پہلا افسانہ .. مطبوعہ .. " شاعر" ١٩٩١
میں تھک کر چور ہوچکی تھی۔ آج صبح سے میں نے مشینی انداز میں سارے کام کئے تھے۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، تو دن کے دو بج رہے تھے۔ پھر میری نظر اپنی ملگجی اور شکن آلود ساڑی پر گئی بہت دیر تک کچن میں کام کرنے سے مجھے گرمی بھی لگ رہی تھی۔ اور بس کے آنے سے پہلے مجھے تیار ہو جانا تھا، اس لئے نہانے کے ارادے سے کپڑے نکالنے کے لئے الماری کی طرف گئی۔ اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ٹھٹھک گئی۔ آج ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ بہت چمک رہا تھا۔ اور اسمیں میرا سراپا بہت واضح ہوگیا تھا۔ مجھے لگا جیسے آج ائینہ کی ساری دھول مجھ پر آگئی ہے۔ مجھے اپنا ملگجا سا سراپا اپنی ہی نظروں میں عجیب لگا۔ روز جب اسی آئینے پر دھول کی ہلکی سی پرت کے پیچھے میں اپنا چہرہ دیکھتی تو اس چہرہ پر چھائی تکان مجھ سے چھپی رہتی تھی۔ آج صاف و شفاف آئینے میں اپنا تھکا او ر ملگجا ساسراپا، وقت سے پہلے بالوں میں ایک دوچاندی کے تار۔۔۔ جیسے میری ہی محنت پر مجھے منھ چڑا رہے تھے۔ میں جلدی سے الماری کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں بھی مجھے جھنجھلاہٹ ہوئی۔ کیا پہنوں جو اچھا بھی ہو اور یہ بھی نہ لگے کہ میں نے کوئی خاص تیاری کی ہے۔ دو چار اچھے جوڑے جو کہیں آنے جانے پر ہی نکلتے تھے۔ اور گھر میں پہننے کے سارے بے جوڑ، بدرنگ سے، اچانک میری نظر اپنی اس سوتی ساڑی پر رک گئی۔ جو قیمتی نہ سہی مگر مجھے بہت پسند تھی۔ آج کے لئے مجھے سب سے زیادہ یہی مناسب لگی اسے میں نے دو روپئے میں پریس کروا کر رکھا تھا اس لئے نکالنے کا دل بھی نہیں کر رہا تھا۔ مگر پھر یہ سوچ کر ایسے موقعے پر دو روپئے کے پریس کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ میں نے وہ ساڑی نکال لی۔ نہا کر نکلی تو کسی حد تک تھکان اور گرمی سے نجات مل چکی تھی۔ میرا موڈ بھی خوشگوار ہو گیا تھا۔ پہناوا بھی انسان کی شخصیت پر کتنا اثر ڈالتا ہے۔ میں نے بال سنوارتے ہوئے خود کو پھر سے آئینے میں دیکھا۔ زرد رنگ کی میرون باڈر والی ساڑی میں میں بڑی گریو لگ رہی تھی۔ بال میں ایک دو چاندی کے چمکتے ہوئے تار اس کپڑے سے بہت میچ کر رہے تھے۔ اب میں مطمئن تھی۔ عذرا کو آنے میں ابھی چند گھنٹوں کی دیر تھی۔ اور میں اپنا سارا کام ختم کر چکی تھی۔ میں باہر چھوٹے سے برامدے میں نکل آئی۔ بستر پر لیٹنے کی خواہش تھی مگر ساڑی کی کریز خراب ہونے کا ڈ ر تھا۔ اس لئے برآمدے ہی میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ بادل گھِر آئے تھے۔ اور خوش گوار ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بھلے لگ رہے تھے۔ میں نے کرسی کی پشت سے سرٹیک کر آنکھیں بند کرلیں۔ اور کچھ دیر خالی الذہن سی بیٹھی رہی۔ دل پر کچھ عجیب سے احساسات کا غلبہ تھا، میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ میں بہت خوش ہوں یا اس خوشی میں اداسی کا رنگ بھی گھلا ہوا ہے۔۔۔ آج صبح، جب سے ٹیلی گرام آیا تھا کہ عذرا شام کو یہاں آرہی ہے ، وہ بھی صرف چندگھنٹوں کےلئے۔۔۔ تب ہی سے میں نے ایک پل بھی ضائع نہیں کیا تھا۔ خوشی اور بے چینی کا احساس مجھ پر غالب تھا۔ لیکن اس خبر کے ساتھ ہی میں گھر کے کام میں اس قدر مصروف ہوگئی کہ اپنی اس کیفیت پر زیادہ دھیان نہ دے سکی۔ گھر کو نئے سرسے سے صاف کیا تھا۔ ایک ایک چیز کو صاف کرکے چمکایا تھا۔ بستر کی چادریں بدل ڈالی تھیں اور احمد کو آفس جانے سے پہلے سوبار تاکید کی تھی مجھے کچھ چیزیں بازار سے لادیں تاکہ شام کی پر تکلف چائے کا انتظام کر سکوں احمد نے فہرست پر سرسری سی نظر ڈالی تھی۔ اور آفس جانے سے قبل سامان لا کر دے دیا تھا۔ ایک دوبارمیری ساری تیاریوں کو مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھا بھی تھا۔ مگر بولے کچھ بھی نہیں تھے، مگر میں جانتی تھی کہ وہ دکھاوے کے بہت خلاف ہیں۔ اور میری ان تیاریوں کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ اسے یقیناًفضول سمجھ رہے تھے۔ اسی لئے میں ان سے نظریں چراتے ہوئے کچن میں چلی گئی تھی، بہر چال آج اپنی سفید پوشی کا بھر م قائم رکھنے کے لئے میں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ کیوں کہ آج میری عزیز ترین سہیلی آنے والی تھی۔ ایک ایسی سہیلی جس سے میں ہمیشہ ہی مرعوب رہی ہوں۔ خوشی، بے چینی اورکرب کا ملا چلا احساس جیسے مجھے میں گھل رہا تھا۔ آنکھیں بند کئے میں ڈوبنے لگی اپنے ماضی کے دھندلکے میں…. ایک بہت خوبصورت دور۔۔۔ دو لڑکیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہروقت مسکراتی اور کھلکھلاتی ہوئی ، کبھی تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی کبھی امرود اور جامن کے پیڑ پر چڑھی ہوئی۔ پھر وقت کا گھومتا ہوا پہیا یہ خوبصورت دو ر اپنے ساتھ لے گیا۔ اور اس دور کی خوش گوار، بے فکر اور انمول گھڑیاں ماضی کے کسی عمیق کھڈ میں جا گریں۔
اب تھا ایک نیا دور۔۔۔ نئے عزم، نئی امنگوں کے ساتھ۔۔۔ لڑکپن کے حدود سے نکل کر جوانی میں قدم رکھتی ہوئی دو ننھّی کلیاں۔۔۔ عذرا اور نسرین برسات کی پھوار سے دھلے اور نکھرے ہوئے اس تازہ کھلے پھول کی طرح جو ہر ایک کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ عذرا بے حد چنچل،سانولی صورت اور تیکھے نقوش والی پیاری سی لڑکی۔ ہر وقت مسکراہٹیں بکھیرتی ہوئی، جیسے مسکراہٹ اس کی شخصیت کا ایک اہم حصّہ ہو اور اس کے بغیر اس کا وجود نامکمل۔۔۔ دوسری طرف میں، دوسروں کی زبانی اپنی تعریف سن کر خوبصورتی کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ میرے سفید رنگ او ر بڑی بڑی آنکھوں کے کئی متوالے تھے۔ یہ وہ دور تھا جو زندگی کا سب سے خوبصورت دور ہوتا ہے جہاں بہاریں ہوتی ہیں، خوشیاں ہوتی ہیں، سہانے خواب ہوتے ہیں۔ روشن مستقبل کے سہانے خواب۔ اپنی زندگی کے اس خوبصورت دو ر میں میں نے محسوس کیا کہ میں ہر پل ہر لمحہ سر شار رہتی ہوں۔ میرے وجود میں ایک بے نام سی خوشی ہر وقت گھلی ملی رہتی، ایک خواہ مخواہ کا غرور میری نس نس میں بس گیا تھا۔ میری ساری سہیلیاں کافی امیر و کبیر گھر کی لڑکیاں تھیں۔ میرے پاس میری ساری دولت میری خوبصورتی تھی اچھی اچھی امیر لڑکیوں نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اور میں ان کی محبت میں اپنی اصلیت پہچاننے سے انکار کرنے لگی۔ مجھے اپنی امیر سہیلیوں کی ہر بات اچھی لگتی۔ میں ہر بات میں آنکھ بند کرکے ان کی تائید کرتی۔ان کی آزادی او ر بے فکری کی نقل کرتی۔ خود کو ان کے جیسا دکھانے کے لئے مجھے کیا کیا جتن کرنے پڑتے۔ وہ کالج میں روزانہ کھانے پینے پر دس سے بیس روپئے خرچ کردیتیں اور ایسے موقع پر میری مٹھی میں دبا ہوا دو روپئے کا نوٹ پسیج پسیج جاتا۔ ہر بناوٹ کے باجود میں اس وقت اپنی احساسِ کمتری نہیں چھپا پاتی۔ویسے وقتی طور پر یہ بھول کر کہ میں نے ایک متوسط طبقے میں جنم لیا ہے، بہت اونچے اونچے خواب دیکھنے لگی تھی۔ میرے کچے ذہن پرآزادا اور امیر سہیلیوں کی لفّاظی اپنا رنگ جماتی چلی گئی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ جس کے میں خواب دیکھتی پھر بھی میرے اندر کچھ ایسا بھی تھا جو اس کے بالکل برعکس تھا۔ کبھی کبھی لگتا کہ میری ساری خوشیاں بڑی سطحی ہیں بلکہ ان ساری خوشیوں کے پیچھے ایک بے چینی ، ایک ا ضطراب کی کیفیت بھی ہے۔ جسے میں شعوری طور پر خود سے دور رکھتی اور اسے اپنے آپ پر حادی نہیں ہونے دنیا چاہتی تھی۔ لیکن پھر مجھ میں بڑی تبدیلی آنے لگی میں سنجید گی سے اپنے حالات کا تجزیہ کرتی۔ آخر کار مجھے لگا کہ میں نے اپنے دکھ اوراضطراب کی وجہ جان لی ہے اپنے سے زیادہ اونچے طبقے کی سہیلیاں بناکر ، ہمیشہ میں نے اپنی انا کو مجروح کیا ہے۔ گھر میں چھوٹی بڑی ضرورتوں کے لئے پاپا کو جدو جہد کرتے دیکھتی۔ آرام کرنے کی عمر میں بھی انہیں کام کرنا پڑتا تھا، ہماری ضرورتوں کے لئے۔ اور پاپا کے متفکر چہرے کو دیکھ کر میرے دل سے خوشی کے سارے احساسات پھسل پھسل جاتے۔ پھر میرا دل چاہتا کہ پاپا کے ضعیف وجود سے چمٹی ہوئی پریشانیاں، ممّی کے نازک سراپا سے الجھی ہوئی پریشانیوں کو ایک پل میں دور کر دوں۔ کچھ تو کر سکوں سب کے لئے کہ ان کے پریشان چہروں پر خوشی ، بے فکری اور ہنسی کی پھوار برسنے لگے۔ مگر کچھ بھی نہ کر سکی۔ میرے سارے چھوٹے بڑے خواب زمین بوس ہوتے چلے گئے۔ گریجویشن کے بعد میں گھر بیٹھ گئی۔ ان سہلیوں کا ساتھ چھوٹا اور میں نے اپنے حالات کا جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ حالات سے سمجھوتا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ عذرا مجھ سے اکثر ملتی رہتی تھی۔ پھر شادی ہوگئی اور میں ایک نئے گھر اور نئے ماحول میں آگئی اپنے شفیق والدین سے دور ان کے لئے کچھ کرنے کے عزم کو و ہیں کہیں چھوڑ کر۔ یو ں تو زندگی بڑی مطمئن گذر رہی تھی۔ سب کچھ ہی تھا۔ سب سے بڑھ کر ایک اچھا چاہنے والا بلند کردار ساتھی۔ اور اس کے علاوہ زندگی کو سادگی سے گذارنے کے تمام ذرائعے۔ پھر بھی میں کبھی کبھی بہت دکھی ہوجاتی ،کیوں کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک روایتی بیوی بن کر زندگی گذارونگی۔ کیا کچھ بننے کے خواب دیکھے تھے مگر کچھ نہیں بن سکی۔ اس طرح گذرتے وقت کے ساتھ میں نے اپنے سارے احساسات کو تھپکیاں دے دے کر سلادیا۔ اور اس پر صبر کی سل رکھ دی۔ اب بہت کم ایسی باتیں سو چا کرتی اور اب میرے پاس ایسی باتیں سوچنے کا وقت ہی کہاں تھا۔ لیکن آج اتنے دنوں بعد۔
عذرا کی آمد کی خبر نے پھر مجھے جنھجھوڑ کر رکھ دیا۔ سارے سوتے ہوئے احساسات جاگ اٹھے تھے۔ اور میرے اندر وہی مصنوعی نسرین سرا بھار رہی تھی۔ جسے اپنے گھر کی ہر چیز بدرنگ اور پھیکی نظر آرہی تھی۔ عذرا کے سامنے خود کو اچھے سے اچھا پیش کرنے کے لئے میں نے کتنی محنت کی تھی۔ آخر وہ ایک بڑے گھر کی فرد تھی۔ اور اب خود بھی وہ ایک بڑی پوسٹ پر تھی۔ میرا ضطراب بڑھنے لگا، مجھے انتظار کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ اتنی دیر سے کلف والی پریس کی ہوئی ساڑی میں خود کو اسٹیچو بنائے بنائے مجھے تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ دونوں بچے گھر کو بے ترتیب نہ کردیں۔ اس لئے میں نے بڑی فراخ دلی سے انہیں پاس والے پارک میں جا کر کھیلنے کی اجازت دے دی تھی۔
آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور عذرا کے آنے پر اس کے خیر مقدم کے لئے میں دوڑی۔ احمد بھی آفس سے آ چکے تھے۔ بچوں کو پارک سے بلا کر میں نے پڑھنے بٹھا دیا تھا۔ عذرا اور میں ایک دوسرے سے اتنے دن کے بعد ملے تھے کہ ہم والہانہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔ ہماری آنکھیں خوشی سے نمناک تھیں۔ ہم دونوں بہت دیر تک ماضی کی سہانی یادوں کو کریدکرید کر خوش ہوتے رہے۔ عذرا بہت بدل گئی تھی، اب وہ ایک شوخ و شنگ لڑکی نہیں رہی تھی۔ بلکہ اس کی شوخی کی جگہ سنجید گی نے لے لی تھی۔ وہ کافی بھاری بھرکم بھی ہوگئی تھی۔ ہاں اس نے مجھے دیکھ کر کہا کہ۔ نسرین تم بالکل نہیں بدلیں صرف بالوں میں ذرا سفیدی جھلکنے لگی ہے احمد بھی عذرا سے ملے اور اس کی دلچسپ باتوں پر مسکراتے رہے۔ لیکن پھر جلدہی انہوں نے ہم دونوں سہیلیوں کو اکیلا چھوڑ دیا عذرا نے میرے پیارے بچوں کی بہت تعریف کی۔ اور انہیں بہت سارے تحائف دئے۔ وہ مجھ سے اور میرے مختصر سے کنبے سے مل کر بہت خوش تھی۔اور اس خوشی کا اظہار با ربار کر رہی تھی۔ لیکن ان سب کے باوجود اس عذرا میں اور پہلی والی عذرا میں ایک نمایاں فرق نظر آرہا تھا۔ اور وہ یہ کہ عذرا کی جو آنکھیں ہر وقت مسکراتی ہوئی سی نظر آتی تھیں، آج ان آنکھوں میں ایک ویرانی سی تھی۔ آخر کار میں نے دل کی بات اس سے پوچھ ہی لی۔ عذرا پہلے تو میرا سوال سن کر مسکرائی ،پھر سنجیدہ ہو گئی، اور بڑی آہستگی سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ تم نے پوچھا ہے نسرین تو میں ضرور بتاونگی .اس نے آہستگی سی میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لی کر کہا ، آج تم نے جس اپنے پن سے پوچھا ہے شاید اس خلوص کی گرمی میں میں پگھلنے لگی ہوں۔ تمہیں نہیں معلوم کہ شادی کے دو سال بعد ہی میں نے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ میرے گلشنِ حیات میں کبھی کوئی پھول نہیں کھلا۔ ازدو اجی زندگی میں ناکامی کے بعد میں نے پھر شادی نہیں کی۔ میری زندگی بڑی و یران ہے۔ تم جانتی ہو نسرین۔ اعلیٰ سوسائٹی بڑی کھوکھلی ہوتی ہے۔ وہاں صرف پیسوں کی کھنک ہے خلوص اور محبت کی گرمی نہیں اور میں نے اب جانا ہے۔ زندگی میں روپیہ ہی سب کچھ نہیں۔ میں نے ایک غلط ساتھی کا انتخاب کیا تھا جو عیش پسند تھا۔ جو ہررات اپنے لئے ایک بیوی خرید سکتا تھا۔ ایسے آدمی کے ساتھ میں ساری زندگی کیسے گذارتی۔ پھر مجھے شادی کے نام سے چڑ ہوگئی۔ مگر آج تم سے مل کر لگاکہ میں غلط تھی۔ ہر آدمی میرے شوہر کی طرح تو نہیں ہوتا۔ تم اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہو۔۔۔۔۔۔عذرا اور بھی نہ جانے کیاکچھ کہ رہی تھی۔ مگر میں حیرت سے عذرا کو دیکھ رہی تھی۔ یہ عورت جس کو میں نے ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھا وہ کتنی دکھی ہے اور میں سوچ رہی تھی کہ وہ ہر طرح سے کامیاب اور مکمل زندگی جی رہی ہوگی۔
عذرا کو رخصت کرکے میں نڈھال سی بستر پر گر گئی۔کیسی ہے یہ زندگی۔ کیا یہاں ہر انسان پیاسا ہے۔ ایک تشنگی کے احساس سے جھٹپٹا تا ہوا۔ اپنے آپ میں ادھورے پن کا احساس لئے ہوئے۔ اس تشنگی، اس پیاس کا نام ہی شاید زندگی ہے۔
ضروری نوٹ
یہ نسترن احسن فتیحی کا پہلا افسانہ ھے- اس کے لیے انتظامیہ ان کی شکرگزار ھے کہ اُنہوں نے اتنا پرنا افسانہ ہمارےلئے ٹائپ کیا۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1815395912024724/
“