مجلسِ عاملہ برائے آداب غزل اکیڈمی کویت کی پہلی نشست 2 مئی 2019 ء بروز جمعرات شام پانچ بجے منعقد ہوئی جس میں ملکِ کویت کے عظیم قلمکاروں کی سرپرستی نے غزل اور غزل اکیڈمی کے روشن مستقبل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کے تعمیری پہلووں کو اجاگر کیا اور آداب غزل اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی۔
تاسیس غزل اکیڈمی کے اس تاریخی موقع پر کویت یونیورسٹی کے سینئر سائنس دان اور افسانوی دنیا کی افسانوی شخصیت مرزا عمیر بیگ نے کہا کہ اس جانب واقعی ابھی تک کسی کی توجہ نہیں گئی تھی۔ بہت بہتر ہوا کہ اس کام کیلیے باضابطہ ایک اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا جو انتہائی خوش آئند اور مبارک اقدام ہے۔
ان کے بعد کویت پٹرولیم کے سینئر انجینئر اور فلسفہ جاتی شاعری کے سرخیل جناب اسلم عمادی نے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ اردو کی بقا و ارتقاء کیلیے جو کچھ بھی آپ کرنا چاہ رہے ہیں اس میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
بعد ازاں مشہور و معروف شاعرہ، صدا کارہ و اداکارہ نیز اردو ادب کی ہر صنف پر صاحبِ کتاب شاہ جہاں جعفری حجاب نے خوشی کا اظہار کیا اور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ جب کبھی کسی مبتدی کو کسی فنی مدد کی ضرورت ہو تو میری خدمات اکیڈمی کیلیے ہمہ وقت حاضر ہیں۔
کویت میں قدیم شعراءِ کرام کے باقیات اور ان کی متحرک تہذیبی روایات کے امین جناب ڈاکٹر عامر قدوائی نے اکیڈمی کے قیام کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہمارے بعد اردو مضبوط ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے جس کی حفاظت کیلیے سنجیدہ اشخاص میدان کارزار میں سرگرم عمل ہیں۔
اکیڈمی کے صدر ماہر عروض و بدیع قبلہ نسیم زاہد صاحب نے فرمایا کہ شاعری ایک خداداد ملکہ ہے- اسے کسب سے کمایا نہیں کیا جاسکتا – البتہ اس ملکہ کو جلا بخشنے کے لیے کسب ضروری ہے۔
جلا بخشنے کے لیے کسب کا مطلب یہ ہے کہ شاعری کے فنون پہ دسترس حاصل کرنے کے لیے محنت کی جائے اور مشق و ریاضت سے اس کو اعلٰی معیار تک پہنچایا جائے –
انہوں نے مزید فرمایا کہ یوں تو اردو شاعری کے مراکز ہندوستان اور پاکستان ہیں لیکن یہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنا جلوہ دکھا رہی ہے اور اس کے دیوانے اس کی شان میں چار چاند لگا رہے ہیں انہیں میں سے ایک خلیجی ملک " کویت " بھی ہے۔ الحمد للہ کویت میں کافی اچھی شاعری ہورہی ہے۔ یہاں ایسے شعرا موجود ہیں جو بہت سے ممالک کے عالمی مشاعروں میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں لیکن کویت کے اس شعری کارواں میں کچھ مبتدی قسم کے شعرا بھی شامل ہیں جن کو منزل تک پہنچنے کے لیے زیادہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے " آداب " غزل اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا ہے اور اسے کویت کی نامور ادبی ہستیوں کی سرپرستی حاصل ہے –
اکیڈمی کا منشور
اکیڈمی کا منشور اور دائرہء عمل حسب ذیل ہو گا:
1- شعری و ادبی نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد –
نشستوں کے بعد شعر و ادب سے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ تاکہ نشست کو زیادہ سے زیادہ مفید و موثر بنایا جا سکے اور سیکھنے سکھانے کے عمل سے احباب بھرپور فائدہ اٹھا سکیں- یہ سلسلہ مضبوط و مربوط و منظم ہوگا – ان شاء اللہ
2- فنون شعر و ادب سے متعلق کلاسوں کا اہتمام۔
اس پیمانے پر کہ ایک نئے شاعر و ادیب کی بنیادی ضرورتیں پوری کی جا سکیں جس کے بعد وہ اپنی مشق و ریاضت سے خود کو صیقل کر سکے۔
3- سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے تنقیدی بحثوں کا اہتمام تاکہ رفتہ رفتہ باریک بینی پیدا ہو۔
اکیڈمی کے اغراض و مقاصد:
اکیڈمی کے قیام کا بنیادی مقصد شعر و ادب کے میدان میں کچھ کرکے دکھانا ہے۔
واضح رہے کہ اکیڈمی کے قیام کا مقصد کسی کی مخالفت ہرگز نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو خوش رکھے اور زیادہ سے زیادہ علمی و ادبی خدمات کی توفیق دے- آمین
جبکہ خلیج کے اولین صاحبِ دیوان شاعر خاکسار راقم الحروف خاکسار مسعود حساس نے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا:
*جیسا کہ آپ سبھی حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کی نئی بستیوں میں جب جب بھی کوئی مبتدی غزل گو پہنچتا ھے تو اسے تعلیمی و تدریسی اعتبار سے ماسوا لق و دق صحرا کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ یہی صورتِ حال کویت میں مقیم احباب کو بھی درپیش ہوئی۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عروض اور بحور و اوزان کے ساتھ فنِّ معانی و بیان کے کسی تدریسی سلسلے کی عدم دستیابی کی بناء پر عام شعراء کو تو چھوڑیئے کئی ادبی تنظیموں کے صدور بھی اپنا مصرع از خود درست کرنے سے قاصر ہیں۔ بعض نے تو اس ابتری کا حل خرید و فروخت کی شکل میں نکالا جو تا حال ادب کو بد سے بد تر کی جانب لے جا رہا ہے۔
ان حالات کے پیشِ نظر کویت میں ایک ایسی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ھے جو بلاتفریق ہر کسی کو غزل گوئی کے مبادیات سے روشناس کروائے گی۔
اس اکیڈمی کا نام آداب.. غزل اکیڈمی رکھا گیا ہے آپ سبھی سے اس کے روشن مستقبل کیلیے دعا کی درخواست ہے۔
کویت کے اولین سہ ماہی رسالے کے مدیر صاحبِ کتاب شاعر صابر عمر نے کچھ یوں اپنی بات رکھی کویت میں اردو کی خالص ہندوستانی تنظیم کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ جس کے قیام کیلیے وقتا فوقتا کوسشیں بھی کی گئیں جو بار آوار نہ ثابت ہوئیں۔ گزشتہ چند ماہ سے کچھ مخصوص احباب نے اکیڈمی کے خد و خال کو تراشنے کی سعی کی جسے رب العزت نے قبولیت بخشی جو آداب کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے خدا نو واردان کیلیے اسے کامیابی عطا کریں۔ آمین
اخیر میں طنز کے کہنہ مشق شاعر اکیڈمی کے جوائنٹ سکریٹری ایوب خان جھاپڑ نے سبھی کا شکریہ ادا کیا
اس طرح ملکِ کویت کی اولین غزل اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا جس کیلیے یہاں کے لوگ مبارکبادی کے مستحق ہیں۔
خاکسار
مسعود حساس۔
جنرل سیکریٹری آداب غزل اکیڈمی۔ کویت
2مئی 2019ء