاٹ' تھا۔ اس گھاٹ کی وجہ سے یہاں کے بازاروں میں اچھا بیوپار ہوتا تھا۔ الیگزینڈر برنس بھی اس گھاٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ شہر چونکہ ہندوؤں کے مذہبی استھان 'لکی تیرتھ' کے لیے آنے جانے والوں کے لیے ایک جنکشن کا کام دیتا تھا اس لیے یہاں مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے ہر وقت میلہ سا لگا رہتا"
سندھ گزیٹیئر 1874ء کے مطابق
"یہاں سیہون کے شمال میں گندرف کے چشمے ہیں۔
چھ سو فٹ اونچی کیلشیم کاربونیٹ کی پہاڑی سے پھوٹا یہ چشمہ ایک دھارے کی شکل میں بہتا نیچے آتا ہے۔ یہاں جلد اور جوڑوں کے درد کی بیماری میں مبتلا لوگ آتے ہیں۔ سرکار کی طرف سے وہاں نہانے کے لیے کچھ پتھر گاڑے گئے ہیں کہ لوگ اس پر بیٹھ کر نہائیں اور چار دیواری بھی تعمیر کروائی گئی ہے"
یہاں پر بہت سے چشمے اب خشک ہو چکے ہیں لیکن ان کے آثار آج بھی ان پہاڑوں پر نقش ہیں جو دیکھنے والے کو پہلی نظر میں ہی مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں۔۔۔
صاف شفاف بہتے ہوئے تیز پانی کے یہ آثار جو کبھی آبشاروں اور جھرنوں کی صورت میں رواں دواں رہتے تھے اب وقت کی دھول میں مدفن ہو چکے ہیں۔۔۔ انہیں دیکھ کر بے ساختہ اقبال کا یہ شعر یاد آنے لگتا ہے؛
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا،
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا!!
تو گویا ہم بدقسمت انسانوں کے مقدر کی طرح ان پربتوں، ان چشموں کو بھی فنا کے ذائقوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
“