تصویر کا ایک ہی رخ ہوتا ہے
—————————–
اگر میں ایسا کہہ رہا ہوں تو خدانخواستہ کسی نشے کے زیر اثر نہیں ہوں۔۔ ایسا میں اپنے گردوپیش حالات کے حوالے سے سمجھنے بھی لگا ہوں۔۔ایک لطیفہ ان حالات کی عکاسی کرسکتا ہے۔۔آپ نے سنا ہوگا۔مروت میں مجھ سے پھر سن لیں
کسی بد قسمت کی ایک آنکھ حادثاتی طور پر ضایع ہوگیؑ۔ کچھ عرصہ امراض چشم کے ہسپتال میں گذار کے باہر نکلا تو گھر جاتے ہوےؑ بھی حیران تھا لیکن بولا نہیں۔شام کو بیوی کےساتھ اسی بازار سے گذر ہوا توچپ نہ رہ سکا۔بیوی سے کہنے لگا " نیک بخت۔۔ یہ صبح ایک طرف کا اور شام کو دوسری طرف کا بازار کھولنے کا چلن کب سے ہوا؟ میں ہسپتال گیا تب تو ایسا نہیں تھا"
وہ چیز جسے عوامی زبان میں ٹی وی اور ایک خاص حوالے سے " ایڈیٹس باکس" کہا جاتا ہے میرے گھر میں بھی بی وی سے زیادہ نظر آتا ہے۔وہ ایک وقت میں غریب خانے کے ایک ہی گوشے کو اپنی موجودگی سے سرشار کر سکتی ہے۔ٹی وی کی جلوہ نمایؑ سے صرف ایک ہی جگہ محفوظ ہے جس کا مہزب نام فی زمانہ واش روم ہے۔اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ میری آنکھوں نے اس کی متحرک رنگین تصاویر کو دیکھا ضرور ہے سمجھا کبھی نہیں اور نہ اس کی کوشش ہی کی۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔۔ بلا وجہ نام اپنا احمقوں میں کون لکھواتا ہے۔۔ پھر بھی فراغت اور بیڈ روم کی خلوت میں بیوی اخلاقا"۔۔۔ جہ ہاں صرف اخلاقا"۔۔۔ پوچھتی ہے کہ کون سا پروگرام دیکھیں گے؟ تو اچھی طرح جانتے ہوےؑ کہ لگے گا تو وہی ساس بہوچینل۔۔ میں اخلاقا بات مزاق میں ٹال دیتا ہوں کہ بھیؑ جس میں کچھ اچھی صورتیں نظر آییؑں۔۔ اور وہ مجھے"ٹھرکی" کے خطاب سے نواز کے وہی چینل لگاتی ہے جو ناگزیر ہے
میں کچھ بہک گیا۔۔اب اسے عادت بد کہےؑ کہ کبھی میں وہ چینل لگا لیتا ہوں جو اپنے دعوے کے مطابق کاینات کے پل پل کی خبر سب سے پہلے دیتا ہے۔ کل بھی یہی ہوا ۔ باہر موسم ابر آلود تھا اور مجے علم تھا کہ بارش کا یہ سلسلہ ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔۔نہ جاےؑ رفتن نہ پاےؑ ماندن والی بات تھی کہ ایک گھنٹا گزر گیا اور مجھے احساس نہیں ہوا۔ خبرنامہ دہرایا جانے لگا تو میں نے ٹی وی بند کیا اورسوچنے لگا کہ خبر نامے میں خبر کیا تھی؟ پہللے مجھے یکے بعد دیگرے متعدد شہروں میں بارش اور سردی کے مناظر دکھا کۓ ثابت کیا گیا کہ لوگ "انجواۓ" کر رہے ہیں۔ جتنا میں جانتا ہوں اتنا سب جانتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں بارش اور برفباری کے موسم میں کیا قیامت آتی ہے جب انسان کیا قافلے برف میں دفن ہوجاتے ہیں بیمار کوصرف موت ملتی ہے اور مرنے والے کو برف کی قبر لکڑی جلانے کا تیل گیس عنقا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ آٹا نہیں پہنچتا اور اس قلت کو زرپرست کیسے دگنی چوگنی قیمت وصول کر کےخوش نصیبی میں ڈھالتےہیں۔لیکن "خبر" یہ ہے کہ وہ خوشی سے رقصاں ہیں
اس کے بعد ملک بھر میں ہونے حادثات کے خونی مناظر۔خستہ و شکستہ لاشیں۔۔اعزا کی سینہ کوبی ۔۔ پھرعزت کے نام پر ہونے والے قتل اور ان کا احوال واقعی۔۔ پھر جرایم کی تفصیل مجرموں کی تصاویر۔"قانون نافذ کرنے والے اداروں" کے فخر سے چوڑے سینے اور دمکتے چہرے۔۔ اشتہار جیسے کسی ایک سیاسی کلایؑنٹ جماعت کے بیان مخالف پارٹی اور چینل کی شان میں "سنگ الزام بھی تیر دشنام بھی۔۔کرپشن ۔کرکٹ اور کراچی کا رونا"ّ۔ اینڈ اف کورس درمیان میں زہر سے تریاق تک کے جلوہ ریز اورزرخیز اشتہاراتٗ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ خبرنامہ ختم ہوا
ایک بار پھر میں نے سوچا کہ یا مظہرا لعجایؑب۔۔۔ اس میں کون سی خبر ایسی تھی جس کی صحیح جگہ زرد صحافت کا نمونہ شام کا کویؑ چیتھڑا اخبار نہ تھا؟ کیا کویؑ بات کسی خلایؑ رابطے سے ساری دنیا کو دکھایؑ اور بتایؑ جانے والی تھی؟ کرہؑ ارض پر جو ڈھای تین سو ممالک ہیں۔جہاں کہیں رات ہے کہیں دن۔۔وہاں کچھ بھی نہیں ہوا؟۔۔ یہ جو سپرپاورز امریکہ روس چین سے اپنی او آیؑ سی تک ۔ کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔ نہ دوستی نہ دشمنی۔۔ زمن آسمان سے سمندرون اور وسعت افلاک کہیں کویؑ بھی واقعہ اس قابل پیش نہیں ایا کہ ایک گھنٹے کے خبرنامے میں ذکر کے لایق ٹھہرتا؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سوا خبر کہیں نہیں ہوتی؟
ظاہر ہے ایسا نہیں لیکن ہمیں ساری دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھنا سکھا دیا گیا ہے جس کیلۓ دوسری طرف کچھ بھی نہیں۔۔ خبروں کا ایک بازار کھلا ہوا ہے۔۔بہت کم عرصے میں اس ملک کی غالب اکثریت کو جو خیر سے ان پڑھ بھی نہیں۔۔ فیشن کے نےؑ برانڈز اور پیزا کے نےؑ "آوٹ لیٹ" ٹیلر سویؑفٹ کے نےؑ البم یا نیؑ پورن فلمزاور سیلفی کے "لیٹسٹ اپلیکیشن" والے فون۔۔سب کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھتے ہے۔۔۔ان کو'خبر' سے بے خبر کردیا گیا ہے۔ان کو'زندگی نہ ملے گی دوبارہ' کا فلسفہ دے کر صرف اپنے لۓ اور آج کے دن کے لۓ جینے کی راہ پر گامزن کردیا گیا ہے چنانچہ حصول مقصد کے لے پیسہ ہی اہم ہے۔۔باقی سب تاریخ۔علم و آگیی۔ اخلاقیات۔۔ خاندانی اقدار۔ادب اورفنون لطیفہ۔۔ سب فضول بے معنی لاحاصل۔۔ ان کی درسی کتب سے بھی سب خارج کردیا گیا ہے۔وہ نہیں جانتے پاکستان کیوں بنا یا کیوں ٹوٹا تھا۔۔ اور جاننا بھی نہیں چاہتے ۔۔۔۔ یہ جاننا البتہ ضروری ہے کہ دقیانوسی بڈھوں نے جو سایؑٹس بلاک کر رکھی ہیں ان کو کیسے ان بلاک کیا جاؑےؑ۔۔مذہبی روایات سے بغاوت کیسے کی جاؑےؑ۔۔ انسان اگر حیوان ہے۔۔(ناطق سہی)۔۔ مگر فیملی کے کیا معنی؟ مرد عورت کے درمیان تو حیوانی رشتہ فطری اور منطقی ہے
ایک طے شدہ مقصد اور پالیسی کے تحت آپ تک صرف ضروریRelevant انفارمیشن جاےؑ گی اور یہ کام کتابیں کریں گی یا میڈیا۔۔ اس طرح روبوٹ پیدا ہوں گے جو اپنی سوچ نہیں رکھتے۔۔Artificial Intelligence کے مالک ہوتے ہیں ۔۔ اب جو تعلیمی پالیسی ننافذ ہورہی ہے یہی مقصد رکھتی ہے۔۔اپ کسی بھی کلاس کی درسی کتب کو اٹھا کے دیکھ لیں ۔ ان مضامیں کو دیکھ لیں جو پڑھے اور پڑھاےؑ جارہے ہیں۔ تہزیبی اور تاریخی یا ادبی علوم ختم ہوےؑ نہیں تو تیزی سے روبہ زوال ہیں۔۔اور یہ مہزب دہشت گردی کی وہ قسم ہے جو ترقی یافتہ ممالک نے شروع کی ہے۔۔جس کا حوالہ کل بھی تھا۔ایسی ہی پالیسی لارڈمیکالے نے بنایؑ تھی۔اب صنعتی اورمعاشی سپر پاورز کو مشینوں کے ساتھ جن روبوٹس کی ضرورت ہے وہ ہم پسماندہ کہلانے والے ممالک فراہم کریں گے۔۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور داستان ماضی ہوا۔۔ اب ہم کیپٹل اکانومی کے غلام ہونگے۔۔ہماری ٹرانسپورٹ ۔۔تعمیراتی کام۔۔صفایؑ ستھرایؑ۔۔ذرایع روزگار سب یہی سپر پاورز کنٹرول کریں گی جو غلام ملک سے صرف کارکن چاہتے ہیں۔۔تعلیم یافتہ۔دانشور۔۔فنکار۔مفکر اور سوچنے والے نہیں۔ ہمیں باخبری اور علم کی کیا ضرورت ہے۔