پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لئے جتنی خوب صورت اور مقبول ترین شاعری تسلیم فاضلی کی ہے اس قدر کسی اور کی نہیں ۔ حالانکہ فلموں کے لئے پاکستان کے بہت بڑے شعراء نے بھی گیت اور نغمے وغیرہ لکھے ہیں جن میں منیر نیازی، قتیل شفائی، احمد فراز، حبیب جالب، سیف الدین سیف اور احمد راہی وغیرہ شامل ہیں مگر ان کی نسبت ایک کم عمر نوجوان شاعر تسلیم فاضلی نے فلم انڈسٹری کو نہایت خوب صورت شاعری دے کر ان گیتوں اور نغموں کو سپر ہٹ ،یادگار ، سدا بہار اور لازوال بنا دیا ہے ۔
تسلیم فاضلی صاحب کا پورا خاندان شاعر تھا ان کے والد دعا ڈبائوی، برداران صبا فاضلی اور ندا فاضلی بھی ہندوستان کے معروف شاعر تھے ۔ تسلیم فاضلی 1947 کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام اظہار انور ہے لیکن قلمی نام تسلیم فاضلی اختیار کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے ۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں 1966 سے پاکستان کی فلموں کے لئے شاعری شروع کی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بغیر کسی معاشقے کے اس کی شاعری بہترین اور متاثر کن تھی مگر فلموں کے لئے شاعری لکھتے لکھتے ان کو حقیقت میں فلم انڈسٹری کی ایک خوب صورت، خوش گفتار اور خوش ادا ، اداکارہ نشو سے محبت ہو گئی اور وہ نشو کی محبت کے نشے کے عادی ہونے لگے ۔ واقعہ یہ ہے کہ فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ فارغ اوقات میں تاش کی بازی کھیلا کرتے تھے تسلیم فاضلی اور نشو ایک ساتھ بازی کھیلتے تھے اور یہیں سے کھیل کی بازی پلٹ گئی ۔ ایک روز باتوں ہی باتوں میں نشو نے تسلیم سے ان کی شاعری کی تعریف کی جس پر تسلیم نے نشو سے کہا پتہ ہے کہ میری ایک غزل کا جو ایک مصرعہ ہے
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
میرے ساتھ حقیقت میں ایسا ہی ہو گیا ہے جس پر نشو نے کہا کہ وہ کون خوش نصیب ہے بھئی؟ تسلیم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ صرف اور صرف آپ ہیں اور میں آپ کے بغیر زندہ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور میں آپ سے شادی کا خواہش مند ہوں ۔ یہ سن کر نشو سنجیدہ ہو گئی اور بہت اداس لہجے میں بولی میں ایک طلاق یافتہ خاتون ہوں اور میری ایک بچی بھی ہے ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے جس پر تسلیم نے نشو سے کہا کہ آپ سے بڑھ کر میرے لیئے کوئی نہیں ہے اور پھر دونوں کی رضامندی سے شادی ہو گئی ۔
اداکارہ نشو کی محبت کی شادی اپنے طالب علمی کے زمانے کے کلاس فیلو انعام درانی سے ہوئی تھی مگر بعد میں انعام درانی نے نشو کو طلاق دے دی ۔ تسلیم فاضلی نے شادی کے بعد نشو کو بہت پیار دیا اور ہرطرح سے خوش رکھا ۔ تسلیم فاضلی کی شاعری میں مزید نکھار آ گیا پاکستان کے تمام مشہور گلوکار اور گلوکاراؤں نے ان کے گیت بڑے شوق سے گائے اور شہرت حاصل کی اور تمام مشہور فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں پر بھی ان کے گیتوں کی عکس بندی کی گئی ۔ تسلیم فاضلی کو ایک تاریخی انفرادیت بھی حاصل ہوئی کہ ان کے ایک گیت کو ایک گدھے پر عکسبند کیا گیا یہ گیت فلم " گدھا اور انسان" تھی جس کے بول تھے
ڈھنگ انسانیت کے سکھا دے مجھ کو اے خدا
اور یہ گیت احمد رشدی نے گایا تھا ۔ تسلیم فاضلی 35 سال کی کم عمری میں 17 اگست 1982 کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔نشو سے ان کو ایک بیٹی عائشہ پیدا ہوئی تھی ۔ بعد ازاں جوان ہونے پر نشو نے اس کی شادی اپنی سہیلی اداکارہ فردوس کے بیٹے سے کرائی ۔ ماشاءاللہ وہ خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔ تسلیم فاضلی کے تمام فلمی نغمے بہت مقبول ہوئے ان میں سے چند فلمی نغموں کے بول یہاں دیئے جا رہے ہیں اور یقین ہے کہ قارئین کی خوب صورت یادیں تازہ ہو جائیں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جان پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
کہانی محبت کی زندہ رہے گی
ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا
نینوں کا ہے کام سارا دو نینوں کا کام
نین شرارت کرتے ہیں دل ہوتا ہے بدنام
خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے
کسی کا نام لوں لب پہ تمہارا نام آئے
اگر تم مل جائو زمانہ چھوڑ دیں گے ہم
زمانے بھر سے رشتہ توڑ دیں گے ہم
جو درد ملا اپنوں سے ملا غیروں کی شکایت کون کرے
کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی
مل گئے تم تو بس یہی غم ہے
پیار زیادہ زندگی کم ہے