انسان تاریخی و مادی وجود کا حامل ہے۔یعنی انسان متن اور بدن دونوں ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے تاریخی وجود کی تفہیم ایک متن کی طرح مطالعہ کر کے کی جا سکتی ہے اور اسکے مادی وجود کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ادراک تجزیہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور تجزیہ ادراک پر اثرانداز بھی ہوتا ہے گویا یہ عمل دو طرفہ ہے۔انسان کے تاریخی وجود کا علم اور ادراک و تفہیم انسان کی تاریخ اور فلسفہ اسکی ثقافتی قرأت سے لے کر نفسیاتی ، وجودی، مابعد الطبیعی قرأت سے بھی منسلک ہے۔انسان کے اوپر بیان کردہ وجودی پہلو یعنی تاریخی وجود اور مادی وجود میں کبھی انسان کا تاریخی وجود متقدم رہا اور کبھی مادی وجود متقدم رہا۔مثلاً وجودیت نے انسان کے مادی وجود کو تفوق دیا اور اس تجربے کو اہم مانا جو انسان کے مادی وجود سے متعلق ہو جبکہ مارکسزم نے بالواسطہ تاریخی وجود کو اہمیت دی۔دیگر شعبہ ہائے تخلیق و علم کی طرح فلسفہ کے فکری میدان ہوں یا عملی عرصہ ہائے مشق، فن و ادب کے شعبہ ہائے خیال و عمل ہوں انسان اپنے بارے میں ہمیشہ متجسس رہا ہے۔ہر تہذیب اور ہر تہذیب میں پیدا ہونے والا ادب زندگی یعنی نباتات و حیوانات اور خود انسانی وجود کے متعلق اپنی روایات رکھتا ہے۔اردو شاعری نے بھی اس ضمن میں بہت فکری خزانہ لٹایا اور ایک وقیع روایت پیدا کی۔فی زمانہ بھی تصورِانسان کو لے کر اردو شاعری میں کلاسیکی عہد کی بازگشت کے ساتھ ساتھ کئی نئے زاویے بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔بہر حال ہر تصور کی اپنی ایک تاریخ اور تسلسل ہوتا ہے ۔مبارک شاہ کے ہاں تصورِانسان کے تجزیے سے پہلے اس روایت کو مختصراً سمجھنا اہم ہوگا۔اردو غزل اپنی ابتدا میں تو کسی خاص فلسفیانہ اسلوب کی حامل نہیں لیکن بعد ازاں شمالی ہندوستان میں میر تقی میر، آتش بالخصوص غالب کے ہاں ہمیں فلسفیانہ اسلوب اور فکر واضح نظر آتے ہیں۔اردو شاعری کی کلاسیکی روایت میں انسان کا ایک پر شکوہ تصور نمایاں ہے۔جسے ہیومنزم کی تحریک اور پروٹاگورس کے فسلفہ کی روشنی میں بہت روشن کر کے دیکھا جا سکتا ہے جس کا ذکر آئے گا۔انسان کا یہ عالی شان تصور میر کے شعر میں دیکھیے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں (1)
اس شعر کے مطابق انسان کائنات کا محور ہے۔ساتھ ہی یہ شعر غماز ہے کہ انسان ایک مرتبے کا نام ہے اور اس مرتبے کا حصول پوری کائنات (برسوں فلک کی جد و جہد) کے بعد تفویض ہوتا ہے۔گویا محض وجودی پہلو نہیں ہے۔
میر کے ہاں انسان پر تفکر کی کئی بیش قیمت مثالیں ملتی ہیں۔مگر کلی طور پر ان کی حیثیت فلسفیانہ نہیں ہے۔
میر کے بعد کئی شعرا کے ہاں کائنات اور انسان و خدا کے تصورات پر اشعار مل جاتے ہیں جن کی نوعیت نیم فلسفیانہ یا یوں کہیے کہ غیر تجزیاتی صورت پیدا ہوتی ہے۔ بہر طور ایسے نقوش بھی یہ ثابت ضرور کرتے ہیں کہ اردو شاعری اگر براہِ راست کسی فلسفیانہ نظریے یا تحریک سے متاثر نہیں بھی رہی تب بھی اہم مسائل اور مضامین اس کا حصہ تسلسل سے بنتے رہے ہیں۔
آتش کا شعر ملاحظہ کیجیے:
آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو
نطق نے حیواں سے مشتِ خاک کو انساں کیا(2)
یہ شعر انسان کے اس اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایسا وجود ہے جو بذریعہ نطق اظہار کا ملکہ رکھتا ہے۔ورنہ یہ محض حیوان ہے۔یہاں یہ بات بر محل ہے کہ یونانی فلاسفی میں انسان کی تعریف ”Man is the speaking animal“(3)کے طور پر کی گئی ہے۔آتش کا محولہ بالا شعر ایک اور انسانی پہلو کو واضح کرتا ہے جس سے انسان یقینا مشرف بہ علویت ہوتا ہے وہ ہے تخلیق کرنا ۔سخن سے مراد تخلیق ہے۔ ہماری جدید شاعری میں راشد کے ہاں تو مسلسل ایسے انسان کی تلاش نظر آتی ہے جو تخلیق کار ہو۔اس کا قدرے تفصیل سے ذکر آگے آئے گا۔اردو کی کلاسیکی غزل کے مزاج میں فلسفیانہ طرزِفکر نے غالب کے ہاں آ کر ایک واضح اور تخلیقی صورت اختیار کی ہے۔غالب کا فلسفیانہ مزاج تخلیقی تجربے میں ڈھل کر جو رنگ اختیار کرتا ہے اس نے ہماری آنے والے عہد کی اردو شاعری کو بہت متاثر کیا جن میں اقبال، راشد اور دیگر کئی شعرا نے فیض پایا۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ غالب سے پہلے بھی انسان ،خدا اور کائنات کی مثلث پہ غور و فکر موجود ہے۔ مگر اس کی نوعیت ابتدائی نقش کی سی ہے۔غالب کے ہاں ان موضوعات اور تصورات نے باضابطہ فلسفیانہ طرز اختیار کی ہے۔غالب پہلا ایسا شاعر ہے جس نے اردو شاعری کی روایت میں انسان،وقت،کائنات اور خدا جیسے بڑے موضوعات پر فلسفیانہ سوالات اٹھائے۔
اس سلسلے میں غلام نبی کمار کی رائے ہے کہ:
”جب ہم غالب کو فلسفی کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ غالب کی نظر ایک فلسفی کی نظر ہے اور زندگی کے جن پہلوؤں کو وہ شاعری میں بیان کرتے ہیں ان کی دائمی حقیقت اور گہرائی ہمیں پہنچا دیتے ہیں“ (4)
غالب کے چند اشعار دیکھیے:
؎ بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا (5)
گویا آدمی ہونے اور انساں ہونے میں یہ شعر خطِ فاصل قائم کرتا ہے۔
یہ تاثر واضح ہے کہ آدمی ہونا محض ظاہری اور صوری نوعیت ہے جبکہ انسان ہونا کسی مرتبت پہ فائز ہونا ہے۔
فلسفہ انسان کی اس حیثیت پر بہت فکر رکھتا ہے کہ انسان ہونے میں اور بالخصوص ”ہونے“ میں کون سے مراحل درکار ہیں۔
غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک(6)
یہ شعر فلسفہ جبر و اختیار کی رو سے انسان کی ہستی اور وجود کے مسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔
مرگ ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے جبکہ غالب کے ہاں اسے وجودی مسائل کا حل بتایا گیا ہے مگر یہ بھی اختیاری نہیں ہے۔
اسی یعنی جبر و قدر کے فلسفہ پر محیط ایک اور شعر دیکھیے:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رقاب میں(7)
انسان با اختیار ہے یا مجبور اس پر یونانی فلسفیوں نے بھی غور کیا تھا اور ابتدا میں یہ رائے قائم کی تھی کہ انسان مجبور ہے اور اسکے اعمال و افعال اس کا ماحول اور اردگرد کے حالات طے کرتے ہیں۔
بقول بی ایف سکنر:
“At least two kinds of coercion must be distinguished. In one type physical force is applied to cause behavior in another person.” (8)
اس قول میں اینڈرسن نے بھی ایسی بیرونی قوت کے متعلق بتایا ہے کہ کس طرح وہ کسی وجود پر اثر انداز ہوتی ہے
بالکل اسی طرح انسان پر اسکا خارج اثر انداز ہوتا ہے۔
اقبال غالب کے انسان کے تصور پر اقبال نے نہایت فکر انگیز خیالات باندھے ہیں۔
اقبای کی شاعری میں جس انسان کی تلاش نظر آتی ہے وہ خود آگہی اور خودی سے مملو وجود ہے۔اسکے لیے اقبال نے تین مراحل کا ہی ذکر کیا ہے جن سے گزر کر انسان تکمیل پا سکتا ہے اور ہمیشگی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
اقبال انسان کو زمینی خداؤں کے سامنے جھکتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ۔وہ انسان کو باور کراتا ہے کہ یہ وجود کس قدر طاقت و قوت کا حامل وجود ہے۔بقول سید احتشام حسین:
”اقبال کا خیال ہے کہ جذبہ ء خودی زندگی میں جاری و ساری ہے۔اسی سے زندگی میں حرکت اور تڑپ ہے۔انسان کا سب سے بڑا نصب العین یہی ہونا چاہیے کہ وہ اسکی ترقی اور استحکام میں لگ جائے۔خودی کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کو تین مراحل سے گزرنا پڑے گا۔جن کے نام وہ اطاعت،ضبطِ نفس اور نیابتِ الہی رکھتے ہیں۔“(9)
اقبال کے یہ افکار جن کا ذکر احتشام حسین نے کیا ہے یونانی اور اسلامی فلسفہ سے استفادہ شدہ ہیں۔بہر حال اردو شاعری میں تصورِ انسان کے متعلق یہ نہایت معنی انگیز اور بار آور افکار ہیں۔
اردو ادب کے شعری منطقے میں ن م راشد ایسے شاعر ہیں جن کے ہاں مسلسل اور کثرت سے ایسی نظمیں اور مصارع ملتے ہیں جن کے تجزیے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاعر انسان اور انسان کے متعلقاتِ وجود کے لیے سب سے زیادہ قلم فرسائی کرنے والا شاعر ہے۔
اس ذیل میں ان کی کتاب کا نام خاصا فکر انگیز ہے اور کتاب ہے ”لا=انسان“۔
اس کتاب کے نام پر غور کریں تو یہ دو باتیں سامنے آتی ہیں۔پہلی بات یہ کہ یہ نام انسان سے انکار کی طرف اشارہ ہے۔یہ سطحی بات ہے۔کیونکہ یہ شاعری انسان کو ڈھونڈتی نظر آتی ہے۔
دراصل یہ نام اس بات پر ساری توجہ مرکوز کردیتا ہے کہ انسان کھو گیا ہے،گم ہو گیا ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر ضیاء الحسن کی رائے ہے کہ:
“راشد کی شاعری بنیادی طور پر انسان کی تلاش کی شاعری ہے۔راشد کے دور کا سب سے بڑا حادثہ انسان کی گم شدگی تھا۔اس دور کے مختلف شاعر اپنے اپنے انداز میں انسان کی تلاش میں شریک رہے۔راشد بھی اس کام میں ان کے ساتھ تھے۔”ماورا“ اس تلاش کا نقطہء آغاز ہے۔۔۔لیکن پورا انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ انھیں کہیں نظر نہیں آتا“۔(10)
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ باتیں واضح تر ہیں کہ
1۔انسان کے وجود پر راشد ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے شعرا نے قلم اٹھایا۔
2۔راشد ایسے انسان کا متلاشی تھا جو مکمل تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہو۔
3۔انسان کی گمشدگی۔
یہ تمام نکات انسانی وجود کی نئی تشکیل کے ساتھ ایسے انسان کی تلاش میں محرک بن جاتے ہیں جو اب واقعی موجود نہیں ہے۔
ہم نے دیکھا کہ کس طرح اردو شاعری کی کلاسیکی روایت سے لے کر جدید شعرا تک تصورِانسان پر سب نے اپنے اپنے انداز پر تجزیہ کیا، انسان کے مثالی وجود کے حصول میں اپنی جستجو کا حصہ ڈالا۔
اب ہم مبارک شاہ کی شاعری میں انسان کے تصور کا جائزہ لیتے ہیں۔
انسان کے مادی وجود اور تاریخی وجود میں کبھی مادی وجود کو اہمیت دی جاتی رہی اور کبھی تاریخی وجود کو۔
انسان کا مادی وجود وجودیت کے ہاں متقدم رہا اور انسان کو یوں اسکے وجود اور اسکے متعلقات یعنی کائنات، ماحول، جغرافیہ اور اسی قبیل کے دیگر لوازمات کے توسط سے سمجھا اور پچانا جاتا رہا ہے۔
جبکہ تاریخی وجود میں انسان کے تفکر ی روایت اور اس روایت کے تسلسل کے توسط سے انسان کے ماضی ،موجود اور آئندہ کا تجزیہ کرکے اسکا ”ہونا“ متعین کیا جاتا رہا ہے۔
چودھویں صدی عیسوی کے نصف میں اٹلی سے ہیومنزم کی تحریک کا آغاز ہوا جس نے رفتہ رفتہ پورے پورپ میں اپنے اثرات پھیلا دیے۔
مغربی نشات الثانیہ کے پس منظر میں یہی ”ہیومنزم “کی تحریک تھی۔
ہیومنزم کے فلسفے کی بنیاد پروٹاگورس کا یہ قول تھی کہ
”انسان ہی سب اشیاء کا پیمانہ ہے۔“
سب اشیاء یعنی ماحول، دنیا، مخلوقات، نباتات،جمادات الغرض پوری کائنات کو جانچنے کا پیمانہ انسان ہے۔
یہ انسان کا انتہائی عالی شان اور پر شکوہ تصور تھا۔
اسی تحریک کے زیرِاثر یہ بھی سمجھا گیا کہ عقل کے ذریعے اصلِ حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس مینی فیسٹو میں بھی واضح ہے کہ عقل چونکہ انسان کے پاس ہے لھذا انسان ہی اصلِ حقیقت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔مزید یہ کہ صرف وہی چیز اصل ہے جسے عقل گرفت میں لے سکے۔یہاں انسان کا عقلی خود مختار ہونا سامنے آتا ہے۔
انسان کے مادی وجود کی فکری روایت کا ایک پہلو برصغیر سے تعلق رکھتا ہے۔جسے رومی اور اقبال کی مابعد الطبیعی روایت بھی کہا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ برصغیر سے تعلق رکھنی والی فکر میں مذہبی عقائد اور سائنسی فکر کو باہم آمیز کرنے کی کوشش سے پیدا ہوا۔خاص طور پر جو فکر سرسید کے زیر اثر وجود میں آئی۔
اس ضمن میں ناصر عباس نئیر کا قول ہے کہ
”سرسید کے اثر سے برصغیر کی جو نئی فکری،تہذیبی فضا وجود میں آئی اس میں نہ صرف حقیقت کے طبعی رخوں میں امتیاز کیا گیا بلکہ ایک ایسی درجہ بندی بھی قائم ہو گئی جس کی رو سے طبعی اور مادی حقیقت کو مابعد الطبعیات ہر فضیلت حاصل تھی۔“ (11)
حوالہ جات
1۔ میر تقی میر۔کلیاتِ میر، مرتبہ ظلِ عباس عباسی (دلی:علمی مجلس، ۱۹۶۸)، ص ۲۱۰۔
2۔ حیدر علی آتش۔ کلیاتِ حیدر علی آتش، جلد اول، مرتبہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی (لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۳)، ص ۵۵۔
3۔ Aristotle. On the Soul. Translated by J. A. Smith. In The Complete Works of Aristotle: The Revised Oxford Translation, edited by Jonathan Barnes, 2:681.
4۔ غلام نبی کمار، غالب بحیثیت فلسفی شاعر
https://punjnud.azurewebsites.net/ViewPage.aspx?BookID=17540&BookPageID=424624&BookPageTitle=Ghalib%20Bahasiyat%20Falsafi%20Shair
5۔ اسد اللہ خان غالب۔ دیوانِ غالب نسخہ حمیدیہ، مرتبہ پروفیسر حمید احمد خان (لاہور: مجلس ترقی ادب،۲۰۱۸)، ص۱۰۵۔
6۔ ایضاً، ص ۱۶۵۔
7۔ ایضاً، ص
8۔ Skinner, B.F. Science and Human Behavior. New York: Macmillan, 1953, p. [page number 81]
9۔ سید احتشام حسین، اقبال بہ حیثیت شاعر اور فلسفی،
https://www.rekhta.org/articles/iqbal-ba-haisiyat-e-shayar-aur-falsafi-syed-ehtisham-husain-articles?lang=ur
10۔
11۔ناصر عباس نیر،” راشد کا نیا آدمی“، بنیاد،شمارہ ۱ (۲۰۱۰ء): ص۲۴۰۔