تصویریں نہیں ہیں نا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشاب ایک بہت صورت شہر تھا۔ میں جس محلے میں پیدا ہوا اُسے ’’کدھی والا محلہ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ دریائے جہلم کی ایک چھوٹی سی شاخ جو خوشاب کے قریب گزرتے وقت دریا سے کسی درخت کی شاخ کی طرح پھُوٹتی تھی اور عین ہمارے محلے کو چھوتی ہوئی واپسی کے راستے پر شہر سے باہر نکلتے ہی اپنےبڑے دھارے کے ساتھ جُڑجاتی تھی۔ اس ندی کو ہم کدھی کہہ کر پکارتے تھے۔ صبح گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلی نظر ندی پر پڑتی تھی۔ لیاقت ڈاکیا اُس وقت جوان تھا اور جہانگیر بڈھی بھی، یہ لوگ صبح صبح ندی میں نہا رہے ہوتے تھے۔ دھوبیوں کا ایک خاندان ہرروز میاں بیوی بچوں سمیت، اپنی بھینس پر کپڑوں کی گھٹڑیاں لادے، ندی کے کنارے آتے اور اپنے مخصوص پتھر پر کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر دھوتے اور واقعی ان کے سینے سے چھُوا چھُو کی ہی آواز نکلتی تھی۔اسی طرح ندی کی ریت کو نتارنے کے پیشے سے منسلک ’’نہارے‘‘ ندی کے کنارے تگاریاں لیے ندی کی تہہ میں پڑی ریت کو نہار یعنی نتار رہے ہوتے تھے۔ وہ اس طرح ریت سے سونا یا چاندی نکالاکرتے تھے۔ خوشاب میں نہاروں کی کتنی ہی دکانیں تھیں جوہماری ندی سے سونا، چاندی نکالتے اور بازار میں بیچتے تھے۔ آج بھی ’’نہارا‘‘ قوم خوشاب میں ہی بستی ہے۔
گھر کے پاس سے گزرنے والی ندی اتنی حسین تھی کہ بچپن سے ہی مَیں اس منظر کے سحر میں دیوانہ وار مبتلا تھا۔ ندی کافی چوڑی تھی۔ یہ کوئی چھوٹا سا باریک سا نالہ نہیں تھا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ کم سے کم بارہ سے بیس فُٹ چوڑی رہی ہوگی۔ کسی کسی جگہ سے جہاں وہ بہت پتلی ہوجاتی، شاید چھ سات فٹ بھی رہ جاتی ہو لیکن مجموعی طورپر یہ دریا سے پھُوٹا دھارا تھا سو اتنا باریک کیسے ہوسکتا تھا۔ اُنہی جگہوں سے جہاں سے تنگ ہوجاتی تھی، لمبی کھجور کے تنے بطور پل رکھ دیے جاتے جو کدھی کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ اہلِ خوشاب کو کچے اور دریا کے ساتھ جوڑتے تھے۔ گُل خیرے کے پھول ندی کے دونوں کناروں کے ساتھ بکثرت کھلتے۔ میں چند سال پہلے تک یہ سمجھتا رہا کہ جن پھولوں کو ہم کنول کا پھول کہتے ہیں وہ وہی گل خیرے کے پھول ہوا کرتے تھے کہ کیونکہ صبح صبح وہ منظر دیدنی ہوتا جب رات بھر تیز ہوائی چلتیں اور پھول ٹوٹ ٹوٹ کر ندی کے کناروں میں بنے پانی کے چھوٹے چھوٹے، ننھے ننھے تالابوں میں تیرنے لگتے۔ ان ننھے تالابوں کا تعلق ایک باریک سی بالشت بھر کینال کے ذریعے ندی کے ساتھ ہوتا اور پھول گھنٹہ بھر یوگا کرنے کے بعد بالآخر بہتی ندی میں چلے جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ گل خیرے کے پھولوں کا ندی میں جانا اور ندی کے ساحلی پانیوں کو ڈھک دینا۔۔۔۔۔۔ یا خدا! کنول اور کیا ہوتا گا؟
ندی عبور کرکے کھیتوں اور درختوں کے سلسلے تھے جو دریا کے بڑے دھارے تک چلے گئے تھے۔ دریا کا بڑا دھارا تیسرا دریا کہلاتا تھا۔ درمیان میں ایک دوسرا دریا بھی تھا۔ جو ہمارے گھر کے پاس والی ندی سے بھی زیادہ چوڑا اور شفاف تھا۔ ہم وہاں تک جانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے۔ ہزار کہانیاں تھیں جو دوسرے دریا اور کچے کے ساتھ منسوب تھیں۔ بارش ہوتی، آندھیاں چلتیں، بجلیاں کڑکڑاتیں اور گرتیں، تو دریا ہماری چھتوں سے اُچھلتا ہوا دکھائی دیتا۔ دوسرا دریا، گہرا، شفاف اور ریتلے ساحلوں سے مالامال تھا۔ بغلوں کی ڈاریں، مرغابیاں اور کونجیں اُن ریتوں پر اُترتیں اوراُن کی ’پائیلیں جھُن مُن جھُن مُن‘ کرتیں تو صاف ریت پرگویا بہت ساری نثری نظمیں لکھ دیتیں۔ دوسرے دریا تک گھنے کھیت اور دوسرے سے تیسرے دریا تک کیکروں کا خودرو اور بے حد گھنا جنگل تھا۔ بچپن میں ایک بار میں اس جنگل میں پھنس گیا اور اتنا ڈرا کہ میں نے سرپٹ دوڑنا شروع کردیا کہ جلد سے جلد یہ چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے اونچے اور گھنے درختوں کا سلسلہ ختم ہو لیکن میں کافی دیر تک دوڑتا رہا اور کسی سمت سے نکلنے کی کوئی سبیل نہ پائی۔ یہاں تک کہ سمتوں کا تعین ذہن سے نکل گیا اور بالآخر اچانک مَیں شور مچاتے، اُچھلتے کودتے دریا کے عین کنارے جانکلا۔ میں خود کو فوراً روک نہ لیتا تو دریا میں گرگیا ہوتا۔
یوں گویا تین دریا تھے خوشاب میں۔ یہ دراصل جہلم کے ہی تین دھارے تھے۔ اور پہلا دھارا ہمارا تھا۔ جس کے پہلو بہ پہلو ہمارا محلہ اور پھر چند دیگر محلے دور تک چلے گئے تھے۔ یہ صاف ندی تھی۔ پانی گدلا ضرور تھا لیکن اس میں گندگی نہیں تھی۔ اس میں شہر کا سیورج نہیں گِرتا تھا۔ وہاں لوگ روز کے روز نہاتے تھے۔ اس کے کنارے کھجور کے کتنے ہی دیوقامت درخت تھے۔ ہم سکول سے آتے وقت ان درختوں پرپتھر مار مار کر کجھور گراتے۔ پکے ڈوکے کھاجاتے،کچے ڈوکے گھر لے جاتے، اور مٹی کی ایک ہنڈیا سی میں ڈال، نمک ملا کر رکھ دیتے تھے۔ کئی دن بعد وہ بڑے مزے کے ہوجاتے تھے۔
سال میں دوبار ’’مامامَکی‘‘ کمر کے ساتھ اتنا موٹا تازہ رسا باندھ کر کھجور پر یوں لپک لپک کر چڑھ جاتا جیسے پرانی دنیا کا بندر۔ اور وہ کھجور اُتارا کرتا تھا۔ مامامَکی کا وہ موٹا رسّا سالہاسال تک ہمارے گھر رُلتا رہا۔ اس وقت وہ مجھے ہزاروں فٹ لمبا محسوس ہوتا تھا۔ ہمارے گھر سے تھوڑا آگے چل کر ندی ایک جگہ سے زیادہ پھیل جاتی تھی، بلکہ اس کا ایک کنارہ یوں گولائی میں ایک بڑا سا تالاب بناتا تھا گویا ندی سے کوئی جھیل سے پھُوٹ کر الگ ہوگئی ہو۔ اُسے ہم ’’ڈھن‘‘ کہتے تھے۔ ڈھن کا ہماری بولی میں مطلب تھا، ’’بہت گہری‘‘۔ سکول سے جاتے آتے ہم ڈھن کے پاس سے گزرتے اور حفاظت کے لیے بنے سیمٹ کے چبوترے پر سے ڈھن میں جھانکتے تو کتنے ہی کھچوے اپنی دونالی بندوق جیسی ننھی سی ناک نکال نکال کر ہمیں دیکھتے اور پھر ڈبکی لگا جاتے۔ ڈھن کے بارے میں ہم بچوں نے بہت سے لیجنڈز بنا رکھے تھے۔ یعنی کہ ایک بار اس ڈھن میں ٹریکٹر ڈوب گیا تھا جو آج تک نہیں ملا وغیرہ وغیرہ۔
موسم کے موسم لیاقت ڈاکیا اور اس کی پوری ٹیم تیراکی کے مقابلے کیا کرتی اور ہر سہ پہر کو دور دراز کے محلوں کی ٹیموں سے ان کے مقابلے ہوتے۔ خوشاب تیراکوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ تب خوشاب کا پانی بھی اسم بامسمیٰ تھا یعنی خوش آب یعنی اچھا پانی۔
اور اب ان تمام جگہوں کا یہ حال ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“