پچاس پچپن کے پیٹے میں یہ شخص حواس باختہ تھا۔ جس ادارے میں اس کا بیٹا افسر تھا‘وہ ادارہ اپنے ملازموں کو غائب ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔یہ جرم تھا اس کی سزا ملتی تھی۔امریکہ سے واپس آیا تو انہوں نے پکڑ لیا۔اب باپ پریشان تھا۔مقدمہ چلے گا اور سزا کچھ بھی ہو سکتی ہے۔پراگندہ خاطر باپ سے پوچھا:
’’کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی امریکہ میں مقیم ہے اور آپ کے بیٹے کا کیریئر حساس ہے اور قیمتی بھی۔‘‘
مجبور شخص کی آنکھوں میں ستارے جھلکنے لگے۔
’’مجھ بدبخت کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ و ہ شادی کر رہا ہے۔ امریکی لڑکی دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا۔لڑکی والوں کو تو پاکستانی لڑکا مطلوب تھا۔شادی کے بعد یہ وہاں دو سال رہا۔ یہاں غیر حاضری لگتی رہی!‘‘
دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلدوز ہے۔حمید (اصل نام نہیں)ہجرت کر کے شکاگو گیا تو بیٹی تین چار سال کی تھی۔وہیں پلی بڑھی‘ وہیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ماں باپ بہلا پھسلا کر پاکستان لائے اور خالہ زاد سے شادی کر دی۔کچھ دن تو اس نے گزار لیے پھر واپس جانے کے خواب دیکھنے لگی۔احمق باپ نے داماد کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ اس کا پاسپورٹ لے کر چھپا دو۔لڑکی کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو اس نے آخری وارننگ دی کہ پاسپورٹ دو ورنہ نتائج کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہو گی۔جیسے ہی موقع ملا‘وہ بیک ہوم‘یعنی امریکہ واپس چلی گئی۔اب ایک بچہ بھی تھا۔ماں بچے کے ساتھ شکاگو میں‘ میاں کراچی میں۔میاں صرف میاں نہ تھا‘بیوہ ماں اور مطلقہ بہن کا واحد کفیل بھی تھا۔لیکن اولاد کی کشش ظالم ہوتی ہے ۔سب کچھ چھوڑ کر بچے کی خاطر امریکہ چلا آیا۔یہاں دنیا ہی اور تھی۔اسے یہاں کا کچھ بھی اتا پتا نہ تھا۔ بیوی گائیڈ کرنے کے ساتھ باسنگ بھی کرنے لگی۔آخری نتیجہ وہی ہوا جو خود غرضی کا ہوتا ہے۔طلاق!
سو فیصد سچے یہ دونوں واقعات تارکین وطن کے ایک افسوسناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔اولین پہلو خود غرضی کا ہے۔جس معاشرے میں رہنے کے لیے خود وطن کی مٹی‘ ماں باپ‘ اقارب احباب سب کچھ قربان کر دیتے ہیں‘بیٹی کو وہاں نہیں رہنے دیتے۔کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیوی بنایا تھا تو اسے تو وہیں رکھا تھا!اپنی بیٹی کو کیوں وہاں سے نکالتے ہیں؟پہلے اسے وہاں بڑا ہونے دیا۔ جب وہ اس ماحول ‘وہاں کے طرز معاشرت اور سہولیات کی عادی ہو گئی تو زبردستی وطن رہنے پر مجبور کرنے لگے۔اگر وہ معاشرہ اتنا ہی خراب تھا تو گئے ہی کیوں؟یا پرورش و تربیت اس انداز سے کرتے کہ وہاں کے منفی پہلوئوں سے بیٹی بچی رہتی۔ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بیٹیوں کی تربیت اس انداز میں کی گئی کہ وہ ’’بوائے فرینڈ‘‘ والے کلچر سے محفوظ رہیں‘لیکن ظاہر ہے ایسی مثالیں کم ہیں۔دوسرا پہلو سنگدلی کا ہے۔داماد
درآمد کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ جس نوجوان کی آنکھوں پر امریکہ کی پٹی باندھنے لگے ہیں‘اس کے ماں باپ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ یا یہ کہ وہ بیوہ ماں کا واحد سہارا ہے۔ امریکہ یا یورپ میں پلی بڑھی پڑھی لڑکی کو ایک ایسے نوجوان کے پلے باندھنا جو وطن سے درآمد ہوا‘اور کسی لحاظ سے لڑکی کا ہم پلہ نہیں‘نرم ترین لفظوں میں بھی غیر دانش مندانہ اقدام ہے!درآمد شدہ داماد (یا شوہر)آتے ہی احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔اور پھر جب وقت آتا ہے تو بھیانک انتقام لیتا ہے۔
تیسرا پہلو منافقت کا ہے۔ولایت پہنچے تو خود خوب عیاشی کی۔جو مرضی ہے کھایا‘جو دل چاہا پیا‘جہاں ہوس لے گئی‘رات گزاری‘بیوی بھی اسی رنگ میں رنگی گئی‘دوست احباب بھی اسی قماش کے بنے۔لیکن بیٹی جوان ہوئی تو غیرت بھی جاگ اٹھی اور سوکھا ہوا ایمان بھی ہرا ہو گیا۔اب منصوبے بننے لگے کہ اسے اس معاشرے سے بچانا ہے۔پہلے اسے بہلایا پھسلایا ‘وہ پاکستان جانے اور رہنے پر تیار نہ ہوئی تو دھمکیاں دیں ۔یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو سیرو تفریح اور دادی سے ملنے کے بہانے واپس لائے اور زبردستی نکاح کرا دیا۔اخبار بین حضرات کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ کئی واقعات میں برطانیہ‘ فرانس اور دوسرے ملکوں کے سفارتخانوں کو اپنے ’’شہریوں‘‘ کی حفاظت اور واپسی کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ جب ایک امریکی یا یورپی شہری اپنے سفارتخانے کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ حبس بے جا میں ہے تو سفارت خانے کا فرض ہے کہ اس کی مدد کرے اور اسے حبس بے جا سے چھڑوا کر واپس ’’وطن‘‘ پہنچائے۔ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ’’غیرت مند‘‘ ماں باپ نے ’’بے راہرو‘‘ بیٹی کو جان ہی سے مار دیا۔
یہ درد مندانہ سطورکسی خیالی یا افسانوی بنیاد پر نہیں لکھی جا رہیں۔ ایسے سینکڑوں حادثات اور ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں اور آ رہے ہیں‘کچھ پریس میں رپورٹ ہوئے اور زیادہ نہیں ہوئے۔تارکین وطن پر لازم ہے کہ وہ اس رویے پر نظر ثانی کریں۔ یہ رویہ خود غرضی‘منافقت اور سنگدلی کا رویہ ہے۔ اگر اپنی معاشرت ‘اپنا انداز زیست‘اپنا دین‘ایمان عزیز ہے تو وطن ہی میں رہیں۔روکھی سوکھی کھائیں‘چٹنی اور پیاز والا نوالہ حلق سے نہیں اترتا تو ساتھ پانی کا گھونٹ بھریں۔پھر اگر ہجرت کی فکر نہیں تو بچوں کی خاطر ہی محتاط زندگی گزاریں۔لندن ہو یا شکاگو‘کراچی ہو یا جہلم یا مانسہرہ‘ بچوں پر سب سے زیادہ اثر اپنے گھر کے ماحول اور اپنے ماں باپ کی نیکی یا بدی کا پڑتا ہے۔جھوٹے‘وعدہ خلاف اور اکلِ حرام کھانے والے والدین کے بچے مسجد کی بغل میں رہ کر بھی ناسور ہی بنیں گے اور منافقت سے پاک والدین کی اولاد لاس اینجلس میں رہ کر بھی قابل رشک صورت اختیار کرے گی۔
اگر یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ہجرت بھی کر لی اور زندگی اپنی مرضی سے بھی گزاری تو اب گنڈیریوں کو گنا بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔ایک صبح بیدار ہو کر اچانک نادرشاہی حکم نہ دیجیے کہ بیٹی آج سے حجاب کرے اور جین نہ پہنے۔یہ جبر واکراہ کا معاملہ نہیں ؎
پیر فقیر اوراد وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
یہ حکمت‘تدریج ‘نرمی‘دھیمے پن صبراور دعا کا مقام ہے‘ مار دھاڑ اور دجل و فریب کارگر نہیں ہوتا۔یوں بھی بیٹی پاکستان کے کسی دور افتادہ قصبے میں ہے یا پیرس میں ‘شادی کے لیے اس کی رضا مندی اور بغیر جبر رضا مندی کی شرط اس کے مذہب میں درج ہے۔اس کا حق ہے کہ وہ زبردستی کی شادی سے انکار کرے۔یہ حق اسے اسلام نے دیا ہے۔ اگر ہمارے اہل مذہب اس حق کا پرچار نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حق سلب ہو چکا ہے!
ایسی ہی دوغلی پالیسی تارکین وطن کی اکثریت نے بچوں کے ساتھ زبان کے معاملے میں بھی روا رکھی ہوئی ہے۔بچے اردو سے‘ یا اپنی مادری زبان سے کیوں نابلد نکلتے ہیں؟ اس پر روشنی اگلی نشست میں ڈالی جائے گی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔