پچھلے تیس سالوں میں جدید تعلیم و تربیت میں دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو روایتی جسمانی سزا (corporal punishment) کا تصور نہیں رہا۔ دوسرا یہ کہ بچے کو غلطی کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
روایتی جسمانی سزا وہ ہوتی ہے جس میں دیدہ دانستہ جسمانی طاقت کے استعمال سے بچے کے بدن کو درد، تکلیف، بے چیَنی،بے آرامی کا شکار بنا کر بچے کے طریقے کو صحیح کرنے کی کوشش کی جائے یا اسکے نامناسب طرزِ عمل یا قصور کی سزا دی جائے۔ ایسی سزا کے عام طریقوں میں مُنہ پر ہاتھ سے چانٹا، سَر پر تھپڑ، جسم پر دھموکا، سرین پر چھترول، اور ہاتھوں یا بدن پر پتلون کی بیلٹ، بیَد کی چھڑی، یا ڈنڈے کے وار کا استعمال ہوتا ہے۔ انہی طریقوں میں بچے کو مجبور کر کے گُھٹنوں کے بل، بے آرام پوزیشن، تکلیف دہ جگہ پر بٹھانا اور مُرغا بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق پر اقوامِ متحدہ کی کمیٹی (UNCRC) کے منشور میں یہ باتیں صاف صاف لکھی ہوئی ہیں۔
عالمی شماریات ہمیں بتاتی ہیں کہ دُنیا میں دو سال کی عُمر سے چودہ سال کی عُمر تک کے دس میں چھ یعنی ساٹھ فیصد بچے اپنے نگران سے ایسی سزا پاتے ہیں۔ نفسیاتی اور معاشرتی تحقیق سے ٹھوس ثبوت پایا گیا ہے کہ جسمانی بدنی سزا بچوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بدنی سزا کا بچے پر مستقل منفی اثرات سے منسلک ہونے کا تحقیقاتی ثبوت ملا ہے۔ یہ سب ثبوت یہ سکھاتے ہیں کہ جسمانی سزا بچے کی نافرمانی یا جارحانہ سلوک کو کم نہیں کرتی نہ ہی کوئی مثبت طرزِعمل لمبے عرصے تک قائم رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ بدنی سزا کا منفی اثر بچے کی تعلیمی کارکردگی، کردار، ذہانت، اِدراک، ذہنی صحت، عِزّتِ نفس، سماجی، مجلسی اور جذباتی نشوونما پر بھی پڑتا ہے۔ بدنی سزا نادانستگی میں انتہائی زیادتی میں بدل سکتی ہے۔بچپن میں بدنی سزا کے مُضر اثرات بلوغت کے بعد بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔ بچپن کے تھپڑ، دھکے، ٹُھڈے اور ڈنڈے سے پٹائی جیسی سخت سزائیں بچے کو بالغ ہونے کے بعد ذہنی تناؤ، یاسیت، نشہ آور اشیأ کا استعمال، سماج دُشمنی، بیزاری اور شادی کے بعد اپنے پارٹنر اور بچوں پر جسمانی زودوکوب جیسی خراب عادتوں کی طرف لے کر جاتی ہیں۔
پچھلے بیس اکیس سالوں میں آسٹریلیا کی دوسری ریاستوں میں عام اور ساؤتھ آسٹریلیا میں خصوصاً قانون میں تبدیلی آئی ہے۔ چائیلڈ کئیر، کنڈرگارٹن اور اسکولوں میں اب دودھ پیتے بچے کی عُمر سے لے کر تیرہ سال کی عُمر تک بچے کی دیکھ بھال کرنے والے، نگران اور اُستاد بچے کو ہاتھ سے یا زبان سے کسی بھی قسم کی ذہنی، جسمانی یا جذباتی تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ بچے کو کنٹرول کرنے کے طریقوں میں ایسی سزا بھی نہیں دی جا سکتی جس سے بچے کی بے عِزّتی کی جائے،بچے کو ڈرایا جائے یا دھمکایا جائے۔
بچوں کے بارے میں یہ سب باتیں اگر ہماری سمجھ میں آ گئی ہیں تو ہمیں بالغوں کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ اہم سوال ہے کہ کیا ہم بحیثیت بالغ اپنے آپ کو غلطی کرنے کا حق دیتے ہیں؟ اگر ہم اپنے آپ کو غلطی کرنے اور غلطی سے سیکھنے کا حق دیتے ہیں تو ہم یہی حق دوسروں کو کیوں نہیں دیتے؟ جب دوسروں کا معاملہ آتا ہے تو ہم کیوں فوراً اپنی ذات میں ایک عدالت قائم کرتے ہیں اور بیک وقت وکیل استغاثہ، جیوری، جج اور جلاد بن جاتے ہیں؟ ہم کیوں خود اخلاقیات کے اُونچے گھوڑے پر سواری کرتے ہیں اور ہماری اُونچی متکبر ناک کے نیچے سے دوسرے کیوں اتنے خطاوار اور حقیر نظر آتے ہیں؟ انسانی نفسیات میں یہ کیا اُلجھن ہے؟ کیا یہ ہمارے حیوانی ارتقأ کا تحفہ ہے یا ہمارے ماحول کی تربیت کی پیداوار؟
جس سے پُوچھو وہی فرشتہ ہے
کیا کوئی آدمی نہیں ہے ہم میں!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...