ایک لحاظ سے دیکھاجائے تو آج علم ِ لسانیات کی سالگرہ کا دن ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ انسان نے زبان، آغازِ تمدّن سے بہت پہلے بولنا شروع کردی تھی۔ انیسویں صدی سے پہلےلسانیات صرف فلسفیوں کی دلچسپی کا میدا ن ہوا کرتی تھی۔ زبان کو ایک فلسفیانہ موضوع کے طور پر سب سے پہلے افلاطون اور پھر ارسطو نے اختیار کیا۔ افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس نے اسمأ وافعال یعنی ناؤنز اور وربز کو (Nouns and Verbs) الگ الگ کیا۔ لیکن ایک باقاعدہ ڈسپلن کے طور پر دیکھاجائے تو 1786 لسانیات کی پیدائش کا سال ہے۔27 ستمبر 1786 کے روز ’’سرولیم جونز‘‘ (Sir William Jones) نے رائل ایشاٹک سوسائٹی کلکتہ کو ایک ریسرچ پیپر کے ذریعے بتایا کہ، سنسکرت، یونانی،کیلٹک اور جرمینک زبانوں میں حیران کُن مماثلتیں اور مشابہتیں پائیں جاتی ہیں۔ اس بات نے رائل ایشیاٹک سوسائٹی کو چونکا دیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ تمام زبانیں بنیادی طور پرکسی ایک ہی زبان سے شروع ہوئی ہیں؟
Sir William Jones
اگرچہ ولیم جونز پہلا شخص نہیں تھا جس کے ذہن میں یہ خیال آیا بلکہ عین انہی سالوں میں یہ خیال بیک وقت کئی لوگوں کے ذہن میں پیدا ہورہا تھا۔ بہرحال ولیم جونز کی دریافت نے اس وقت کے علمأ اور محققین کو یکلخت بے پناہ تجسس میں ڈال دیا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سرولیم جونز کی یہ دریافت چارلس ڈارون کی پیدائش سے تئیس سال پہلے اپنے وقت کے علمأ اورمحققین کی بے پناہ توجہ حاصل کرچکی تھی۔ اِس واقعہ کے بعد تو جیسے گرائمر کی دنیا میں انقلاب آگیا۔ یہ دیکھنے کی کوشش کی جانے لگی کہ ’’انڈو یوروپین زبانوں کے خاندان‘‘ میں گرامر ایک دوسرے کے ساتھ کیسے منضبط ہے۔ ان سب زبانوں کے محاورے کیسے ہیں۔ اسمأ و افعال کے رشتہ کیساہے۔ اس ساری کوشش کا بنیادی مقصد فقط مشترک جدّامجد (Common ancestor) کی تلاش ہی تھا جس کے تحت بالآخر ’’پروٹو انڈو یوروپین‘‘ کے نام سے زبانوں کے ایک مشترکہ خاندان کا اعلان کیا گیا۔
انڈو یوروپین خاندان میں موجودہ یورپ کی زیادہ تر جدید زبانیں شامل ہیں جبکہ وسطی، مغربی اور جنوبی ایشیأ کے بعض حصوں کی آبادیاں بھی انڈویوروپین زبانیں بولتی ہیں۔ قدیم اناطولیہ یعنی موجودہ ترکی میں ایک زمانے میں انڈویوروپین زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اسی طرح دورِ قدیم میں شمال مغربی چائینہ میں بھی انڈویوروپین زبانیں بولی جاتی رہیں۔ وسطی ایشیأ کا زیادہ تر حصہ منگولوں کے حملوں تک انڈویوروپین زبانیں بولتا تھا۔ فی زمانہ چار سو پینتالیس (445) انڈو یوروپین زبانیں دنیا میں بولی جاتی ہیں۔
Indo European Family
لیکن ’’نان انڈو یوروپین‘‘ زبانوں میں عربی، عبرانی ، ترکی اور چائینیز وغیرہ اہم ہیں۔ تاہم میرا ذاتی طور پر ایک مقدمہ ہے کہ عربی اور سنکسرت کا جدامجد ایک ہے اور یہ کہ قرانِ پاک میں بھی سنسکرت کے الفاظ موجود ہیں۔ لیکن اس موضوع کو زیرنظر مضمون میں چھیڑدینا مناسب نہ ہوگا۔
خیر تو یہ تسلیم کرلیا گیا کہ یہ تمام انڈویوروپین زبانیں ’’پروٹو انڈو یوروپین‘‘ خاندان سے ہی برآمد ہورہی ہیں۔ پھر انیسویں صدی میں مزید کام ہوا اور یہ طے کیا گیا کہ آخر کب اور کس طرح یہ تمام زبانیں ایک دوسرے سے الگ ہوئی ہونگی۔
انیسویں صدی کے وسط میں چارلس ڈارون کی مشہور کتاب، ’’اوریجن‘‘ شائع ہوئی۔ نظریۂ ارتقأ پر اتنا مضبوط مقدمہ سامنے آنے کے بعد محققین کے لیے لازم ہوگیا کہ وہ اپنے ’’انڈویورپین لینگوئجز‘‘ کے نظریہ کو ڈارون کے نظریۂ ارتقأ کے پہلو پہلو رکھ کر ازسرِ نَو دیکھیں۔ ڈارون کی اوریجن نے زبانوں کے نظریہ پر جہاں اور بہت سے اثرات مرتب کیے وہاں ایک اہم ترین خیال یہ تھا کہ ’’زبان متغیر ہے‘‘۔ یہ زبان کی مطلقیت پر ضرب تھی۔ زبان ہر پل، ہر لحظہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ انیسویں صدی کے آخری ربع میں ماہرین ِ لسانیات کا ایک گروہ جسے ’’ینگ گرامیرینز‘‘ کہا جاتا تھا الفاظ کی فرداً فرداً تحقیق کے کام پر جُت گیا۔ انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ’’ زبان کا تغیر کسی قانون کی طرح باقاعدہ ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی ہزاروں مثالوں میں ایک یہ بھی لکھی کہ انگریزی کے وہ تمام الفاظ جن میں اب، سی ایچ (Ch) سے شروع ہونے والے الفاظ کو ’’چ‘‘ کی آواز کے ساتھ پڑھا جاتاہے،ایک دو صدیاں پہلے تک’’کاف‘‘ کی آواز کے ساتھ بولے جاتے تھے۔ مثلاً ٹھوڑی کو انگلش میں چِن کہتے ہیں، لیکن اسے پہلے کِن بولا جاتاتھا۔ اسی طرح، چکن، چائلڈ، چِپ، چِل اور چیز سمیت ایسے تمام الفاظ کو پہلے کاف کی آواز کے ساتھ ادا کیا جاتاتھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلاسیکی انگریزی میں ان الفاظ کی ادائی اس طرح تھی، کِکن، کائلڈ، کِپ، کِل اور کِیز وغیرہ۔
ایسی تمام کاوشوں کو ڈارون کے نظریہ کی مطابقت سے بار بار دیکھا جاتا رہا اور پھر ’’تغیرکے قانون‘‘ کی تصدیق کردی گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں زبانوں کی تبدیلی کے مطالعہ کی بجائے زبانوں کی ساخت کا مطالعہ زیادہ اہمیت اختیار کرنے لگا۔ چنانچہ بین السّانی تغیر کے مطالعہ کی بجائے فرداً فرداً ہر ہر زبان کا الگ الگ مطالعہ شروع ہوگیا۔ دراصل محققین کی توجہات کا رُخ اِس نئے موضوع کی طرف موڑنے کا سہرا ایک سوِس ماہرِ لسانیات، ’’فرڈیننڈ ڈی سا سیور‘‘(Ferdinand de Saussure ) کے سر جاتا ہے۔
Ferdinand de Saussure
فرڈیننڈ ڈی ساسیو رکو فادر آف ماڈرن لنگوِسٹکس بھی کہا جاتاہے، جس کا اردو ترجمہ ہوگا، ’’بابائے لسانیاتِ جدید‘‘ یا ’’بابائے جدید لسانیات‘‘۔ حیرت کی، بلکہ شدید حیرت کی بات یہ ہے کہ فرڈی نینڈ ڈی ساسیور نے اپنی پوری زندگی میں کوئی بھی کتاب یا تھیسز نہیں لکھا بلکہ اس کے طلبہ نے اس کی وفات کے بعد اس کے لیکچرز کے نوٹس اکھٹے کرکے’’کورس اِن جنرل لِنگوِسٹکس‘‘ (Course in General Linguistics) کے نام سے شائع کیے تو دنیا کو بابائے لسانیاتِ جدید کی موجودگی کا پتہ چلا۔ آج سوچتاہوں تو اپنے آپس پاس ڈگریوں، کتابوں، مقدمات اور دعووں کے انبار دیکھ کر یہ سارا سسٹم نہایت فضول سا محسوس ہوتاہے۔ اہل ِ تفکر کو فطرتاً ماورا ہونا چاہیے اِن باتوں سے کہ انہیں تسلیم کیا جائے یا بھُلا دیاجائے۔ وہ تو سوچتے ہیں اور بس سوچتے ہی چلے جاتے ہیں۔
خیر! تو فرڈیننڈ ڈی ساسیور کا سب سے بڑا کارنامہ اس کے مقدمہ کی صورت یوں بیان کیا جاسکتاہے،
’’زبان کے تمام عناصر لازمی طور پر آپس میں جُڑے ہوئے ہیں‘‘
لسانیات کا یہ پہلُو اس سے پہلے اتنی توجہ کے ساتھ نہ دیکھا گیا تھا۔ اس سے قبل لوگ اِکا دُکا ایسے خیالات ضرور رکھتے تھے لیکن ساسیور نے زبان کے ایک ایک عنصر کا جائزہ لیا اور دوسرے عناصر کے ساتھ ان کی مطابقت پر گہرا تفکر کیا۔ ساسیور نے کہا کہ،
’’زبان، شطرنج کے کھیل کی طرح ہوتی ہے جس میں ہرعنصر دراصل دوسرے عناصر کے اشتراک اور ان کے مقام کے ٹھیک ٹھیک تعین کی وجہ سے قائم رہ سکتاہے‘‘
ساسیور نے اس بات پر بہت زور دیا کہ زبان دراصل ایک نہایت توجہ اور محنت سے تعمیر کیا گیا سٹرکچر(ساخت) ہے۔ جس کے تمام عناصر آپس میں کسی کپڑے کے دھاگوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ بُن دیے گئے ہیں۔ ساسیور کے اِس نظریہ سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جسے ساختیات یا سٹرکچرلزم کہا جاتاہے۔
امریکہ میں ’’لیونارڈ بلوم فیلڈ‘‘(Leonard Bloomfield) نے ’’لینگوئج‘‘ کے نام سے ایک شاہکار کتاب شائع کی ۔ بلوم فیلڈ نے جو نتائج اخذ کیے اُن کے مطابق،
’’دنیا کی کوئی بھی زبان ایک خاص تاریخی عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ علم لسانیات کے لیے لازم ہے کہ وہ زبان کو معروضی اعتبار سے جانچے اور ہمیشہ قابلِ مشاہدہ مدلولات کو قابلِ توجہ سمجھے‘‘
چنانچہ بلوم فیلڈ ہر زبان کے عناصر کی ترتیب کو چانچنے میں بے پناہ دلچسپی رکھتاتھا۔ اس سے یہ ہوا کہ لسانیات کی تمام تر توجہ زبان کی شکل اور ساخت کی طرف مبذول ہوگئی جبکہ معانی کو ثانوی مقام دے دیا گیا۔اور یوں بلوم فیلڈ نے آئندہ نسلوں کے لیے لسانیات کی ایک مخصوص میتھاڈالوجی متعین کردی۔
لیکن 1957 میں لسانیات نے ایک نئی کروٹ لی۔ نوم چومسکی نے ، جو اس وقت میساچیوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (Massachusetts Institute of Technology) میں ٹیچرتھا اور اُس وقت اس کی عمر فقط انتیس سال تھی، ایک لازوال کتاب لکھی۔ جس کا عنوان تھا،’’نحوی ساختیں‘‘(Syntactic Structures) ۔ اورنوم چومسکی کی کتاب نے لسانیات کو ایک بار پھر نئے راستوں پر ڈال دیا۔
Noam Chomsky
نوم چومسکی نے ثابت کیاکہ بلوم فیلڈ نے صرف ’’ماضی کے جملوں‘‘ یعنی پرانی زبان کا مطالعہ کیا۔ بالفاظِ دگر بنی بنائی ساختوں کو دیکھ کر وہی نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں جو بلوم فیلڈ نے کیے۔ نوم چومسکی نے کہا کہ بلوم کے نظریہ میں ’’تخلیقیت‘‘ کی کمی ہے۔ جبکہ تخلیقت کے عنصر کی موجودگی میں آپ صرف ماضی اور حال ہی نہیں بلکہ مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی زبان کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ چومسکی نے کہا کہ گرامر کی ذمہ داری فقط قدیم ساختوں کا بیان ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک ماہر ِ لسانیات کے لیے لازم ہے کہ وہ گرامر کے وہ داخلی قوانین بھی مرتب کرے جو بولی کے ہرہرفرد کے لیے الگ الگ قابلِ استعمال ہوں۔ چومسکی کے بقول،
گرامر کیا ہے؟ گرامر یہ طے کرتی ہے کہ کسی زبان میں مختلف الفاظ، جملوں، قضیات اور اُصولوں کی ترتیب کیا ہونی چاہیے۔ کسی زبان کی نحوی ترکیب ممکن ہے تو کہاں تک؟ چومسکی نے گرامر کی ایسی ترتیبیں جو ناممکن تھی ’’جینرک گرامر‘‘ کے نام سے الگ کردیں۔ یوں چومسکی نے لسانیات میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا جسے جنریٹِوزم کہا جاتاہے۔ جنریٹوزم دنیا کے لیے ایک نئی گرامر کی ابتدا ہی نہ تھی بلکہ چومسکی نے زبان کے یونیورسلز کی طرف بھی ماہرینِ لسانیات کو ازسرنو متوجہ کیا۔ چومسکی نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ زبان میں کچھ یونیورسلز ہوتے ہیں جن کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ یونیورسلز سے متعلق چومسکی کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ چونکہ تمام انسان ایک جیسے ہیں اور تمام انسان زبان بولتے ہیں تو لازمی ہے کہ تمام زبانوں میں کچھ عناصر کلّیات کے درجہ پر موجود ہوں۔ چومسکی نے کہا کہ انسان ایک جیسےہیں تو زبان بولنے کے لیے ان کا داخلی نظام بھی ایک جیسا ہی ہوگا۔ مثلاً دنیا کی ہر زبان میں ’’ہاں‘‘ اور ’’ناں‘‘ موجود ہے اور ان کے معنی نہیں بدلتے۔ دنیا کی ہرزبان میں مرد اور عورت بھی موجود ہونا چاہیے۔ تمام زبانیں پیچیدہ ہیں اس لیے تمام زبانوں کی ساخت میں کلیّات کو وجود قابلِ دریافت ہے۔ مزید چومسکی نے یہ کہا کہ دنیا میں اس وقت کوئی قدیم زبان وجود نہیں رکھتی۔
غرض چومسکی کے جنریٹوزم نے زبان کو ایک بار اس شدید خطرے سے بچا لیا جو فقط ساخت پر اپنی توجہ مرکوز کرتا تھا اوراہلِ زبان کے داخلی تجربے کی اہمیت کا یکسر انکار کرتا تھا جیسا کہ بلوم فیلڈ نے کہا تھا کہ زبان کو فقط معروضی نظر سے دیکھا جانا چاہیے اور اس کے صرف قابلِ مشاہدہ اجزأ کو لائقِ مطالعہ تصور کیا جائے۔
تاریخ ِ لسانیات پر میں نے اپنے تفردات بھی قلمبد کیے ہیں جو الفاظ کی تاثیر کے عنوان سے فیس بک پر ہی موجود ہیں اور میں اپنے چھوٹے منہ سے یہ بڑی بات کہا کرتاہوں کہ معنی زبان کی حرکت (Syllable) میں پایا جاتاہے الفاظ میں نہیں۔ جب الفاظ وجود میں آرہے ہوتے ہیں تو زبان کی جن جن حرکتوں سے پہلی بار تعمیر ہوتے ہیں معنی ان حرکتوں میں موجود ہوتاہے۔ مثال کے طورپر دنیا کی ہرزبان میں شین سے بنے الفاظ میں شدت کا عنصر غالب ہوتاہے کیونکہ شین سے پیدا ہونے والا لفظ کا ٹکڑا جب بھی اپنی آفرینش کے وقت وجود میں آیا تھا تو کسی ایسے ہی شدید معنی کی ضرورت کے تحت ادا کیا گیا تھا۔ خیر! یہ الگ مضمون ہے۔
ایک اور بات کہ عربی گرامر اور عربی زبان کی ساخت کو دیکھ کر آرام سے کہا جاسکتاہے کہ جدید لسانیات کے مغربی ماہرین نے اس عجیب و غریب زبان کی طرف ابھی کماحقہُ توجہ نہیں دی۔
اسی طرح مشرق بعید میں بولی جانے والی زبانوں کے لیے بھی ان مغربی تحقیقات کے سارے ابواب ابھی لگ بھگ خالی پڑے ہیں۔
https://www.facebook.com/notes/idrees-azad/history-of-linguistic/10207598766234121/