کنوئیں کا مینڈک
ایک چھوٹے مگر گہرے کنوئیں میں ایک مینڈک رہتا تھا۔وہ اس کنوئیں کے اندر کی دنیا کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھا۔یہ کنواں اور اس میں سے نظر آنے والآسمان اس کے لئے کل کائنات تھا۔ ایک دن اس کی ملاقات ایک دوسرے مینڈک سے ہو گئی جو کنوئیں کے باہر کی دنیا میں رہتا تھا۔”تم نیچے آکر میرے ساتھ کیوں نہیں کھیلتے۔ یہ بہت مزے کی جگہ ہے“ کنوئیں کے مینڈک نے باہر والے مینڈک سے کہا۔
”کنوئیں کے اندر دیکھنے اور کھیلنے کے لئے کیا ہے“ باہر والے مینڈک نے کہا
”ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ جس چیز کا تم نام لو گے وہ یہاں ملے گی۔ چشمے،زمین سے نکلتا پانی،ستارے،کبھی کبھار دکھنے والا چاند، حتی کہ آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی دکھائی دیتے ہیں۔“ کنوئیں کے مینڈک نے جواب دیا۔
زمین پررہنے والے مینڈک نے افسوس کرتے ہوئے کہا ”میرے دوست تم ایک بہت محدود دنیا میں رہتے ہو۔تم نے وہ سب کچھ نہیں دیکھا جو اس بڑی دنیا میں ہے“
کنوئیں کے مینڈک کو غصہ ّگیا۔”مجھے نہیں بتاؤ کہ تمھاری دنیا بڑی ہے اور ہماری چھوٹی۔میری دنیا بہت بڑی ہے۔ہم دنیا کی ہر چیز دیکھتے اور پر کھتے ہیں۔پھر کس طرح یہ دنیا چھوٹی ہے“کنو ئیں کے مینڈک نے کہا۔
”نہیں میرے دوست! تم صرف اوپر کی دنیا کا وہی حصہ دیکھ سکتے ہو جو کنوئیں سے نظر آتا ہے۔یہ بہت محدود نظارہ ہے۔اوپر کی دنیا بہت وسیع وعریض ہے۔کاش کہ میں تمھیں دکھا سکتا کہ یہ دنیا کتنی بڑی ہے“ باہر والے مینڈ ک نے کہا
کنوئیں کا مینڈک اب باقاعدہ ناراض تھا۔ ”میں تمھاری باتوں پر یقین نہیں کر سکتا۔تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو۔میں اپنے باپ سے پوچھوں گاکہ سچ کیاہے۔ اس نے اپنے باپ سے باہر والے مینڈک سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا اور سچ جاننے کی خواہش ظاہر کی۔اس کے باپ نے دکھی دل سے کہا ”میرے بیٹے تمھارا دوست درست کہتا ہے۔میں نے سنا ہے کہ اس کنوئیں کہ باہر کی دنیا بہت بڑی ہے۔وہاں سے کنوئیں کی نسبت بہت زیادہ تارے دکھائی دیتے ہیں۔۔ وہاں سے سورج،چاند اور آسمان واضح دکھائی دیتے ہیں۔“
”تم نے یہ سب کچھ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا “ چھوٹے مینڈک نے ناراض ہو کر باپ سے کہا
”کیا فائدہ! تمھاری منزل اور تمھاری دنیا یہ کنواں ہی ہے۔یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ہم ساری زندگی باہر نہیں نکل سکتے۔اس لئے اس دنیا کے ذکرکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اب ہماری دنیا یہی ہے۔“
چھوٹے مینڈک نے پھدکتے ہوئے کہا ”میں باہر نکلوں گا۔میں کھلی اور بڑی دنیا میں ضرور جاؤں گا۔مجھے دیکھو میں کیا کرتا ہوں“ اس نے اچھلنے اور باہر نکلنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن کنواں بہت گہرا تھا اور زمین بہت اوپر تھی۔وہ اچھلتا اور بار بار کنوئیں میں آ کر گرتا۔
”کوئی فائدہ نہیں میرے بیٹے! میں نے ساری زندگی یہ کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے ہمارے باپ دادا نے بھی یہاں سے نکلنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن سب بے سود۔ باہر کی دنیا کو بھول جاؤ۔جوکچھ تمھارے پاس ہے اس سے مطمئن ہو جاؤ ورنہ تمھاری زندگی مزید تکلیف میں گزرے گی۔“ بڑے مینڈک نے اسے سمجھایا
”میں باہر نکلنا چاہتا ہوں۔میں باہر کی بڑی دنیا دیکھنا چاہتا ہوں“ چھوٹے مینڈک نے نہایت دکھ اور حسرت سے کہا
”نہیں بیٹے۔قسمت کا لکھا مان لو۔جوکچھ ملاہے اسی میں رہنا اور جینا سیکھو۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں“
اس طرح اس غریب مینڈک نے گہرے، اندھیرے اور ٹھنڈے کنوئیں سے نکلنے میں ساری زندگی صرف کر دی۔لیکن وہ کبھی باہر نہیں نکل سکا۔باہر کی دنیا اس کیلئے خواب بن کر رہ گئی۔
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔