موجودہ طریقہ تعلیم صنعتی انقلاب کے دور میں ترتیب دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب میں ایک چیز کو بار بار دہرانا، ہدایات کو فالو کرنے کی اہلیت وہ مہارتیں تھیں جو صنعت میں درکار تھیں۔ صنعتی دور گیا۔ طریقہ تعلیم کو بدلتے وقت لگتا ہے۔ دنیا میں تبدیلی کی رفتار صنعتی دور کے مقابلے میں بہت تیز ہے، پیشے بدل رہے ہیں۔ جو پیشے پرانے ہیں، ان میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ گاڑی کا میکینک ہو یا ڈاکٹر، اپنے آپ کو اپڈیٹ رکھے بغیر علم پرانا ہو جائے گا۔ سیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت کے بغیر والی سوسائٹی کے لئے مشکلات ہوں گی۔
یہ نہیں کہ نصاب اور پورا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بس چند جگہ پر بہتری تا کہ آج کے طلباء کل کی دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ ایک چھوٹا بچہ اپنے آپ کو کبھی بادشاہ کے طور پر تصور کرتا ہے۔ کبھی چاند پر جانے کا خواب ہے۔ کبھی پولیس مین بنتا ہے اور کبھی ڈاکو۔ مستقبل کے بارے میں یوں تصورات اور کہانیاں بنانا اور مناظر گھڑنا انسان کی بڑی طاقت ہے جو سکول میں نشوونما نہیں پاتی۔
سائنس پڑھتے وقت نصاب اس طرح پڑھ لینا کہ پوچھے گئے جوابات میں سے ایک ٹھیک جواب چن لیا جائے۔ پریکٹیکل کر لینا کہ دی گئی ہدایات پر عمل کر کے پہلے سے طے شدہ نتیجے کو حاصل کر لیا جائے۔ یہ طریقہ تخلیقی صلاحیت کند کر دیتا ہے۔ کوئی پراجیکٹ جس میں نئی چیز بنانی ہو، کوئی ایسا سوال جس کا ایک ٹھیک جواب نہ ہو، سوچ کے تجربے، یہ طلباء کے ذہن کو نئی راہوں پر اور نئے طریقوں سے سوچنے کی تربیت دیتے ہیں۔ یہ کام اساتذہ کلاس میں کر سکتے ہیں، والدین گھر میں اور طلباء خود بھی۔
یہ صرف سائنس تک محدود نہیں۔ تاریخ پڑھتے وقت واقعات یا تاریخیں یاد کر لینا کافی نہیں۔ منظر نامے تشکیل دینا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر جماعت میں متبادل تاریخ پر بات ہو سکتی ہے۔ ان سوالات پر جن کے جواب سوچنے کا موقع دیں۔ اگر چنگیز خان کی فوج میں چیچک پھیل جاتی تو کیا ہوتا؟ اگر سلطان سلیم دباؤ میں آ کر چھاپہ خانے پر سزائے موت جاری نہ کرتے؟ اگر آرچ ڈیوک کی گاڑی غلط موڑ نہ لیتی؟ ان کے کوئی ٹھیک جواب نہیں لیکن ان پر بحث سوچ کو تحریک دیتی ہے۔ تاریخیں اور واقعات تو کمپیوٹر بہت بہتر بتا دے گا۔
لیکن کیوں؟ اس لئے کہ دنیا بدل رہی ہے۔ ملکوں اور ریاستوں کا تصور سترہویں صدی میں شروع ہوا جس نے بڑی حد تک دنیا میں امن قائم کیا لیکن یہ خود بھی ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ ایک طرف لارج ہیڈرون کولائیڈر میں انڈیا، پاکستان، ایران، اسرائیل حتی کہ آذر بائیجان اور آرمینیا کے سائنسدان مل کر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل آپس میں سفارتی تعلقات نہیں رکھتے لیکن ان کے کاروباری ادارے ایک دوسرے سے مل کر پراجیکٹ کر رہے ہیں۔ سکائپ، ویڈیو کانفرنس، ای میل وغیرہ ہر طرح کے لوگوں کا آپس میں تعاون کرنا ممکن کر رہے ہیں۔ زبان کی رکاوٹ بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہی۔ دوسری طرف پوری دنیا میں قبائلیت پسند سیاسی لیڈر ابھر رہے ہیں جن کا طریقہ گروہی شناخت کو ہوا دینے کا ہے۔ مستقبل کس طرف جائے گا؟ معلوم نہیں۔ لیکن وہ پالیسی ساز، وہ لیڈر اور آج کے وہ طلباء کل کے چیلنج سے بہتر نبرد آزما ہو سکیں گے جو سیدھی لکیر اور کسی بھی طرح کے جامد خیالات سے ہٹ کر راہ بنا پائیں گے۔
اگر ہم کسی طرح مستقبل میں جا کر آج سے تین نسل آگے کی دنیا کو دیکھ سکیں تو وہ آج جیسی بالکل بھی نہیں ہو گی۔ لیکن اس سے مقابلے کے لئے خیالات کا خام مال آج کی دنیا میں ہے۔ کون ان خیالات کو جوڑ کر کیا تعمیر کر سکے گا؟ اس نے کل کی دنیا کی شکل متعین کرنا ہے۔ یہ کام آج کے اساتذہ نے، آج کے والدین نے اور آج کے طلباء نے کرنا ہے۔ نئے خیالات کو تعمیر کرنے کا فن سیکھنا آج کی تعلیم کا بڑا چیلنج ہے۔
کل ستاروں پر کمند وہ نہیں ڈالے گا جسے بس ستاروں کے نام آتے ہوں گے بلکہ وہ جس نے کمند بنانے کے طریقوں کا بھی سوچا ہو گا۔