طارق عزیز (28 اپریل: 1936ء وفات: 17 جون 2020ء) ممتاز اداکار ، صدا کار ، ادیب ، شاعر ، کالم نویس اور نیوز کاسٹر طارق عزیز پی ٹی وی کے پروگرام نیلام گھر کے حوالے سے سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ جبکہ بلا شبہ بطور شاعر بھی ان کو ممتاز مقام حاصل ہے طارق عزیز عمر کے لحاظ سے سید فخرالدین بلے سے محض چھ برس اور بائیس دن چھوٹے تھے لیکن اس کے باوجود ان کو ہمیشہ فخرالدین بلے کا بے حد احترام کرتے دیکھا گیا ہے۔ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔ اورینٹل کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ جب پاکستان ٹیلی ویژن نے نومبر 1964ء میں لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز بھی پی ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں پی ٹی وی کے پہلے نیوز کاسٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ستر کی دہائی میں پی ٹی وی لاہور سے نیلام گھر کا آغاز ہوا جو تقریباً چالیس برس سے نشر ہوتا رہا۔ بعد ازاں اس پروگرام کا نام بدل کر طارق عزیز شو رکھا گیا، پھر بزمِ طارق عزیز کے نام سے جاری رہا ۔
ٹیلی ویژن کے ساتھ جناب طارق عزیز نے فلم انڈسٹری میں بھی قدم رکھا اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی پہلی فلم شباب کیرانوی کی انسانیت تھی جس میں انہوں نے زیبا، وحید مراد اور فردوس کے ساتھ کام کیا۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ‘سالگرہ’، ‘قسم اس وقت کی’،’ کٹاری’ اور ‘چراغ کہاں روشنی کہاں’ شامل ہیں۔ طارق عزیز نے کالم نگاری بھی کی۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ “داستان” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہیں سیاسی، سماجی، فلمی، ادبی اور سپورٹس کی مشہور شخصیات کے انٹرویوز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ طارق عزیز نے عملی سیاست میں بھی قدم رکھا اور ستر کی دہائی میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی سیاست سے دل برداشتہ ہو گئے اور پی پی پی سے اپنی وابستگی ختم کر دی۔ بعدازاں پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔1997ء میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے۔
جب ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی تصنیف مجید امجد کی داستان محبت کا مسودہ سید فخرالدین بلے کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ میں نادم ہوں کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ کام تاخیر سے ہی مگر پایۂ تکمیل کو تو پہنچا۔ بعد ازاں اس کتاب کو سید فخرالدین بلے نے اپنے قائم کردہ اشاعتی ادارے معین اکادمی لاہور کے زیر اہتمام زیور طباعت سے آراستہ کیا۔ ایک روز برادرم خالد احمد اور ڈاکٹر اجمل نیازی جناب طارق عزیز کے ہمراہ اچانک سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر پہنچے تو اتفاق سے میں گھر سے باہر ہی کھڑا تھا اور ڈاکٹر حسن رضوی کو رخصت کرنے ہی باہر تک آیا ہوا تھا اور میری نظر ان معزز مہمانان گرامی پر پڑی وگرنہ تو شاید میں حسن رضوی کو ان کے گھر تک ہی رخصت کرکے آتا کیونکہ ان کی رہائش گاہ ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھی۔ میں نے بہت تعظیم سے مہمانان گرامی کا استقبال کیا تو طارق عزیز صاحب نے دریافت فرمایا کہ بلے صاحب تشریف رکھتے ہیں تو میں نے عرض کیا جی بالکل آئیے آئیے برادر محترم خالد احمد اور اجمل نیازی نے کہا شکر ہے کہ آپ سے ملاقات ہوگئی کیونکہ ہم طارق عزیز صاحب سے راستے میں یہی کہہ رہے تھے کہ اگر فخرالدین بلے صاحب نہ بھی ملے تو ہمارا بھائی ظفر معین ہمارا مسئلہ حل کردے گا۔ جب مہمان گھر کے اندر قافلہ پڑاؤ ہال میں تشریف لے آئے تو برادر محترم اجمل نیازی نے کہا میرے بھائی ظفر معین بلے آواز جرس کا مجید امجد نمبر اور معین اکادمی کی شائع کردہ مجید امجد کی داستان محبت جو آپ نے عطا کی تھی غلطی سے اسرار زیدی اپنے ساتھ لے گئے ، ان سے فون پر بات ہوئی ہے وہ دو تین روز تک مجھے کسی کے ہاتھ بھجوا دیں گے۔ میں نے جب طارق عزیز صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا مجھے تو آج ہی درکار ہے ، آپ طارق عزیز صاحب کو آواز جرس کے مجید امجد نمبر کا ایک شمارہ اور مجید امجد کی داستان محبت کا ایک نسخہ فراہم کروا دیں۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ ایک کیوں ، آپ دس نسخے لیجے ، میں ابھی اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ قافلہ پڑاؤ ہال میں قبلہ سید فخرالدین بلے بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے برادرم خالد احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور طارق عزیز صاحب کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور طارق عزیز سیے کہا کہ آپ آج کیسے راستہ بھول گئے تو برادرم اجمل نیازی نے کہا کہ بلے بھائی دراصل طارق عزیز صاحب کو آج مجید امجد کی محبت یعنی کہ آپ کے پبلشنگ ہاؤس معین اکادمی کی شائع کردہ کتاب مجید امجد کی داستان محبت اور آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا ہفت روزہ آواز جرس کا مجید امجد نمبر کھینچ لایا ہے۔ اسی اثنا میں ہم نے کتاب کے چند نسخے اور آواز جرس کے چند شمارے لاکر طارق عزیز صاحب کے قریب رکھی ہوئی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیئے۔جناب طارق عزیز نے ڈرائنگ روم کی دیوار پر آویزاں آنس معین کے پورٹریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا ظفر معین بلے یہ جو آنس معین کی تصویر ہے بہت خوبصورت ہے اس کے نیچے آنس معین کا یہ شعر بھی لکھوا دیں کہ
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے ، سمندر نہیں دیکھا
طارق عزیز کا اتنا کہنا تھا کہ سب ہی احباب نے اپنے حافظے میں محفوظ آنس معین کے اشعار سنانے شروع کر دیئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے موضوع گفتگو مجید امجد سے آنس معین ہوگیا۔ دیر گئے آنس معین کے حوالے سے احباب گرامی نے بھرپور اور سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد سید فخرالدین بلے نے برادر خالد احمد اور ڈاکٹر اجمل نیازی سے گزارش کی آپ اپنا اپنا کلام عطا فرمائیے تاکہ پھر عزیزم طارق عزیز سے ان کا کلام سنا جائے ، ویسے بھی آج یہ کئی روز بلکہ ڈیڑھ دو ماہ گزرنے کے بعد قابو آئے ہیں۔ اس شعری نشست کے آغاز میں ڈاکٹر اجمل نیازی ، برادر خالد احمد اور پھر جناب طارق عزیز سے ان کا پنجابی اور اردو کلام سنا گیا۔
ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
خالد احمد
اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اک گھر ہے تنہا یادوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اجمل نیازی
طارق عزیز کے مشہور زمانہ اشعار میں سے ایک شعر یہ بھی ہے
ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق ، کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی، تو سب مرناچھوڑ دیں
کلام سنانے کے بعد طارق عزیز نے سید فخرالدین بلے سے مٹی کا قرض سنانے کی فرمائش کی تو جناب خالد احمد نے کہا کہ مٹی کا قرض کے بعد وہ غزل کہ جس کا شعر ہے
دل کی دھڑکن اگر نہ بند ہوئی
کیسے گزرے گی زندگی چپ چاپ
ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب ریڈیو پاکستان سے اپنا ہفتہ وار کالم پڑھ کر فارغ ہوٸے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلےشاہ صاحب کی اقامت گاہ (جی۔او۔آر۔تھری) پہنچے ان کے ہمراہ خالد احمد بھاٸی اور نجیب احمد صاحب بھی تھے اور کچھ ہی دیر بعد طارق عزیز صاحب اور عارفانہ کلام پڑھنے میں بے مثل مقبولیت پانے والے اقبال باہو بھی پہنچے۔ اختر حسین جعفری صاحب کو پک کرکے لانے کی ذمہ داری جناب ابصارعبدالعلی صاحب کی تھی کیوں کہ ہمساٸیوں کے بھی تو حقوق ہوتے ہیں ۔ باباجانی کبھی خود چین و قرار کے ساتھ نہیں بیٹھے تو ہمساٸیوں تک بھی تو فیض پہنچنا ضروری ہے اس روز احمد ندیم قاسمی صاحب کا موڈ کچھ کوفت زدہ سا لگ رہا تھا ۔ قاسمی صاحب بابا جانی سے کچھ یوں مخاطب ہوٸے بَلّے صاحب حد ہی ہوگٸی خدا معلوم کیا ہوگا ان عاقبت نا اندیشوں کا ۔ باباجانی نے دریافت کیا ہوا تو پھر ان کو قاسمی صاحب نے بتایا کہ میں تو برسوں سے ریڈیو سے وابسطہ ہوں اور میرا مسلسل ریڈیو سے اور وابستگان ریڈیو سے رابطہ بھی ہے۔ آج جب ریڈیو پر ایک انتہاٸی نااہل شخص سے رابطہ ہوا تو محسن ملک و ملت جناب سید مصطفی علی ھمدانی بہت یاد آٸے ۔ کیا نفیس انسان تھے ریڈیو پاکستان کی پہچان اور جان۔ پیشہ ورانہ مہارت میں ان کا کوٸی ثانی نہ تھا نہ ہے۔ جب آج ریڈیو پر ایک نااہل شخص سے سابقہ پڑا تو میں نے اس سے کہا کہ کاش آج سید مصطفی علی ھمدانی حیات ہوتے تو وہی آپ کو کچھ سمجھا سکتے تھے لیکن نہیں ایسا ممکن نہیں ہوسکتاتھا کہ آپ اور مصطفی علی ھمدانی صاحب بیک وقت ریڈیو کی اس چھت تلے اکٹھے ہوتے۔ بس اتنی ہی بات کرکےاحمد ندیم قاسمی صاحب نے بہت کچھ کہہ ڈالا تھا۔ قاسمی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوٸے ابصارعبدالعلی گویا ہوٸے ہاٸے ہاٸے کیا ہیرا راہبر و راہنما تھے استاد محترم جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب ۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ بھی کمال شفقت فرمایا کرتے تھے اور بہت سی کام کی باتیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز میں پنپنے والی داخلی سیاست سے دور اور محفوظ رہنے کا مشورہ دیا کرتے۔ ہمزاد دا دکھ کے خالق اور مقبول ٹو وی شو نیلام گھر سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے جناب طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور ابصارعبدالعلی صاحب کے موقف کی تاٸید کرتے ہوٸے فرمایا کہ پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن ( کے قیام ) کی عمروں میں جو فرق ہے باپ بیٹے یا ماں بیٹے کی عمروں میں بھی اتنا ہی فرق ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان کے سامنے پاکستان ٹیلی وژن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی ماں باپ کے سامنے اولاد کی یا استاد کے سامنے شاگرد کی اور میں تو فخریہ طور پر جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب کو اپنا گرو۔ اور راہبر بلکہ روحانی استاد سمجھتا ہوں۔ محترمہ توصیف افضل صاحبہ نے اپنی یادوں کے حوالے سے جناب مصطفی علی ھمدانی شاہ صاحب کو خراج پیش کیا. اختر حسین جعفری صاحب نے عقیدت مندانہ انداز میں مصطفی علی ھمدانی کو خراج پیش کیا اور پھر فرمایا ہم اپنے اسلاف اور محسنین ملت سے آنکھیں چرا کر کہیں کے نہیں رہیں گے یہ بات نٸی نسل کو سمجھ لینی چاہیے۔ یہ بات سن کر طارق عزیز صاحب نے فرمایا اختر حسین جعفری ۔ احمد ندیم قاسمی ۔ سید فخرالدین بلے صاحب اور منیر نیازی اور خالد احمد میرے پسندید شاعروں میں سے ہیں پھر طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آٸی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرماٸیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں ۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرماٸیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب مسکراٸے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ ، میں سمجھ نہیں پارہا ۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کےلیے ۔ محمد طفیل صاحب کو نقوش کےلیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں) ادب لطیف کےلیے اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کےلیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کےلیے اور طفیل ہوشیارپوری صاحب کو محفل کےلیے بارہا کلام کی فرماٸش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جبکہ میں خود فنون کےلیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انہیں جنگ اور پاکستان کےلیے انٹرویو دے دیں حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہوگا کہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انہیں انٹرویو دے دیا ۔
طارق عزیز وسیع المطالعہ تھے طارق عزیز کی پنجابی شاعری کے مجموعہ ہمزاد دا دکھ کو بہت مقبولیت اور پزیرائی حاصل ہوئی۔ جشن تمثیل انیس سو بیاسی کی شکل میں تھیٹر کی تاریخ کا انوکھا اور فقیدالمثال کارنامہ سرانجام دینے پر سید فخرالدین بلے کو مبارکباد پیش کرنے میں سبقت لے جانے والوں میں طارق عزیز بھی شامل تھے۔ پروفیسر یوسف حسن کا اکثر راولپنڈی سے لاہور آنا ہوا کرتا تھا اور شاید ہی ایسا کبھی ہوا ہو کہ وہ لاہور آئے ہوں اور حضرت احمد ندیم قاسمی اور سید فخرالدین بلے کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے ہوں اور برادر محترم خالد احمد ، نجیب احمد اور ڈاکٹر اجمل نیازی کو اپنی آمد کی اطلاع نہ کی ہو۔ پروفیسر یوسف حسن نے قافلہ کے متعدد پڑاؤ میں شرکت بھی فرمائی۔ قافلہ کے ہی ایک پڑاؤ میں پروفیسر یوسف حسن نے شرکائے قافلہ پڑاؤ کو بتایا کہ سید فخرالدین بلے جب بطور ڈائریکٹر راولپنڈی آرٹس کونسل کے خدمات انجام دے رہے تھے تو آرٹس کونسل تخلیقکاروں ، ادیبوں اور شاعروں غرض فنون لطیفہ سے متعلقین کا دوسرا گھر سمجھا جانے لگا تھا۔ ہم سب ہی سید فخرالدین بلے صاحب کے مستقل مہمان ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر یوسف حسن نے بتایا کہ فخرالدین بلے صاحب کے دور میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ادبی و ثقافتی شاندار اور یادگار تقاریب کا انعقاد ہوا اور انہی میں سے ایک تقریب طارق عزیز کے پہلے شعری مجموعے ہمزاد دا دکھ کی تقریب رونمائی بھی تھی۔ طارق عزیز نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بے شمار ایوارڈز حاصل کیے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز بھی ملا ۔ طارق عزیز ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن، فلم انڈسٹری، کالم نگاری اور ادب کاایک درخشندہ ستارہ ہے جس کی سب سے بڑی پہچان پی ٹی وی کا وہ طویل ترین پروگرام ہے جو نیلام گھر سے شروع ہو کر طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز تک پانچ دہائیوں سے جاری و ساری رہا ۔ پروگرام کا مشہور ابتدائیہ ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں سنتے اور کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے ، آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید… پروگرام کے اختتام پر لگایا جانے والا نعرہ پاکستان پائندہ باد ۔ طارق عزیز ۔ 17. جون۔ 2020 ء کو انتقال کرگئے ۔ طارق عزیز کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ۔ انھوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائیداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کر دی ۔ ان کی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل ان کی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کروا دی گئی ۔
طارق عزیز نے سامعین کی فرمائش پر اپنا کلام سنا رہے تھے جبکہ بانو قدسیہ ، اشفاق احمد ، قافلہ کے مستقل میزبان سید فخرالدین بلے ، منیر نیازی ، صدیقہ بیگم ، خالد احمد ، اجمل نیازی ، اختر حسین جعفری ، اعزاز احمد آذر ، سرفراز سید ، اسلم کولسری ، ابصار عبدالعلی اور دیگر تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ بہت انہماک سے طارق عزیز کا کلام سماعت فرما رہے تھے۔ اپنی دو غزلیں اور ایک نظم سنانے کے بعد طارق عزیز نے کہا مجھے فی الحال تو اپنا یہی کلام یاد آیا تو میں نے پیش کردیا ۔ یہ سن کر اسلم کولسری نے اپنے مخصوص انداز میں ایک اشارہ سا دیا تو طارق عزیز نے کہا ہاں ، ہاں ، وہ تو یاد ہے میاں سناتا ہوں۔ یہ کہہ کر اپنا یہ کلام سنایا۔
طارق عزیز کی پنجابی شاعری سے انتخاب
….
ربِّ کریم
ایسے اسم سکھا دے سانوں
ہرے بھرے ہو جائیے
گہرے علم عطا کر سانوں
بہت کھرے ہو جائیے
….
رَبِّ اَرِنی
اَج دی رات میں کلّا وَاں
کوئی نئیں میرے کول
اَج دی رات تے میریا ربّا
نیڑے ہو کے بول
….
سچّا شرک
دُور پرے اَسمان تے
رَب سچّے دا ناں
ہیٹھاں ایس جہان وِچ
بس اِک ماں اِی ماں
….
بلوچا وے۔ ۔ ۔
جے کوئی میرے جیہا ملے تاں
اوس نال پیار ودھاویں ناں
اوس دے درد ونڈھاویں ناں
اوس نوں اِنج تڑفاویں ناں
اوّل میرے جیہے کسے نال
پیار دی پینگ ودھاندے نئیں
جے تقدیریں اکھ لڑ جاوے
فیر او اکھ چروندے نئیں
ساری حیاتی اوس بندے نوں
اپنے دلوں بھلاؤندے نئی
…
مرن والے دا زندہ شعور
میرے لئ تے زہر سی
پُھلاں دی خوشبو
میرے لئ نہ دوستا
ایڈا اُچا رو
…..
طارق عزیز نے اپنا یہ کلام سنا کر کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مجھے اپنے سے زیادہ دوسرے شعراء کلام یاد رہتا ہے اور یہ کہہ کر طارق عزیز نے دیوار پر آویزاں آنس معین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اب آپ کی خدمت میں آنس معین کا کلام سناتا ہوں۔ سب سے پہلے طارق عزیز نے آنس معین کی جو غزل سنائی اس کا ایک شعر نذر قارئین ہے
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ، ہونٹ ہلائے گا ، کوئی اور
آنس معین
یہ غزل سنانے کے بعد آنس معین کی ایک کرب سے لبریز نظم دانشور کہلانے والو ، سنانی شروع کی تو بانو قدسیہ اور صدیقہ بیگم کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انہوں نے سر سے سرکتے ہوئے آنچل کو سنبھالا اور اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے اشفاق احمد صاحب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خاں صاحب نے آنس معین کی شاعری کا جو ناقدانہ تجزیہ فرمایا مجھے تو وہ پڑھ کر بھی رونا آگیا تھا۔ پھر طارق عزیز نے بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے بے شمار شعراء کو پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے لیکن آنس معین جیسا جواں سال ، کرب آشنا اور یکسر منفرد کا چونکا دینے شاعر میں نے نہ دیکھا نہ پڑھا۔ آنس معین اور شکیب جلالی جیسے رحجان ساز شعراء بےشک لاثانی اور لافانی ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کرنے کے بعد طارق عزیز نے آنس معین کی شاہکار نظم عدم سے آگے ، سنائی۔ یہ نظم جیسے ہی ختم ہوئی تو خود طارق عزیز نے بھی اور دیگر شعرائے قافلہ پڑاؤ نے آنس معین کی شاعری کے حوالے سے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا
اور پھر طارق عزیز نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے آنس معین کا یہ شعر سنایا
بہت سی باتیں ابھی وضاحت طلب ہیں لیکن
مری کہانی کا حسن ہی اختصار میں ہے
صدیقہ بیگم خاموشی اور افسردگی سے تمام تر گفتگو سنتی رہیں تو طارق عزیز نے صدیقہ بیگم کو مخاطب کرکے مظفر وارثی کا یہ پڑھا
تم بھی تو مظفرؔ کی کسی بات پہ بولو
شاعر کا ہی لفظوں پہ اجارا نہیں ہوتا
(مظفر وارثی)
جب قافلہ کا پڑاؤ اختتام پزیر ہونے کو تھا تو اشفاق احمد صاحب نے طارق عزیز کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے جو فرمایا اور جو سنایا ہم نے پوری توجہ سے سنا لیکن کوئی فرمائش نہیں کی ، اس پر طارق عزیز نے کہا کہ سرکار آپ حکم فرمائیں ، آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ اشفاق احمد خاں صاحب نے کہا کہ حکم چلانے کی ہماری مجال کہاں ، حکم چلانے کے لیے تو محترم سید فخرالدین بلے صاحب نے ظفر معین بلے کو رکھا ہوا ہے کہ جو مجھے تو مجھے بانو کو بھی ایسے حکم دیتے ہیں کہ میں خود حیران رہ جاتا ہوں ، میں ہی کیا اس محفل میں موجود کون ہے کہ جس پر ظفر معین بلے کا حکم نہیں چلتا ، یا جو ظفر معین بلے کے احکامات سے محفوظ رہا ہو ،ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا مجھے بھی ظفر معین بلے حکم صادر کرتا ہے اور حکمیہ انداز میں بات کرکے کہتا ہے کہ میری اس فرمائش کو گزارش نہیں بلکہ حکم سمجھا جائے۔ برادر محترم خالد احمد نے کہا کہ میں جزوی طور پر اشفاق احمد صاحب اور عزیزم اجمل نیازی کی رائے سے اتفاق کرسکتا ہوں کیونکہ مجھے ظفر معین بلے نے کبھی کچھ بھی حکمیہ انداز میں نہیں کہا ، ہمیشہ عاجزانہ انداز میں گزارش ہی کی البتہ ہمارے سینئر جناب جعفر شیرازی کی چند ماہ قبل قافلہ کے ہڑاؤ میں سالگرہ منانے کا اہتمام کیا تو اس سے قبل ظفر معین بلے نے جعفر شیرازی صاحب کو خط میں لکھا کہ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ یکم جنوری کی شام پانچ بجے سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر پیش ہوجائیے گا ایسا کوئی جب ہی کہہ سکتا ہے کہ جب اس کو دوسرے پر مان ہو اور اس کا ذکر خود جعفر شیرازی نے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے کہ جو شائع بھی ہوچکی ہے۔ برادر محترم خالد احمد نے کہا کہ فخرالدین بلے بھائی صاحب کی محبت کے انداز بھی انوکھے اور مختلف ہیں ظفر بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کے جواب میں اشفاق احمد خاں صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ہم سے کسی کی مجال ہے کہ بانو سے یہ کہہ سکے کہ ٹھیک شام پانچ بجے پہنچ جائیے گا وگرنہ میں آپ کو اٹھا لاؤں گا۔ خاں صاحب کی اس بات پر شرکائے قافلہ پڑاؤ نے زوردار قہقہ لگایا اور بانو آپا نے اپنے اور صدیقہ بیگم کے بیچ مذید گنجائش پیدا کرکے ظفر معین بلے کو اپنے پاس بلا بٹھایا اور کہا بالکل مجھے اور صدیقہ بیگم کو کچھ بھی کہنے اور کرنے کا اختیار ہے ظفر معین بلے کے پاس۔ اشفاق احمد خاں صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ بہرحال ہم تو گزارش ہی کرسکتے ہیں کہ گناہ کیہ اے ، ثواب کیہ اے ، سنا دیجے۔ طارق عزیز نے اپنا جو کلام سنایا ، وہ شاہکار آپ بھی ملاحظہ فرمائیے
طارق عزیز : گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے
گناہ کیہ اے ، ثواب کیہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے
میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی
ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا
تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے
نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے
جناب طارق عزیز نے ممتاز اور سینئر شاعر احمد ندیم قاسمی ، سید فخرالدین بلے ، مسعود منور ، جون ایلیاء ، رسا چغتائی ، خالد احمد ، رام ریاض ، اسلم کولسری ، منیر نیازی اور شہزاد احمد کے بہت سے اشعار شرکائے قافلہ پڑاؤ کو اپنے حافظے کے بل پر سنائے۔ برادرم خالد احمد نے کہا ماشاء اللہ طارق بھائی کیا بلا کا حافظہ ہے آپ کا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی شرارت کے سے انداز میں کہا کہ طارق بھائی اپنی پسندیدہ نظمیں تو سنائیں تو طارق عزیز نے احمد ندیم قاسمی ، مجید امجد ، سید فخرالدین بلے ، اختر حسین جعفری ، منیر نیازی ، امجد اسلام امجد ، جون ایلیاء ، کی شاہکار نظمیں سنائیں۔ تمام سامعین نے خوب کھل کر داد دی اور پھر بانو قدسیہ آپا نے کہا کہ کیا آنس معین کی کوئی اور نظم بھی آپ کو یاد ہے تو طارق عزیز نے کہا جی جی بالکل میں پیش کرتا ہوں آنس معین کی ایک اور شاہکار نظم قامت اور نظم قامت سنانے کے ساتھ ہی میں اجازت چاہوں گا ، بلے بھائی کے قافلہ پڑاؤ کو جلا بخشتے رہیے گا ، آپ لوگ سمجھ لیجے گا کہ آج کا طارق عزیز شو اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد طارق عزیز نے آنس معین کی شاہکار نظم قامت سنائی اور سناتے ہی پاکستان ، پائندہ باد کا نعرہ لگا کر رخصت ہوگئے۔