تاریخ پنجاب کا ایک گم شدہ عہد (پہلو )
پنجاب کی تاریخ پر بہت سی کتابیں اور کالم آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے ۔ لیکن ہر چیز کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ اس طرح پنجاب کی تاریخ کے بھی بہت سے پہلو ہیں۔ ان پہلووں میں کچھ پہلو تاریخ کے چکر میں کھو گئے ۔ ان کھوئے ہوئے دنوں کی یاد اس کالم میں تازہ کرنے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔تاریخ پنجاب میں گم شدہ پہلو میں ایک پہلو نیلی بار میں ہونے والی جنگ اور بعد از بار کی کٹائی ہے۔ آج میں نے اس پر یہ کالم لکھا ہے ۔ جیسا کہ آپ کے علم میں پنجاب میں 1849ء میں راج قائم ہوا اور خالصہ دربار کا کامل خاتمہ ہو گیا تھا۔ راج قائم ہونے سے قبل مشہور دوسری سکھ جنگ تو ہوئی ہی تھی لیکن اس کے فورا بعد جب پنجاب میں کمپنی کی باقاعدہ حکومت قائم ہوئے کچھ ہی سال گزرے تھے کہ آل انڈیا سطح پر انگریزوں کے خلاف چمڑے کی گولیوں سے شروع ہونے والی بغاوت پھیل گئی۔
نیلی بار میں رائے احمد خان کھرل و دیگر کی راج کے خلاف جنگ:
پنجاب میں کمپنی کی باقاعدہ حکومت سے کچھ ہی سال گزرے تھے کہ آل انڈیا سطح پر انگریزوں کے خلاف تھڑے کی گولیوں سے شروع ہونے والی بغاوت پھیل گئی۔ جن کو بعد از عذریا1857ء کی جنگ آزادی کا نام دیا گیا۔ میرٹھ ان چھاؤنیوں میں سے ایک تھا جن میں سب سے پہلے سپاہیوں نے بغاوت کی۔ لیکن وہاں س یہ خبر فوجی ذرائع (آج کل کی اصلاح میں انٹیلی جنٹس) کے ذریعے ٹیلی گرام ہو گئی۔ جس کے بعد اکثر جگہوں پر انگریز فوجی افسروں نے دیسی یونٹیں توڑ دی تھی۔ جن علاقوں میں یہ کام مکمل پر امن طور پرہو گیا ۔ ان میں پنجاب بھی شامل تھا۔ لیکن اس کے باوجود جب بغاوت پھیلی تو لاہور میں میاں میر گاؤں میں چھاؤنی بنائی گئی تھی۔ اس میں انفنٹری رجمنٹ نے تلواروں اور تیر کمانوں سے مسلح ہو کر اپنے کمانڈنگ افسر کو مار دیا۔ اس کے علاوہ جالندھر ملتان فیروزپور اور پنڈی میں بھی بغاوت ہوئی۔ وسطی پنجاب میں جھامرہ ریاست تھی اس دور میں جس کا نواب اس وقت رائے احمد خان کھرل تھا۔ اس وقت رائے احمد خان کی عمر تقریباً75سال سے زائد تھی۔ انہوں نے جنگل میں موجود تمام اقوام کو اکٹھا کیا اور مشترکہ فوج بنا کر نہایت جرات سے انگریزی بقایا جات کا مقابلہ کیا۔ لیکن انگریزوں نے جب دہلی میں فیصلہ کن معرکہ کے بعد مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور مرزا مغل اینڈ کمپنی کا انجام بہت برا ہوا اور بادشاہ ظفر کو رنگون پنشن دے کر روانہ کیا گیا تو اس وقت بھی مرکز میں ہارنے کے باوجود پورے ہند میں بہت سے نواب اور سرداروں نے حق خودارادیت کے لیے جنگ کی۔ جن میں اودھ کی نواب حضرت محل اور نیلی بار کے نواب احمد خان کھرل نمایاں ہیں۔
انگریزی حکومت نے دہلی میں بادشاہ ظفر کے خلاف مقدمہ چلایا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فوجی طاقت کے ذریعے آزادی کے متوالوں کو قتل کیا۔ اس طرح کے ایک معرکہ میں رائے احمد خان کھرل بھی مارے گئے۔ گوکیرہ جو کہ اس وقت چھاؤنی تھی ۔ اس کے قریب نواب آف جھامرہ کو مارا گیا اور ان کا سر قلم کر کے عام ملاحظہ کے لیے رکھا گیا ۔ لیکن ان کے چاہنے والوں نے سر کو حاصل کر کے لاش کے ساتھ دفن کیا۔ نیلی بار کا یہ شیر انگریزی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا لیکن مرکزی قیادت کے ہارنے کے بعد اکیلا کچھ نہ کر سکا۔
بار کی کٹائی اور پنجاب میں آباد کاری۔ چناب اور منٹمگری کالونی کا قیام
انگریزی حکومت کو برطانیہ میں اشیاء خوردونوش اور سستے خام مال کی ضرورت صنعتی انقلاب کے بعد سے شروع ہوئی جو کہ لنکا شائر اور مانچسٹر اور دیگر صنعتی زون کے پھیلوں سے مانگ میں مزید اضافہ ہوا۔ اب جب امریکہ میں برطانیہ جنگ ہار کر خالی ہاتھ واپس آیا تو اس کو نیا مضبوط علاقہ چاہیے تھا۔ جہاں پر سے سستی اور کپاس ملے۔ پنجاب میں قبضہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی ۔ اس لیے راج آنے کے بعد نہروں کی کھدائی اور ریل کی لائن ڈالی گئی ۔ جس کے بعد پنجاب12میں 8/9پاروں میں آباد کاری کی سکیم بنائی گئی۔ جس کے تحت ایک طرح تو بڑی زمینداری دی گئی۔ اسی دور میں وسطی ہند میں تعلق دار کلچر کی ابتداء ہوئی۔ اسی دور میں پنجاب کی بار کٹائی اور کچھ اضلاع میں بڑی زمینداری اور کچھ میں Economic holdingدی گئی۔ جس کے تحت ایک انسان کے خاندان کو آدھا مربہ (ایکڑ12-1/2) اور ایک گھوڑی کی کفالت کے لیے ایک مربہ (ایکڑ25) الاٹ کئے گئے۔ جنگل میں رہنے والے لوگ کے لیے باقاعدہ کاشتکاری اور لگان کی ادائیگی کے نیٹ ورک میں آنا۔ ایک مصیبت تھی بڑی۔ اس لئے زیادہ تر لوگ تو الاٹمنٹ کے وقت بھاگ جاتے تھے۔ حکومت چاہتی تھی کہ یہ لوگ اپنی زمین پر توجہ دے کر اس کو فوراً سے قابل کاشت بنائے۔ جس کے دو فوائد حکومت کو ہونے تھے۔ ایک تو نہر کے پانی کا محصول اور دوسرا چونگی تیسرا لگان اور چوتھا یہ کہ یہ تمام پیداوار سستے داموں حکومت خرید لیتی تھی۔ اضافی پیداوار کا گاہک صرف حکومت یا بڑی انگریزی کمپنی ہی تھی اور ظاہر ہے جب گاہک ایک ہو گا تو ریٹ بھی اس کا ہو گا۔ دوسری طرف دیہی عوام کو روٹی اور دودھ کافی تھا اس زندگی اور دنیا میں سے ۔ پتہ نہیں کتنے ہی عشرہ لگے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آتے آتے کہ زمین کی ملکیت بہت اچھی چیز ہے ۔ لیکن تب تک وقت بہت آتے نکل چکا تھا۔