صبح صبح کا وقت تھا ہاسٹل میں لڑائی کا شور سنائی دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ایک لڑکی کو سب ڈانٹ رہے ہیں۔ اور وہ مسلسل لڑ رہی ہے۔پوچھنے "سجیلہ" نے بتایا کہ صبح سے کال پر گالیاں دے رہی ہے۔ہماری نیند خراب کردی ہے۔ خیرسب نےمل کر لڑائی ختم کرائی۔ ایک خوبصورت اور ماڈل نما لڑکی محسوس ہوتی تھی۔ وہ کسی امیر گھرانی کی بیٹی محسوس ہوتی تھی مگر تنہا پسند تھی۔
سبھی اسے مغرور اور نخرےباز سمجھتی تھیں۔ مگر اسے اندر سے جاننے کبھی کسی نے زحمت نہ کی۔ ایک میری اس سے دعا و سلام ہوئی، کم وقت ہم اچھی دوست بنیں۔
ایک دن وہ اداس اور کسی گہری سوچ میں گم سم تھی۔ میں نے اپنائیت کےطور پر وجہ پوچھی تو اس نے پہلے خاموشی پر اتفاق کیا۔ پھر اس نے گہری سانس لیتے ہوئے بتایا کہ جائیداد پر جھگڑے چل رہے تھے میری چچی نے میرے والدین کو قتل کردیا اس طرح میں یتیم ہوئی۔ یہی ڈر دل میں لیے گھر سے باہر بھاگ نکلی۔ ایک عورت ہاتھ آئی اس نے پہلے دلاسہ دیا، ساری داستان سنی، لالچ میں اس نے میری شادی اپنے بیٹے سے کرادی۔ پھر میری جائیداد کا کورٹ میں کیس دائر کیا۔ جائیداد ملنے پر مجھے گھر سے نکال دیا۔ ان دنوں میری گود میں ایک "ننھی پری" تھی ۔ میں ایک بار پھر زمانہ سے ڈس لی گئی۔ پھر کہیں ٹھوکریں کھائیں، ملازمت اختیار کی۔ اپنی "ننھی پری" کو مجبوراً شیلٹرہوم (Shelter Home) چھوڑ آئی۔ خود تو ٹھوکریں کھا ہی رہی تھی ساتھ اس ننھی جان کو کہا لےکر پھرتی۔ اپنی اس بیٹی کی خاطر ڈھیٹ بنایا۔ زمانے لڑنے اور مقابلہ کرنے کیلئے بہادر بنایا۔ اس نے میرے علاوہ کبھی کسی کو نہ بتایا کہ وہ ایک بیٹی کی ماں ہے۔ دوسری لڑکیاں مجھ سے اکثر کہتیں کہ کسی لڑکی سے دوستی کر رکھی ہے۔ حقیقت تو میں جانتی تھی کہ وہ بری نہیں ہے۔ کیونکہ میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھ چکی تھی۔ میری نظر میں وہ سچ میں معصوم اور بہادر بیٹی تھی۔ اس کی جگہ کوئی بزدل لڑکی ہوتی تو شاید خود کو موت کےحوالے کرکے ہمیشہ کےلیے نیند کی چادر اوڑھ لیتی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...