رت جگا جس میں زہد و تقوٰی نہ ہو ۔ اس سے مصروف ِ خواب اچھا ہوں
جو عبادت ریا سے بدتر ہو۔ اس سے مست و خراب اچھا ہوں
تاریخ ِ انسانیت کے مطابق پشتو زبان اتنی ہی قدیم ہے جتنی پاکستان کی دوسری علاقائی زبانیں ہیں۔ پشتو ادب کی تاریخ بھی ہزار سال سے اوپر جاتی ہے اور شاعری میں پہلے پشتو شاعر کا نام امیر کرور سُوری سامنے آتا ہے ۔ پہلا تحریری رزمیہ سولہویں صدی میں سامنے آیا ۔ اس رزمیے میں شیخ مالی کی فتح ِ سوات کا بیان ہے ۔ یوں تو پشتو شاعری انتہائی زرخیز ہے لیکن دو شعراء کا ذکر بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے ایک خوشحال خان خٹک اور دوسرے رحمن بابا ۔ خوشحال خان خٹک کا زمانہ 1613ء تا 1690ء کا ہے جبکہ رحمٰن بابا کا زمانہ اندازاً 1653ء تا 1711ء بنتا ہے۔ خوشحال خان خٹک کے بارے میں ، میرا مضمون آپ پچھلی پوسٹ میں پڑھ چکے ہیں چنانچہ اس مضمون کا دائرہ رحمٰن بابا تک ہی محدود ہے ۔
رحمٰن بابا کا اصل نام عبدالرحمان تھا لیکن وہ مشہور رحمٰن بابا کے نام سے ہی ہوئے ۔ وہ 1653ء (پیدائش کا سال حتمی نہیں ہے) میں پشاور کے قریب ایک گاﺅں ” بہادر کلی“ میں عبدالستار مہمند کے ہاں پیدا ہوئے ۔ فقہ اور تصوف کی تعلیم اپنے گاﺅں کے ہی ایک عالم محمد یوسف یوسف زئی سے حاصل کی بعد ازاں کوہاٹ میں جذب و سلوک کی منزلیں طے کیں ۔ جوانی میں ہی صوفی ہو کر دنیاوی لذتوں کو ترک کرکے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ 1711ء (وفات کا سال حتمی نہیں) میں وفات پائی اورموضع ' ہزار خوانی ' میں دفن ہوئے۔ ان کے مزار پر ہر سال میلہ منعقد ہوتا ہے ۔ حکومت صوبہ سرحد ( موجودہ ' خیبر پختون خواہ ' ) نے رحمن بابا کے حوالے سے یہاں ایک کمپلکس تعمیر کیا تھا جس میں سفید سنگِ مرمر کا ان کا مزار، ایک کیفے ٹیریا ، لائبریری اور ایک آڈیٹوریم شامل تھے جہاں شاعر اور ادیب حضرات اکٹھے ہو تے اور ہر سال موسمِ بہار میں تین روزہ سیمینار اور مشاعرہ کا اہتمام کرتے ۔ مارچ 2009 ء میں اس صوفی سنت شاعر کا مزار دہشت گردی کا شکار ہو گیا اور ایک بم دھماکے نے اسے نقصان پہنچایا ۔ رحمان بابا کا مزار بعد ازاں مرمت کرکے بحال کر دیا گیا ، لیکن اس پر اس کے مداحوں کی حاضری اب قدرے کم ہو گئی ہے اور سالانہ میلہ یا عرس تو ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کے خوف سے اب یہ اتنا پر رونق نہیں ہوتا ۔
رحمٰن بابا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے چچا کی اولاد امیر اور ان کا گھرانہ گاﺅں کا معتبر گھرانہ سمجھا جاتا تھا ۔ رحمٰن بابا کو وہ سبک نظروں سے دیکھتے تھے اور انہیں طعن و تشیع کا نشانہ بناتے رہتے تھے لیکن رحمٰن بابا اپنی ہی دنیا میں مست تھے لہذا یہ طعن و تشیخ ان کےلئے بے معنی تھا البتہ جب ان کی چیرہ دستیاں انتہا کو پہنچ گئیں توانہوں نے باپ دادا کے ہرے بھرے کھیت چھوڑ دیئے ، اپنا رباب اٹھایا اور پشاور کے مصافاتی علاقے ' موضع ہزار خوانی ' میں ڈیرہ جما لیا ۔
ان کی اپنی ایک غزل کا مقطع اس بارے میں کچھ یوں ہے ۔
” گدا اور شاہ ایک گاﺅں میں نہیں رہ سکتے
کہاں عزیز خان اور کہاں درویش عبدالرحمن "
جب رحمٰن بابا نے ہوش سنبھالا تو تمام پختونوں میں خوشحال خان خٹک کی شاعری عروج پر تھی اور ہر جگہ خوشحال خان خٹک کا طوطی بول رہا تھا لیکن جب رحمٰن بابا نے عوامی انداز میں صوفیانہ کلام کہنا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کے کلام نے پشتون عوام کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا ۔ ان کا مترنم ، کومل اور نرم لہجہ ہر طرف جادو بن کر چھا گیا ۔
مثل مشہور ہے کہ ایک گڈری میں دو فقیر ، یا ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے لیکن پشتو زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خوشحال خان خٹک اور رحمٰن بابا ایک ہی عہد میں دو عظیم شاعرو ں کے طور پر اپنی اپنی حیثیت میں مشہور ہوئے اور آج تک ان کے الگ الگ مکاتب ِ فکر” سبک خوشحال " اور ”سبک رحمٰن“ کی صورت میں موجود ہیں اوران دونوں کی شہرت علاقائی اور ملکی حدود پھلانگ کر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔
خوشحال خان خٹک کی شاعری اپنے عہد کی منظوم تاریخ ہے جبکہ رحمٰن بابا کی غزل میں حافظ شیرازی کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ رحمٰن بابا نے حافظ کی طرح تصوف کے مسائل کو بادہ و جام کی اصطلاحوں سے رنگین بنایا اورریاکار ملاﺅں کی سطحی اور غلوآمیز تفسیروں کو ہدف ِتنقید بنایا ۔
” جو دن کو ناصح و مشفِق نظر آتے ہیں
وہی رات کو اہلِ خرافات بن جاتے ہیں "
تاہم رحمٰن بابا کے ہاں اس مستی ، سرشاری اورجرا ت مندانہ انداز کا عکس حافظ شیرازی کے مقابلے میں ذرا َمدہم نظرآتا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حافظ شیرازی کی طرح خود بادہ خوار نہیں تھے انہوں نے یہ اصطلاحات صرف اپنے مشاہدے کی بنا پر استعمال کی تھیں ۔
رحمٰن بابا کی شاعری میں وہ ترنگ بھی نہیں ہے جو حافظ کی شاعری میں ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بادہ و جام کی اصطلاحوں کے استعمال کے باوجود تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ رحمٰن بابا ایک پاک باز صوفی اور پارساء شخص تھے ان کی شاعری اس بات کی غماز ہے کہ وہ اس نظریاتی تحریک کے جمالیاتی شاعر ہیں ، جس تحریک کا داعی کہیں شیکسپئر ہے ، کہیں سقراط ہے ، کہیں گوئٹے ہے ، کہیں ٹیگور ہے ، کہیں اقبال ہے کہیں سچل سرمست ہے تو کہیں بابا فرید یا بلھے شاہ ہے ۔ اس تحریک کا منبع ایک ہی ہے یعنی راستی اور سچائی کی بات کرنا انسان دوستی کی تبلیغ کرنا اور امن سے محبت کرنا ۔
" جو شاہوں کو ہے فخر دربار پر
مجھے ناز ہے تیرے رُخسار پر
کہاں دنیا داروں کو ہے وہ نصیب
جو لکھا ہے خرقے کی ہر تار پر
میسر پتنگوں کو ہے آگ میں
کہ جو حق ہے بُلبل کو گلزار پر
نہ فرقت میں تبدیل ہو شام ِوصل
نہ گلزار کی شب کٹے دار پر
خُدا گر یہ چاہے کہ ہو غرق کشتی
تو کیا زور مانجھی کا مَنجدھار پر
خود آغوشِ عاشق میں محبوب آئے
بھروسہ ہو گر بخت بیدار پر
نہ رحمٰن کو ایسا ناداں سمجھ
کہ اس کی نگاہیں ہوں دینا ر پر "
جس طرح ہر شاعر اپنا انداز اپنی سوچ اور اپنا منفرد خیال و فکر اپنے ساتھ لاتا ہے اسی طرح رحمٰن بابا بھی صاحبِ طرز شاعر تھے جو قدیم پشتو شعراء سے الگ اپنا مکتبہ ء فکر رکھتے تھے ۔ رحمٰن بابا کی فکر میں خودی کی تعلیم اور عالمگیر انسانی مساوات کا درس اور انسانی اقدار کا احساس نظر آتا ہے ۔
”جو آنسو ایک بار آنکھ سے گر جائے
گمان نہ کر کہ واپس آئے گا
ہر روز جو تم دیکھتے ہو نئی دھوپ ہوتی ہے
جو ایک بار گر جائے وہ پھر نہیں اٹھ سکتا
حسین چہروں اور سیاہ زُلفوں کے عاشق
کفر و اسلام کو کب خاطر میں لاتے ہیں "
گو پشتو میں رحمٰن بابا سے پہلے بھی غزل کہی جاتی تھی اور سب سے پہلے مرزا خان انصاری نے پشتو غزل کو تصوف کی چاشنی سے آشنا کیا تھا لیکن رحمٰن بابا نے اپنی شاعری کی بنیاد ہی تصوف پر رکھی اور تمام داخلی اور خارجی مسائل ِتصوف بیان کئے ۔ انہوں نے پشتو غزل کو ایک ایسی کیفیت سے روشناس کرایا جسے الفاظ میں قید نہیں کیا جا سکتا ، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
”میں عاشق ہوں جسے صرف عشق سے کام ہے
میں نہ خلیل ہوں ، نہ داﺅ دزئی نہ مہمند ہوں
تمام انسان برابر ہیں
دوسروں کو دکھ دینے والا خود ہی دکھ پاتا ہے "
رحمٰن بابا کے نزدیک مذہب انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے ایسی عالمگیر انسانیت جس میں مساوات ،عدل اور خوشحالی ہو ۔
” آدمیت دولت سے نہیں حاصل ہوتی
بُت اگر سونے کا بھی بن جائے تو بھی انسان نہیں بن سکتا
تمام دنیا عشق سے پیدا ہوئی ہے
عشق ہی ساری مخلوق کا باپ ہے
اگر تو خود بُرا نہ ہو
تو تیرے ساتھ کوئی بھی بُرائی نہیں کر سکتا
دنیا ایک دریا ہے جو بہہ رہا ہے
آئینے کی طرح صاف شفاف
اس میں ہر شخص کو اپنی صورت دکھائی دیتی ہے
خواہ وہ اچھی ہو خواہ بُری "
رحمٰن بابا کی شاعری پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ ساری کائنات سے محبت کے قائل ہیں ۔
” تو پتھر کی طرح بے کار نہ رہ
ذرہ بن کر مہر کو اپنا طالب بنا
جو شجر سرکش ہو اس میں پھل نہیں لگتا
جو نگوں سار ہو وہ میوہ دار ہوتا ہے
رحمٰن آدمی بن کر بتا
فیل بے ہنگام بننا فضول ہے
حباب جب عجز سے زمین پر اُترا
تو اس کا قطر ہ قطرہ موتی بن گیا
ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں
آگ قبر اور پشاور تینوں ایک ہیں "
رحمٰن بابا کی شاعری میں اخلاقیات کا درس بھی نمایا ں نظر آتا ہے البتہ ان کا ناصحانہ انداز اور اسلوب خشک نہیں ہے ۔
”عظمتِ کعبہ سے کس کو انکار ہے
مگر کوئی خر طواف سے حاجی نہیں بن سکتا
سفید ریش اگر ملعون ہو
تو ایک نیک دل خورد سال اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے“
رحمٰن بابا کی شاعری پشتون معاشرے کے سماجی مسائل کو بھی ننگا کرتی ہے ۔ لڑکیوں کی ، بھیڑ بکریوں کی طرح نیلامی اور انتقام کے جذبے کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔
” کوئی غریب نوجوان انہیں خرید نہیں سکتا
یہ لڑکیاں ہیں کہ قارون کا خزانہ ہے
جو لوگ قاتل کو خون بہا معاف نہیں کرتے
وہ دراصل خون فروش ہیں "
رحمٰن بابا کی شاعری کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ لوک گیتوں کے بعد سب سے زیادہ اگر کوئی پشتو کلام پڑھا یا گایا جاتا ہے تو وہ رحمٰن بابا کا کلام ہے۔
پروفیسر عبد المجید افغانی " دیوان رحمٰن بابا " کے دیباچے میں لکھتے ہیں؛
”رحمٰن بابا کو جو مقبولیت حاصل ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں ہر خیال کے آدمی کی دلچسپی کے لئے سامان موجود ہے اور ہر ناسور کے لئے اس میں الماس کے ریزے پائے جاتے ہیں ۔ رحمن بابا کی غزلوں کو پشتون رباعی کہتے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ پشتونوں کے ملک میں کوئی ایسا مرد یا عورت پیدا ہوئی ہو گی جو رحمن کو نہ جانتی ہو ۔ ہر غزل خواں کے لئے لازم ہے کہ غزل چھیڑنے سے پہلے رحمن بابا کی رباعی کہے۔ رحمٰن بابا میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر دل کا ساز ہے درد مندوں کے لئے مرہم ہے اور صحت مندوں کا ہمدم ہے ۔ اہل مجاز کو مجاز کی راہ دکھاتا ہے اور اہل ِ حقیقت کو حقیقت کی۔ “
پشتو کے مشہور محقق قاضی عبد الحلیم اثر رحمٰن بابا کے بارے میں کچھ ایسا ہی لکھتے ہیں؛
”رحمٰن باباکے اشعار کی ایک بڑی رمزیت یہ ہے کہ ان کے مطالب ہر ذوق کی پذیرائی کرتے ہیں اور ہر ایک کی تنہائی کے ساتھی ہیں ۔“
شمس کاکڑ نے رحمٰن بابا کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
”رحمٰن بابا کو پشتو غزل میں حافظ شیرازی کا مقام حاصل ہے پوری پشتون آبادی ان کے کلام کی حافظ اور پرستار ہے۔“
پروفیسر پریشان خٹک لکھتے ہیں؛
” پشتو زبان میں بہت پائے کے شاعر ماضی میں بھی رہے ہیں اور زمانہ حال میں بھی ہیں انہیں پڑھا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے اور ان کی تعریف بھی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی شاعر بھی عالمگیر سطح پر اتنا مشہور نہیں ہوا جتنا کہ رحمٰن بابا ہوا ہے اور غالباً کوئی اور ہو بھی نہیں پائے گا۔ رحمٰن بابا کی شاعری نے جہاں پشتون عوام کے دلوں میں گھر کیا وہاں ماہر لسانیت محقق بھی اس کی طر ف متوجہ ہوئے تاکہ پشتونوں کی اجتماعی ذہانت کا اندازہ لگا سکیں ۔ “
رحمن بابا کے دیوان کا اردو ترجمہ امیر حمزہ خاں شنواری نے 1963ء میں کیا تھا جبکہ ایک ولندیزی محقق Jen Kristian Evevoldsen (1922-1991) نے ان کے کلام کا ترجمہ رحمٰن بابا "پشاور کی بلبل " کے نام سے انگریزی میں کیا ہے ۔ اس کے علاوہ پشتو ادب پر جتنی بھی انگریزی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں رحمٰن بابا کے کلام کا نہ صرف تذکرہ موجود ہے بلکہ منتخب کلام کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔