ترکیب سازی – مبادی و مقاصد
حرف سے لفظ اور لفظ سے کائناتِ علم و عرفان نمود پذیر ہوئی۔ ہر معاشرے نے اپنا لہجہ اور زبان پیدا کی۔ عہد بہ عہد جہانِ لفظ و معنیٰ میں ارتقاء آتا گیا۔ اظہار کے اس وسیلے میں تنوع در تنوع کے نتیجے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں زبانوں نے جنم لیا۔ ہر زبان کا اپنا اسلوب، اپنی لفظیات، اپنا لب و لہجہ، اپنا جداگانہ آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زبان کی ساخت کے قواعد میں بہت فرق ہے۔
عالمی بڑی زبانوں میں ایک فارسی بھی ہے۔ اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ ساخت و تشکیلِ الفاظ میں یہ عربی سے بعض اوقات اثر لیتی ہے لیکن اصلاً خود مختار ہے۔ فارسی میں تشکیلِ الفاظ کے لیے ایک اصطلاح «ترکیب» ہے۔ اسی سے متعلق ذیل میں چند اصول درج ہیں۔ نیز اس کی جمالیاتی قدر پر بھی گفتگو ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :-
ترکیب کیا ہے؟
ترکیب (Composition) دو یا اس سے زائد الفاظ کا وہ آمیختہ (Blend) ہے جو نئی معنوی تشکیل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ عربی معروف لغت «معجم الوسيط» میں بایں الفاظ : ”وضع بعضه على بعض۔ رَكَّبَهُ ضَمَّه إلى غيره، فصار شيئًا واحِدًا في المنظر“ ترکیب کا لغوی معنیٰ لکھا ہے۔ یعنی بعض الفاظ کو دیگر الفاظ پر رکھنا (ملانا)۔ دوسرے لفظ سے ملانا۔ جو (بعد از ترکیب) دیکھنے میں ایک ہی چیز ہو جائے گی۔
اصطلاح میں ترکیب سے مراد دو یا زائد الفاظ کا وہ جوڑا جو کسی اصول کے تحت اس طرح یکجا کر دیا جائے کہ ایک معنوی اکائی کی تشکیل ہو۔ مثلاً لفظِ ”خلش“ اکیلا لفظ ہے۔ اور عمومی معنیٰ رکھتا ہے لیکن جب اس کے ساتھ اصولِ اضافت کے تحت دوسرا لفظ ”آزار“ جوڑا تو یہ ترکیب «خلشِ آزار» بنی جو معنوی طور پر محدود ہو کر مخصوص معنوی اکائی بن گئی ہے۔ میر تقی میر کا شعر ملاحظہ فرمائیں :
تمھارے ترکشِ مژگاں کی کیا کروں تعریف
جو تیر اس سے چلا سو جگر کے پار ہوا
اس شعر میں «ترکش» اکیلا معنیٰ دے رہا ہے لیکن جب اس کی اضافت «مژگاں» کی طرف کی تو اب «ترکش» سے اس کا اصلی معنیٰ و مراد چھن گئی۔
یعقوب آسی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”ایک زبان کے الفاظ کا دوسری زبان میں رائج ہو جانے کا عمل ہم نے ایک حد تک دیکھ لیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا، لفظ کی ترویج کا یہ عمل عوامی زبان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذخیرۂ الفاظ اسی حصے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک لفظ جیسے آیا، اس میں کچھ جمع تفریق ہوا، اور وہ رواج پا گیا۔ لفظ کی چھان پھٹک اور اس کو ایک عمدہ معیار تک لانے کا کام اشرافی زبان کے امینوں کا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اعلانیہ اور کچھ غیر اعلانیہ طریقے تشکیل پا جاتے ہیں جن کے مطابق مختلف کلمات کی ترکیب سازی ہوتی ہے؛ موجود، مقامی اور درآمدہ کلمات، اور زبان کے تہذیبی مزاج کے تال میل سے نئے الفاظ بنتے ہیں یا پہلے سے موجود الفاظ کو نئے معانی ملتے ہیں، یوں زبان میں ترقی ہوتی ہے“۔
(بول تول : اردو کا تہذیبی لسانی ورثہ، صفحہ نمبر 37۔ یعقوب آسی صاحب)
زبان لفظوں کے ٹکڑوں سے وجود میں آئی۔ یہ ٹکڑے کتنے اہم ہوتے ہیں؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے مقدمۂ ابنِ خلدون کا یہ اقتباس پڑھیں :
”زبان صنعت کی طرح ایک ملکہ ہے۔ یہ ملکہ جس قدر کامل یا جس قدر ناقص ہوتا ہے اسی قدر معانی و مطالب کی ادائیگی میں اچھائی و برائی سے فرق آتا جاتا ہے۔ پھر نفسِ مفرداتِ لغوی سے یہ ملکہ نہیں نصیب ہوتا بلکہ اس میں تراکیبِ کلام کی شناخت (دخول) لابدیٰ ہے۔ جب متکلم کو یہ مہارت حاصل ہو جائے کہ معانئ مقصودہ کو مقتضائے حال کے مطابق الفاظِ مفردہ کی ترکیب سے ادا کر سکے تو وہ بلاغت کے اعلیٰ مرتبت پر پہنچ جاتا ہے اور سامع کو اپنا مقصد بحسن و خوبی سمجھا سکتا ہے“۔
(مقدمہ ابنِ خلدون، اڑتیسویں فصل، صفحہ نمبر 575 – نور محمد اصح المطابع)
ترکیب کی دو اقسام ہیں :
مرکّبِ اضافی : اضافت یہ ہے کہ دو مختلف اسموں کے ملنے سے معنیٰ میں ایک ناتمام لگاؤ پیدا ہو۔ دونوں ترکیب پاتے ہیں مگر آپس میں غیریتِ ذاتی باقی رہتی ہے۔ (جامع القواعد از شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد – صفحہ 97)
مثلاً : سلسلۂ روز و شَب، تریاقِ غَم، وصالِ صَنم وغیرہ
اضافت کی مزید کئی اقسام ہیں۔ مثلاً : اضافتِ تملیکی، اضافتِ ظرفی، اضافتِ تخصیصی، اضافتِ توضیحی، اضافتِ بیانی، اضافتِ تشبیہی، اضافتِ استعارہ۔
(جامع القوانین، صفحہ 68)
مرکّبِ توصیفی : جو اسم کسی دوسرے اسم کی خوبی یا برائی ظاہر کرے۔ اس کو صفت کہتے ہیں۔ اور وہ اسم جس کی خرابی ظاہر ہو۔ اسے موصوف کہتے ہیں۔ اور صفت و موصوف مل کر مرکّبِ توصیفی کہلاتے ہیں۔ (ایضاً)
مثلاً : (اردو میں) نیک انسان۔ (فارسی میں) بندۂ صالح۔ بندۂ مضاف اور صالح مضاف الیہ ہے۔
فارسی ترکیب سازی کا طریقہ :
اردو زبان 60 فیصد فارسی سے ماخوذ ہے۔ لہٰذا اس زبان کے لہجے، لفظیات، تہذیبی علائم اور معنوی پس منظر سے اردو کا براہِ راست استفادہ کرنا لازمی امر ہے۔ یعقوب آسی اپنی کتاب ”زبانِ یارِ مَن“ میں لکھتے ہیں :
”ہماری گرامر اور گردان کی بنیاد فارسی پر ہے، اور ترکیب سازی کے سارے طریقے فارسی کے ہیں“۔
فارسی میں ترکیب سازی کے لیے اصول متعین ہیں۔ اکثر علمائے بلاغت نے لکھا ہے کہ ترکیب عطفی ہو، توصیفی ہو یا اضافتی، ہر لحاظ سے یہ قانون ہے کہ فارسی اور عربی کے اصل الفاظ ہی باہم ترکیب میں آ سکیں گے۔ خالص اردو، ہندی یا سنسکرت کا لفظ کسی بھی عربی یا فارسی لفظ سے ترکیب میں نہیں ہو سکتا۔ فارسی تراکیب سازی کے ایک ہی کلیہ ہے۔ کسرہ کے ذریعے دو الفاظ کو باہم اضافتی یا صفتی ترکیب میں باندھا جائے۔ مثلاً : جانِ من، تیغِ جَفا وغیرہ
نصیر ترابی لکھتے ہیں :
”ہندی اور فارسی الفاظ کا مرکب درست نہیں، اساتذہ اسے قبیح جانتے ہیں. مثلاً : دن بہ دن، موسمِ برسات“۔
[شعریات، نصیر ترابی 174]
میرزا مہذب لکھنوی ،صاحبِ مہذب اللغات نے لکھا ہے کہ :
قاعدہ : طے شدہ مسئلہ ہے کہ کبھی اردو کے اضافت و عطف فارسی و عربی کی طرف اور فارسی و عربی کے اضافت و عطف اردو کی طرف درست نہیں، ایک صورتِ جواز ہے وہ یہ کہ جب کوئی لفظ "عَلَم" یعنی نام ہو تو اس علم کے عطف و اضافت فارسی یا عربی کیساتھ درست ہوں گے. جیسے : شہرِ لکھنؤ، ملکِ اودھ، زمینِ رامدین.
(دورِ شاعری – میرزا مہذب لکھنوی ۔ صفحہ 111)
نیز ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
قاعدہ : اگر اہلِ ہند کسی فارسی یا عربی لفظ کی حرکت بدل کے بولیں یا کسی عربی وزن پر لفظ وضع کر کے معنیٰءِ خاص میں استعمال کریں تو اس پر قطعاً اردو کا حکم جاری کیا جائے گا، اسی پر اجماعِ شعراءِ مستند ہے۔
(دورِ شاعری – میرزا مہذب لکھنوی ۔ صفحہ 36)
ترکیب کی جمالیاتی شان :
نزولِ تراکیب جہاں شاعر کی شعری خلاقی کا پتہ دیتی ہیں وہاں اس کے مخصوص اسرار آمیز اور تحیّر خیز لسانی مزاج کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔
ترکیب چاہے توصیفی ہو یا اضافتی، کلام میں اختصار، جامعیت، قطعیت اور اکثر دفعہ حسنِ ملیح کا سبب ہوتی ہے۔ اسے سرے سے ہی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ بے تحاشا تراکیب سے کلام کو بوجھل کرنا قرینِ عقلمندی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عربی و فارسی کے عام الفاظ کو مرکب کرنے سے کلام کی سطح معمولی بول چال کے مقابلے میں تھوڑی بہت بلند تو ہو جاتی ہے لیکن اسے سچی فارسیّت نہیں کہہ سکتے اور نہ اس طرح کی تراکیب کو کلام کا کوئی خاص حسن کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے پرانے نقادوں، خاص کر نیاز فتح پوری نے فارسی تراکیب کی خوب صورتی کا اکثر ذکر کیا ہے“۔
(شعرِ شور انگیز ۔ جلد اول ۔ صفحہ 65)
لیکن فاروقی صاحب نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کب ترکیب کلام میں خوبی ہے اور کب بَس جواز کی حد تک۔ ملاحظہ ہو :
”ترکیب اس وقت خوب صورت ہوتی ہے جب اس کے ذریعے کوئی نادر استعارہ پیدا ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے ذریعے معنیٰ میں اضافہ ہو۔ (اکثر یہ دونوں صورتیں، یعنی استعارہ اور اضافۂ معنیٰ ساتھ ساتھ واقع ہوتی ہیں) تیسری صورت یہ ہے کہ ترکیب کے ذریعے پیکر یا استعارہ و پیکر وجود میں آ جائے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ ترکیب کسی استعاراتی نظام کی لشت پناہی کرے، چاہے خود اس میں کوئی قابلِ ذکر استعارہ نہ ہو“۔
(شعرِ شور انگیز ۔ جلد اول ۔ صفحہ 96)
تراکیب کی افادیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہوئے عابد علی عابد لکھتے ہیں کہ :
”تراکیب کا اظہار مطالب میں معاون ہونا مسلم ہے کہ دو کلمات وابستہ ہو کر ایک نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جس طرح کیمیا میں مختلف اجزاء کی آمیزش سے ایک نئی چیز پیدا ہوتی ہے…… مفردات کے امتزاج سے تراکیب کے دونوں اجزاء ایک قسم کی نئی جوہری قوت حاصل کر لیتے ہیں، چنانچہ جس مفہوم کو مفردات کے ذریعے ادا نہیں کیا جا سکتا، وہ مرکبات کے ذریعے بہ وجہِ احسن قاری کے ذہن تک رسائی حاصل کر لیتا ہے“۔
(البیان – عابد علی عابد – صفحہ 10)
”تراکیب میں الفاظ سے ایک نیا خاندان ابھرتا ہے جو نئی تصاویر اور خاص سلسلۂ معانی کی تشکیل اور لطف کا باعث ہوتا ہے“۔
(اردو غزلیات میں فارسی تلمیحات و تراکیب کا لسانی و تحقیقی مطالعہ، بحوالہ حسن پور آلاشتی – صفحہ 17)
مجلہ «قومی زبان، صفحہ 04» کا شمارہ فروری 1983 کے اداریے میں غالب کی تراکیب سازی پہ گفتگو میں لکھا ہے کہ :
”مرکبات (تراکیب آمیز کلمات) کے برجستہ استعمال سے ندرتِ کلام ہی آشکارا نہیں ہوتی بلکہ شاعرانہ افکار کی قدرت متشکل ہو کر معاصر مفکرین کے لیے چیلنج اور قارئین کی غذائے فکر بھی بَن جاتی ہے۔“
چند سطور کے بعد مزید اس حوالے سے لکھا ہے کہ :
”مرکبِ اضافی بالخصوص فارسی تراکیب میں فکر و خیال کے مقصدی جزو کو مؤثر قطعیت سے پیش کرتا ہے۔ وہ صوتی اکائی بن کر روانئ کلام میں خارج نہیں ہوتا۔ مرکب کی اضافت ادا، صوت نیز تسکینِ نفس فراہم کرتی ہے“۔
——
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ تراکیب سازی محض بُری چیز نہیں جیسا کہ بعض جدت پسندوں کو ان سے خار ہے۔ ترکیب کلام کا حسن ہے اور مناسب جگہ برتنے سے معنوی زیادتی بھی قائم ہو جاتی ہے۔ تراکیب سازی کے اصول ہیں، ان کی پاسداری ایک اچھے ادیب کی ذمہ داری ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کس معنوی ہیئت کو کس ترکیب میں اور کن الفاظ میں بیان کرنا اولیٰ ہے۔ یہی چیز عام لکھاری اور اچھے ادیب میں حدّ امتیاز کھینچتی ہے۔
ذیل میں چند قدیم شعراء کے کلام سے تراکیبِ اضافتی و توصیفی کی کچھ مثالیں دی جا رہی ہے۔ پڑھیں اور ان کے معنوی پسِ منظر کو سمجھتے ہوئے اردو و فارسی کے مابین گہرے لسانی تعلق پر رشک کریں۔ :
ولیؔ دکنی کی تراکیب : چمن زارِ حیا، خمیازۂ آغوش، کلاہِ آبرو، فانوسِ دل
سراجؔ اورنگ آبادی کی تراکیب : خدنگِ نوکِ مژگاں، رشتۂ فکرِ رسا، فانوسِ حیرت، شمعِ چرب زبان، ہیکلِ لختِ دل
سوداؔ کی تراکیب : تریاقِ وصل، تفِ آہ، صفِ آرامِ دل، مصرعِ آہ، موجِ خطِ پیشانی، ہم آغوشِ عکس، ناقوسِ صَنَم خانۂ دل
خواجہ میر دردؔ کہ تراکیب : دیدۂ عیب پوش، نفسِ عیسوی، آئینۂ عدم، غبارِ دامن، کنشتِ دل
قائمؔ چاند پوری کی تراکیب : کارگاہِ مینا، گریۂ شبنم، نیشِ غمِ دوراں، نخلِ شعلہ، نرگسِ شہلا
میر تقی میرؔ کی تراکیب : آہوے کعبہ، اجزائے نوخطاں، ارژنگِ عشق، اقلیمِ حسن، برگرانِ عشق، تعبِ فراق، چراغِ وقفِ دل، آتشِ سوزندۂ دل، لعلِ نوخط، سطرِ موجِ اشک، گلچینِ باغِ حُسن
جرأتؔ کی تراکیب : تیغِ آفتاب، کمندِ ناز و ادا، لقمۂ مرگ، پیکِ اَشک، نشتتِ مژگاں
انشاءؔ کی تراکیب : تارِ چنگِ آہ، خمیازۂ صبح، رگِ ابرِ بہاراں، شعلۂ برقِ آہ، صحرائے قناعت، لباسِ آہ، لقمۂ اشک،سبزۂ نودمیدہ
مصحفیؔ کی تراکیب : تاراجِ شکیبائی، خدنگِ نگاہ، زورقِ خورشید، فانوسِ آبلہ، فیروزۂ دل، مزرعِ دل سوختہ، ناقوسِ آبلہ
شاہ نصیرؔ کی تراکیب : آبِ فوارۂ مژگاں، پرِ پروازِ آہ، تسبیحِ تارِ کہکشاں، خارِ بیابانِ وفا، دردانۂ اشک، سرپنجۂ تقدیر، شمعِ فانوسِ حباب، سیپارۂ دل
ناسخؔ کی تراکیب : تازیانۂ زلف، شمعِ حلقۂ ماتم، کعبۂ ابرو، گیسُوئے موجِ نسیم، رشکِ ثریا، کلکِ گوہر بار
خواجہ آتشؔ کی تراکیب : اطلسِ ہفت آسماں، خیمۂ ابرِ سیَہ، سمندِ عمر، دامنِ گور، کاروانِ نکہتِ گُل، کوہِ صبر، کمرِ موج
مؤمنؔ کی تراکیب : آہِ زبانہ کَش، اندیشۂ خون گشتہ، سرمۂ تسخیر، فتیلۂ زخمِ جگر، نالۂ نُہ آسماں شکن، نسخۂ اکسیر، گلوئے خامہ، شمعِ مینا فام
شاہ ظفرؔ کی تراکیب : توسنِ فکر، اشکِ سرمہ آلود، بارشِ گریہ، خنجرِ غمزۂ خُونیں، دامنِ فتراک،موجِ تبسم
استاد ذوقؔ کی تراکیب : تارِ رگِ سنگ، تلخابۂ حسرت، جادۂ عمر، زلفِ الم، سمندِ وحشت، دستِ آرزو
مرزا غالبؔ کی تراکیب : آغوشِ وداع، اوراقِ لختِ دل، بساطِ نگاہ، تارِ اشکِ یاس، جرسِ آبلۂ پا، سرابِ سطرِ آگاہی، فراغت گاہِ آغوشِ وداع، نقش بندِ آئینہ، رگِ بستر، ساغرِ جلوۂ سرشار
شیفتہؔ کی تراکیب : جیبِ نسیمِ چَمَن، لقائے شمع، شمیمِ زلفِ عنبر، آہِ ناتواں، نالۂ شورش فزا
حالیؔ کی تراکیب : دریائے معنیٰ، رہزنِ دل، زخمِ تیغِ عشق، نالۂ جرسِ کارواں، نخلِ وفا
علامہ اقبالؔ کی تراکیب : اشکِ سحر گاہی، بتانِ عہدِ عتیق، خمِ زلفِ کمال، دمِ نیم سوز، ردائے نیلگوں، رعشۂ سیماب، سینۂ کائنات، شیشۂ تہذیب، مینائے غزل، نالۂ آتش ناک، نشترِ تقدیر، نگاہِ آئینہ ساز
راقم الحروف خود تراکیب کو اردو کی شعری زبان کے لیے بطورِ حسن گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر و نثر میں کثیر تراکیب کا استعمال گویا کہ فطرت بن گیا ہے۔ چند مثالیں بطورِ نمونہ پیش ہیں :
آہنگِ اعتبار، حسرتِ بریدہ لبی، طرہ بردوش شمعیں، غنودہ و خوابیدہ ماحول، ساحلِ مژگاں، قاتلِ امکانِ سرور، خیالِ معرکہ ہائے تعشّق، زخمہ یابِ تتارِ گریہ، لؤلؤِ بارانِ نعت، مخدومِ طائرانِ اولی الاَجنحہ، نقشِ جمالِ شوخیءِ آیات، قَلَم زادگانِ خویش، راکبِ دوشِ حِدّتِ موسم، عشوہ زارِ زیست، جلوہ گاہِ خوبرویانِ جہاں، آشنائے رموزِ سُفتہ، دل بلا کش بہ غمزۂ چالاک، نشاطِ کارِ ہَوَس، فکرِ خجسہ خصال، ضربِ رد الفساد، صورتِ فرخُنده شيَم، ﻣﺮﮨُﻮﻥِ ﻛﺸﻮﺩِ ﺻُﺒﺢ، ﺁﻏﺎﺯِ ﮨﻨﮕﺎﻡِ ﺧﻠﻮﺩِ ﺻُﺒﺢ، ﺩﺧﯿﻞِ ﺯﻣﺮۂِ ﺟﺮﻡ ﻭ ﺧﻄﺎ، شرابِ نابِ تعیُّش، غبارِ کَج نَظَری، سریرِ طنزِ مکرَّر، ستم رسیدۂ مِضرابِ غَرب، رہینِ شکوۂ مذہب، شریکِ زمرۂ دامن کشِ مسلماں، جہانِ خواہشِ لیلیٰ، کوشش و کاوشِ فہمائشِ کج باز، لطمۂِ زُور، عارضِ عسکر، فگارِ کلکِ بے پروا، پندارِ خدائی، اسپِ شتاب آہنگ، زرِ زرتاب، تہِ طاؤسِ أخضر، کلیدِ فتحِ شش آئینہ، نگاہِ چابک اندیشہ، خرامِ رشکِ رستاخیز، فیلِ سبک رَو، مارِ زہر وَر، روئے قرمزی، ہم رکابِ رخشِ ہستی، اعتقادِ یٰا اُلِی الْاَبصَار، کشتۂِ عریانئِ تہذیبِ فرنگی، کلوخ اندازئِ احباب، آوازۂِ اقبال، سرمۂِ چشمِ غزالاں، وارفتۂِ اندازِ کلیسائی، مستِ مئے ذوقِ خُود آرائی، لائقِ تسخیرِ عناصر