طارق جمیل صاحب۔ میری نظر میں!
دوستو! ملا ازم کے بارے میرے جو خیالات ھیں آپ بخوبی اس سے آگاہ۔ھیں۔میں طارق جمیل صاحب کا نام اکثر ایک حوالہ۔کے طور پر استعمال کرتا ھوں ۔میں کیوں یہ۔کرتا ھوں مختصرا" بیان کئے دیتا ھوں ۔
پہلی' بات تو یہ'ھے کہ۔میں کسی بھی مولوی یا ملا کو عالم ھر گز نہیں مانتا۔بلکہ۔ ان کو جہالت کا وہ۔ چشمہ۔ سمجھتا ھوں۔ جس سے ھمہ۔وقت جہالت' تنگ نظری' فرقہ'واریت' نفرت' فتوہ۔بازی' زعم برتری' (جو کہ۔بنیادی انسانی صفات کی نفی ھے) کا آب زھر ابلتا رھتا ھے۔ ھر ملا اسلام کی نہیں بلکہ۔اس فرقے کی نمائندگی کرتا ھے جس مدرسہ سے اس نے تعلیم حاصل کی۔
بعینہ۔طارق جمیل صاحب دیوبندی' مکتبہ۔فکر کے شعبہ۔تبلیغ کے مرکزی مبلغ ھیں۔ جن کا حلقہ۔اثر کروڑوں پر مشتمل ھے۔مگر ان کو دیگر فرقوں کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ۔خرابی یہ۔ھے کہ۔وی اور ان کے ماننے والے خود کو اسلام کا حقیقی ترجمان اور وارث سمجھتے ھیں حالانکہ۔وہ ۔صرف دیو بندی مکتبہ۔فکر کی نمائیندگی۔ کرتے ھیں۔ یہ۔لوگ زبردستی دوسروں پر اپنا مسلک تھوپنے ھیں ۔ اور جب ان پر تنقید کی جائے۔تو ان کی ساری اخلاقیات ننگی ھو جاتی ھے۔۔
جب سے طارق جمیل صاحب نے تبلیغی جماعت کی قیادت سنبھالی ھے۔ جماعت کا حلقہ۔پھیلتا ھی جا رھا ھے۔ جس میں ان کے منفرد انداز خطابت' بہترین اداکاری' ذھانت' مسلم نفسیات کا علم' موضوعات۔کا انتخاب' اخلاقیات کے سبق' حوران بہشتی کے مجسمہ۔کے خدوخال اور طول و عرض بلد۔شان رسول صلعم' شان اھل بیت علیہ۔و صحابہ۔رضوان ۔خلافت راشدہ۔ جنت۔ تو دوزخ ' میاں بیوی کے حقوق۔ والدین کے حقوق۔وغیرہ۔ غرض وہ۔موضوعات جو مسلمانوں کی عمومی اکثریت سننا چاھتی ھے۔وہ۔اس کو اپنے بیان کی مخصوص چاشنی سے ایسے بیان کرتے ھیں جس سے ایک عام جاھل مسلمان متاثر ھوئے بغیر نہیں رھتا۔وہ۔جو پہلے ھی اندھیروں میں بھٹک رھے ھیں ۔ حوران بہشتی کا سراپا حلیہ۔ جان کر جہالت کے گھٹا ٹوپ۔ اندھیروں میں چشم زدن میں پینچ جاتے ھیں پھر دنیا کی کوئی علمی و عقلی روشنی ان سچے عاشقان حوران۔کو واپس روشنی میں نہیں لا سکتی۔ انہوں نے مختلف شعبہ۔ھا ئے زندگی کے لوگوں کو کیسے متاثر کیا ھے۔ آئیے میں آپ کو اس کی ایک جھلک دکھاتا ھوں۔
سرکاری ادارے:-
ملک کا کوئی بھی قابل ذکر ادارہ۔ایسا نہیں جہاں متعین اعلی افسران کو طارق جمیل صاحب نے تبلیغی جماعت میں داخل نا کیا ھو۔اس کا نقصان یہ۔ھوا ھے کہ۔ قومی ادارے اب کھلم۔کھلا۔ تبلیغ کی ترویج و اشاعت کا کام کرتے ھیں ۔یہاں طارق جمیل اور تبلیغی ملا کو جونیئر سٹاف کو تبلیغ کیلئے بلایا جاتا ھے۔جس سے ان اداروں میں فرقہ۔بندی کو ھوا ملتی ھے۔دوسرے فرقے کے پیروکار کو کیلئے خطرہ۔محسوس کرتے ھیں۔اور ادارے اپنا اصل کام صحیح طریقہ۔سے نہیں کر رھے۔
تعلیمی ادارے!
تعلیمی ادارے اب اسلامی جمیعت طلبا اور تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکے ھیں۔ نوخیز ذھن ان کا مخصوص شکار ھیں۔سیاست اور مذھب کے ملاپ نے تعلیمی ماحول تباہ۔ کر دیا ھے۔ اب ھم ڈاکٹر'انجئنئرز' اور سائنٹسٹ۔نہیں بلکہ۔اسلام کے ٹھکیداروں پیدا کر رھے ھیں۔جن کو اپنے پیشے سے زیادہ۔لوگوں کے اسلام کی زیادہ۔فکر ھے۔
فلم اور آرٹ:-
یہ۔سوسائیٹی کے وہ۔ شعبے۔ھیں جہاں تخلیقی افراد کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے پنپنے کے مواقع میسر آتے ھیں ان کو ایسا ماحول مہیا کیا جاتا ھے کہ۔وی کسی پابندی کے بغیر آزاد ماحول میں اپنی تخلیقات کو جلا بخشیں۔ اور پھر ایسے فن پارے تشکیل پائیں جس سے پوری سوسائیٹی مستفید ھو۔ اب طارق جمیل صاحب اپنی تبلیغی فن کو استعمال کرکے بڑے بڑے فنکاروں اور اداکاروں کو مشر ب تبلیغ کر چکے ھیں۔میرے خیال میں مذھب وہ۔pesticide ھے۔ جو فنون لطیفہ۔کی فصل پر پلنے والے فنکاروں کو ختم کر دیتا ھے۔انہوں نے تو بازار حسن کے مکینوں کو بھی نہیں بخشا۔ نا جانے یہ۔شخص ایک خیالی جنت کی خاطر ھم قدر شناسوں کی دنیاوی جنت کو تباہ کرنے کے کیوں درپے ھے۔اب اس ملک میں آرٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ آرٹ اور فنون کا کوئی مذھب نہیں ھوتا۔لیکن یہ۔ان کو بھی دیوبندی بنانے میں کوشاں ھے۔
کھیل!
کرکٹ وہ۔کھیل تھا جو پاکستان کی پیچاں تھا۔ چونکہ۔یہ۔ایک خالص انگلش کھیل ھے جس کو انگریز انڈیا لیکر آیا۔ لہذا ایک زمانے تک اس کا اندرونی ماحول وحی تھا۔اور ماحول سے پاکستان نے عظیم کھلاڑی پیدا کئے۔ مگر برا۔ ھو اس طارق جمیل کا اسکی نظر بد وھاں بھی پینچ گئی۔ جنرل ضیا ء کی مہربانی سے طارق جمیل وھاں بھی داخل ھو گئے۔یوسف یوحنا کو ایک پلاننگ سے مسلمان کیا گیا۔ (اگر یہی کام انڈیا میں کسی مسلمان کے ساتھ ھوتا تو سوچو کیا ھوتا یا پاکستان میں کوئی مسلمان عیسائی ھو جائے) اب ٹیم کی کامیابی کا انحصار کارکردگی پر نہیں بلکہ۔دعاوں پر ھے۔ھمارے کیسے کیسے کھلاڑی تھے۔سعید انور' انضمام الحق' مشتاق'ثقلین۔ جو اب داڑھیوں میں منافقت کی چلتی پھرتی تصویریں ھیں۔ اب تو کرکٹ ٹیم میں سلیکشن براستہ۔رائے ونڈ۔ھوتی ھے۔
سرمایہ۔دار اور بزنس کمیونٹی:-
طارق جمیل صاحب کا 80% حلقہ۔اثر صنعتکاروں' شرمایا کا وں اور بڑے بڑے کاروباری لوگوں پر مشتمل ھے۔ جو تبلیغی جماعت کو سالانہ۔کروڑوں کے نذرانے دیتے ھیں ۔ ان کے ساتھ حج اور عمرے اور بیرونی دورے کرتے ھیں ۔نواز شریف اور اسی قماش کے کرپٹ سیاست دان جن کے درباروں میں طرق جمیل صاحب حاضر ھوتے ھیں اور دعاوں کے عوض اپنی مرادیں بھر لاتے ھیں۔ صرف فیصل آباد کی کاروباری شخصیات سالانہ کروڑوں روپیہ۔تبلیغی جماعت کو دیتی ھیں۔
ذاتی زندگی:-
طارق جمیل صاحب کی ذاتی زندگی کا پیغمبر اسلام کی ذاتی زندگی سے دور دور کا کوئی تعلق نہئں۔ ایک مبلغ کی حیثیت سے رات دن عوام کو سنت رسول صلعم کی تبلیغ کرنے والے کی ذاتی زندگی۔میں بنگلے' گاڑیاںاور انواع و اقسام کے کھانے' پوری دنیا کے شیر سپاٹے' حج عمرے جن پر سالانہ۔کروڑوں کے اخراجات۔ ظاہر ھے جب اتنے بڑے بڑے سرمایا۔ کار جنتی ٹکٹ کے عوض اپنی دولت نچھاور کر رھے ھوں تو اس طرح کا طرز زندگی تو بنتا ھے۔ اپنا علاج یورپ میں اور عوام کیلئے کھجور' شہد۔آور کلونجی۔ اپنی زندگی میں ھر جدید آشا ئش۔ مگر عوام کو صبر اور دعاوں پر لگایا ھوا ھے۔ کیا جاتا ھے کہ۔ان کا تعلق ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ھے۔مجھے بتایا جائے۔کہ۔اور کتنے زمیندار ھیں جو سارا سال اس تواتر سے بیرونی دورے کرتے ھیں۔
طارق جمیل صاحب دھشت گردی کے سب سے بڑے پروموٹر بھی ھیں ۔انہیں نے آج تک کسی دھشت گرد کی مذمت نہیں کی۔ بلکہ۔زیر تربیت خود کش حملہ۔آوروں کو ان کی حوران بہشتی کی وڈیوز دکھائی جاتی ھیں تاکہ۔سفر آ خرت۔ کی طرف روانہ۔ھوتے ان کے پاوں نا ڈگمگا جائیں۔ سعودی شاھی خاندان سے ان کے خصوصی مراسم ھیں ۔لہذا انکی ساری تبلیغ سعودیہ۔اور پاکستانی سرمایا کاروں کے مفادات کے تحفظ کا ایک مضبوط ذریعہ۔ھے۔ ایک شخص کو زندگی میں کتنے حج اور عمرے کرنے چاھئیں۔ جبکہ
آپ کے ملک میں 40%لوگ غربت سے نیچے زندگی گزار رھے ھوں ۔کیا آپ بتا سکتے ھیں کہ۔یہ۔شخص تبلیغ کی غرض سے سہی۔کبھی چند دن کیلئے۔ کسی کچی بستی میں جا کر رھا ھو۔ وی کیوں جائے۔وہ۔تو فائیو۔سٹار مبلغ ھے۔وہ۔ تو ھو آئی سفر بھی بزنس کلاس میں کرے۔ھے۔ جب قاضی حسین احمد اور جنید جمشید کا انتقال ھوا تو اس نے سارے غیر ملکی دورے منسوخ کر کے نا صرف ان کی نماز جنازہ۔پڑھائی بلکہ۔اس کی ھے ہچکیوں۔کو اس وقت تک بریک نا لگی جب تک اس نے ان کو خواب میں اپنی بیان کردہ۔حوران بہشتی کے ساتھ متع کرتے نا دیکھ لیا ۔مگر جب ھم ری دھرتی کا سب سے اچھا انسان دوست عبدالستار ایدھی کی وفات ھوئی۔ تو بہت سے ملا نے اس کے بارے جو کلمات کیے اس کو نا صرف چپ لگ گئی۔ بلکہ۔ان دنوں پردہ'سکرین سے غیب ھو گئے۔
دوستو بیشمار۔ واقعات ھیں ۔جن کا وقتا فوقتا۔ذکر ھوتا رھے گا۔ مگر میں ایک نتیجے پر پہنچا ھوں ۔کہ۔طارق جمیل صاحب کا ایک کمال ۔ایسا ھے جس کا اعتراف نا کرنا کم زرفی۔ھوگی۔
طارق جمیل صاحب اپنے حسن بیان ' کمال کی اداکاری' سے اس ملک کے ھر طبقہ۔کے اندر تبلیغ کے نام پر جہالت کا جتنا اندھیرا پھیلا چکے ھیں اب ھزاروں اھل علم اور سائینسدان مل کر بھی اسے روشنی میں نہیں بدل سکتے۔
ھمارا معاشرہ۔کسی بیرونی دشمن کی سازش یا جنگ سے نہیں بلکہ۔ملا کی پھیلائی جہالت ۔سے برباد ھوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“