( پاکستانی فلم ’ کیک ‘ پر تبصرہ )
ضیاء الحق نے جولائی 1977 ء میں مارشل لاء لگا کر جہاں زندگی کے ہر شعبے میں تاریکی پھیلائی وہیں اس مارشل لاء نے پاکستان کے فلم سٹوڈیوز کی بتیاں بھی گُل کر دیں ۔ ان بتیوں کا گُل ہونا وہیں تک محدود نہ رہا اور ملک کے ہزاروں سینما گھر بھی تاریکی میں ڈوبنے لگے اور چند ہی سالوں میں ان کے مالکان نے انہیں گِرا کر پلازے کھڑے کر دئیے ؛ سینما گھر جتنے خوبصورت تھے پلازے اتنے ہی بھدے ، اینٹوں کنکریٹ اور سیمنٹ کے انبار ۔ فلم سٹوڈیوز اور سینما گھروں سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار الگ متاثر ہوا ۔ ضیاءالحق کی لگائی یہ ضرب صرف’ فلم ‘ پر ہی نہیں تھی بلکہ فنون لطیفہ کا ہر میدان اس کی زد میں تھا ؛ ایسی زد کہ پاکستان کے ثقافتی ٹروپوں کی ہیت بدل گئی ۔ ناہید صدیقی اور شیماکرمانی جیسی رقاصاﺅں پر سرکاری دروازے بند کر دئیے گئے ، بہت سے گلوکار اور موسیقار بھی کونے میں بٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ صادقین جیسے مصور نیوڈ تو کیا ' ساگا آف لیبر ' پینٹ کرنے سے تائب ہو کر خطاطی میں پناہ ڈھونڈنے لگے ۔ پی ٹی وی پر دیسی فلموں کی نمائش پر بھی پابندی لگی جسے اسلم اظہر جیسے زیرک لوگوں نے ’ طویل دورانیے ‘ کے ڈراموں سے بائی پاس کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی وہ بھی اشفاق احمد جیسے پلانٹڈ لکھاریوں کے ہاتھوں بے بس ہو گئے ۔
ضیاء الحق سے قبل فوج بذات خود اپنے مفادات کے حوالے سے فلمی صنعت کی پشت پناہی کرتی تھی ؛ پاکستان کی پنجابی فلم ’ کرتار سنگھ ‘ ( 1959 ء ) اور ’ قسم اُس وقت کی ‘ ( 1969 ء) اس کی دو اہم مثالیں ہیں ؛ ’ کرتار سنگھ‘ کو سیف الدین سیف نے بنایا جبکہ’ قسم اس وقت کی ‘ اے جے کاردار کی ہدایت کاری میں بنی تھی ۔ ضیاء الحق کے دور میں البتہ ISPR نے شاید ایسا نہیں کیا ؛ اس البتہ سیرت کانفرنسوں اور اسی قسم کی مذہبی سیمیناروں پر ضرور پیسہ اجاڑا ۔
اگست 1988 ء میں امیرالمومنین کے خواب دیکھنے والے ضیاءالحق کا جہاز فضا میں پھٹا اور آموں کی خوشبو بہاولپور سے چلتی اقتدار کے ایوانوں میں آ بسی ؛ بےنظیر اور نواز شریف کی حکومتوں نے جمہوریت چلانے کی کوشش تو کی لیکن وہ اس تاریکی کو دور نہ کر سکیں جو ضیاء الحق ’ فلم ‘ سمیت ہر کھیتر میں پھیلا گیا تھا ۔ سیاست دانوں کی آپسی چپقلش کچھ ایسی رہی کہ اکتوبر 1999 ء میں ایک اور فوجی جرنیل گود میں اپنے کتے لئے سنگھاسن پر آ بیٹھا ؛ اس کا دور سیاسی طور پر کیسا تھا یہ ایک الگ قصہ ہے البتہ ’ فلم ‘ اور الیکٹرونک میڈیا کے لئے یہ ایک مہربان دور اس لئے ثابت ہوا کہ بدلے وقت نے اس جرنیل کو اپنی اہمیت کا احساس دلا دیا تھا ۔ جمیل دہلوی کی فلم ’ جناح ‘ باوجود مخالفتوں کے ریلیز ہوئی ، ’ ہاتھی میرے ساتھی‘ ، ’ لڑکی پنجابن‘ اور ’ یہ دل آپ کا ہوا ‘ جیسی فلموں نے پاکستانی سینما کے پھر سے اُسار کا عندیہ دیا ۔ الیکٹرونک میڈیا نے بھی ’ فلم ‘ کا ہاتھ تھاما اور شعیب منصور کی ’ خدا کے لئے ‘ (2007ء) نے پاکستانی سینما میں پھر سے جان ڈالی ( شیعب منصور کو اس فلم کے لئے جہاں جیو فلمز کی معاونت حاصل تھی وہیں اس کے پیچھے ISPR کا سرمایہ بھی موجود تھا ) ؛ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہوئی البتہ اس کی ’ بول‘ ( 2011 ء ) نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی ۔
روایتی بڑے سینماگھر ختم ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ’ سنی پلیکس ‘ ( Cineplex ) گھروں نے لے لی تھی ۔ ایسے میں نوجوان نسل نے کئی فلمیں بنائیں جیسے ’ چنبیلی ‘ ( 2013 ء) ’ نامعلوم افراد‘ ( 2014 ء) ’ مور‘ ( 2015 ء) ، ' دوبارہ پھر سے ' ( 2016 ء) ، ' پنجاب نہیں جاﺅں گی' (2017 ء) چند اہم نام ہیں۔ گو شرمین عبید ۔ چنوئے اپنی دستاویزی فلموں کی وجہ سے جانی جاتی ہے لیکن اس کی دو دستاویزی فلموں ’ Saving Face ‘ ( 2012 ء) اور ’A Girl in the River: The Price of Forgiveness‘ ( 2015 ء) نے آسکر جیت کر نئی نسل میں اور ہمت پیدا کی کہ وہ فلم سازی کی طرف رجوع کریں ( یہ الگ بات ہے کہ شرمین کی فلمیں یا تو HBO کے سرمائے سے بنیں یا کسی اور عالمی ڈونر ایجنسی یا پھر کسی ٹی وی چینل نے اسے پیسہ مہیا کیا ۔ وہ 2016 ء سے ARY کے پیسے سے ’ تین بہادر‘ کے نام سے کمپیوٹر اینیمیڈڈ فلمیں بنا رہی ہے جس کی تیسری اپیی سوڈ 2018 ء میں سامنے آئی ۔)
شرمین عبید ۔ چنوئے کے دو آسکر جیتنے نے نئی نسل کو’ کوراہے ‘ بھی ڈالا اور آج کے فلم میکر فلم بین کے لئے فلم نہیں بناتے بلکہ وہ اس زاویے کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کسی طرح اس کی بنائی فلم ، اگر آسکر نہیں بھی جیتتی تو کم از کم کوئی عالمی ایوارڈ ہی حاصل کر لے یا کسی عالمی فلمی میلے میں ہی جگہ پا لے اور اگر ایسا نہ ہو تو کسی کاسموپولیٹن شہر کے کسی مشہور سینما میں ہی اس کا افتتاحی شو منعقد ہو جائے ۔ یہ ایک ایسی دُھند ہے جس سے اگر آج کے پاکستانی فلم میکر نہ نکل پائے تو پاکستانی فلمی صنعت پھر سے بحران کا شکار ہو جائے گی ۔
دستاویزی فلموں سے بات آگے بڑھائیں توعاصم عباسی بھی ایک ایسا فلم میکر ہے جس نے کچھ دستاویزی فلمیں اسی زاویے سے بنائیں لیکن اس کی کوئی بھی فلم اسے شہرت نہ دلا سکی ۔ 2017 ء میں اس نے ایک ڈرامہ لکھا اور ٹی وی چینلز کو سکرپٹ دکھایا ، جب کسی چینل نے اسے گھاس نہ ڈالی تو اس نے سید ذوالفقار بخاری کی پروڈکشن میں اس سے فیچر فلم بنانے کی ٹھانی اور اسے ’ کیک ‘ کے نام سے بنانا شروع کیا ۔ وہ اس نام سے ایک مزاحیہ اور میٹھا سا فیملی ڈرامہ فلم بنانا چاہتا تھا ، اس نے کیک نام بھی اسی لئے چُنا تھا لیکن خاندان صرف میٹھا نہیں ہوتا اس میں کھٹائی بھی ہوتی ہے۔ تلخی اور المناکی بھی ہوتی ہے ۔ فلم اس کے ہاتھ سے نکلی یا وہ خود فلم سے پیچھے رہ گیا ایسے ہی جیسے افسانہ یا ناول اکثر ادیب کی مرضی سے آگے نہیں بڑھتا اور یہ اس کے قلم کو اپنے حساب سے الفاظ کا روپ دیتا جاتا ہے ۔
کیمرہ رول ہوتا گیا اور فلم پھیلتی چلی گئی ۔ تدوین کا وقت آیا تو ایڈیٹر’ آرتی بجاج ‘ کو فلم سمیٹنے میں مشکل ہوئی جس کا حل یہ نکالا گیا کہ پانچ حصوں پر مشتمل ’ ویبی سوڈز‘ ( webisodes) الگ کئے گئے جن میں لندن میں زارا اور عدنان کی زندگی دکھائی گئی تھی اور انہیں یو ٹیوب پر ’ پرولوگ ’ ( prologue ) کے طور پر پیش کیا گیا ۔ بہت سے سین کاٹے گئے اور125 منٹ کی فلم سینما ریلیز کے لئے تیار کی گئی ۔ اس کا پریمیئر اپریل 2018 ء میں لندن کے ’ Leicester Square ‘ میں کیا گیا ۔ فلم کے تعارفی کتابچے میں زور دیا گیا کہ فلم کی درست تفہیم کے لئے یوٹیوب پر’ ویبی سوڈز‘ ضرور دیکھے جائیں ؛ ایسا ہی کچھ بریڈ فورڈ اور دیگر جگہوں پر بھی دیکھنے میں آیا جہاں اس فلم کی ٹیم بشمعول کاسٹ فلم کی پروموشن کے لئے گئی ۔
فلم کی کہانی پانچ افراد پر مشتمل ایک ایسے خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کے دو افراد ، سب سے چھوٹی بیٹی’ زارا ‘ ( صنم سعید) اور بڑا بیٹا ’ زین ‘ ( فارس خالد ) بدیس یعنی لندن اور نیویارک میں ہیں جبکہ تین یعنی ماں باپ اور منجھلی بیٹی ’ زریں ‘ ( آمنہ شیخ ) دیس کے ایک کاسموپولیٹن شہرکے پوش علاقے میں رہتے ہیں ۔ شاندار گھر ہے ، گاڑیاں ہیں ۔ خاندانی جاگیردار فیملی ہے ، زمینیں ہیں ۔ فارم ہاﺅس بھی ہے۔ ماں ( بیو رعنا ظفر) باپ ( محمد احمد) کی جوڑی پچاس سال سے جمی ہے؛ محبت اتنی کہ ساتھ سونا تو ہے ہی پیار بھری گالی گلوچ والی زبان بھی کچھ کم نہیں اور اوپر سے ’ پیا تو اب تو آ جا ‘ کا تڑکا بھی ہے ۔ ماحول ایسا کہ سندھی وڈیرا گھرانہ نہیں بلکہ قراة العین حیدرکے ناولوں میں موجود گھرانوں جیسا تعلیم یافتہ لگتا ہے ؛ زارا تو کہیں کہیں ’ میرے بھی صنم خانے ‘ کی رخشندہ لگتی ہے ۔ زارا اور زین تو ناموں سے ہی عینی آپا کے کردار لگتے ہیں ۔ یہ دونوں تب گھرلوٹتے ہیں جب ماں باپ کو بیماریاں گھیرتی ہیں اور پھر وہ کتھا شروع ہوتی ہے جو امیر گھرانوں میں عام طور پر دیکھی جاتی ہے۔ چونکہ گھرانہ سندھی وڈیرے کا نہیں لگتا اس لئے عاصم عباسی نے شاہ عبدالطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کے کلام سے سندھی ’ ٹچ ‘ دینے کی کوشش کی ہے ۔عاصم عباسی نے اقلیتوں سے برابری دکھانے کے لئے ایک مسیحی کردار ’ رومیو‘ ( عدنان ملک ) جو زین ، زرین اور زارا کا بچپن کا ساتھی ہے ، گھر کا فرد تو نہیں لیکن فرد ہے بھی ، بھی فلم میں نہ صرف ڈالا ہے بلکہ زرین اور رومیو کو آپس میں محبت بھی کرا دی ہے ۔
اکٹھے ہونے پر بہن بھائیوں والی محبتیں ، چپقلشیں ، گلے شکوے اور وہ سب کچھ فلم کا ایک بڑا حصہ کھا جاتا ہے جو کسی بھی ایسے امیرگھرانے کے بچوں کے مابین چلتا ہے ۔ عاصم عباسی نے فلم میں زارا کے ہاتھوں ایک بچے کی حادثاتی موت بھی کرائی تاکہ اس کے ملک سے باہر جانے کا جواز اوردیت و قصاص کا ذکر بھی فلم کا حصہ بن سکے؛ رومیو کو اس کی جگہ سزا کاٹنی پڑتی ہے کہ یہ گھر کے ’ بڑے‘ کا فیصلہ ہے اور رومیو تو بچپن سے ہی اس گھرانے کا وفادار نوکر ہے ۔
اگر میں اس معاشرے میں نہ رہ رہا ہوتا جس میں 50 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندہ ہیں اور یہ ملک کئی طرح کے سنگین بحرانوں اور گھمبیر مسائل میں جکڑا ہے تو شاید میں اس فلم کو اُسی انداز سے دیکھتا جیسے میں نے بالی دوڈ کی فلم ’ دل چاہتا ہے ‘ کو دیکھا یا قراة العین حیدر کے ناول پڑھے اور انہیں پسند بھی کیا تھا لیکن میں عاصم کی اس فلم کو ہضم نہیں کر پایا شاید اس لئے کہ فلم بنانے والوں کا کہنا تھا کہ یہ ہر گھرانے کی کہانی ہے ؛ یہ کچھ ایسے گھرانوں کی کہانی تو ہو سکتی ہے جو کسی نہ کسی طورمعاشرے کی اوپرلی پرت کا حصہ ہیں لیکن جیسے ہی ہم معاشرے کی اس پرت سے نیچے اترتے ہیں گھرانوں کی زندگی مختلف ہوتی جاتی ہے۔ فیملی کا گلیمر ماند پڑتا جاتا ہے ۔ اس میں شیرینی گھٹتی جاتی ہے اور ظالم حقیقوں کی کڑواہٹ بڑھتی جاتی ہے ۔’ فیملی ‘ کا گُڈی گُڈی ( goody goody ) پن ' پیٹی بورژوا ' کمینگی میں بدلتا نچلی پرت تک جاتے جاتے مجبوریوں میں بدل جاتا ہے ۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن مجھےاس فلم کی کچھ باتیں پسند آئیں ؛ اول اس کی سینماٹوگرافی جو کسی ’ مو عظمی‘ ( میں نے اس کا کام پہلی بار دیکھا ہے ) کی ہے اور دوسرے اس کی موسیقی جو ’ The Sketches‘ کی ترتیب دی ہوئی ہے ۔ اداکاری کی بات کریں تو مجھے ’ بیو رعنا ظفر‘ اور ’ محمد احمد ‘ کی اداکاری سب سے زوردار لگی ؛ آمنہ شیخ ، صنم سعید سے وہی اداکاری ہوئی جو ہم ٹی وی ڈراموں میں دیکھتے رہتے ہیں رہا عدنان ملک تو یہ اس کی پہلی فلم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ماڈلنگ سے اداکاری کی طرف سوئچ اوور کرنے میں وقت لگتا ہے۔
عاصم عباسی نے یہ فلم عام پاکستانی فلم بینوں کے لئے نہیں بلکہ وہی غرض سامنے رکھ کر بنائی تھی کہ یہ عالمی فلمی منظر نامے پرنظر آ ئے لیکن کیا کیا جائے کہ جب اسے 91 ویں آسکرز کے لئے ’ بہترین فارن لینگوئج فلم‘ کی کیٹگری میں بھیجا گیا تو یہ دوڑ میں شامل ہی نہ کی گئی ۔ یہاں ایک قضیہ بھی کھڑا ہوا ؛ اس فلم کا پروڈیوسر ’ سید ذوالفقار بخاری ‘ المعروف زلفی بخاری عمران خان کی کابینہ میں معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز بنا تو اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے ’ آسکرز‘ کے لئے پاکستان کی آفیشیل انٹری کے لئے منتخب کروایا جس پر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر خاصی لے دے بھی ہوئی ؛ عاصم عباسی اور زلفی بخاری کے علاوہ شو بز کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ریشم جیسی خواتین اور انتخابی کمیٹی کی رکن کاملہ شمسی تک نے فلم کا دفاع کیا ۔ اور تو اور عمران خان بھی یہ بھول کر کہ وہ ملک کا وزیر آظم ہے ، اس کے دفاع میں آن کھڑا ہوا ؛ اس نے نہ صرف کاسٹ کے ساتھ تصویریں بنوائیں بلکہ یہ تک کہہ ڈالا کہ ایسی فلم تو اس سے پہلے پاکستان میں بنی ہی نہیں ۔ زلفی بخاری کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آیا ؟ یہ وہ سوال ہے جو اب زلفی بخاری کی ’ آف شور کمپنیوں ‘ کے حوالے سے نیب ( NAB ) کے زیر تفتیش ہے اور شاید وہ اب عمران خان کا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز بھی نہیں ہے ۔
بقول فلم میکرز کے ، اس فلم پر ان کی لاگت پانچ کروڑ روپے تھی اور انہوں نے اس سے سات کروڑ روپے منافع کمایا ؛ مجھے یہ اعداد و شمار کچھ ٹھیک نہیں لگتے ۔ 18 ویں لکس ایوارڈ ابھی ہوئے نہیں ؛ 7 جولائی 2019 ء کو متوقع ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ یہ فلم اس میں کیا حاصل کرتی ہے ؛ یہاں یہ بہترین فلم کے علاوہ مزید چار نامزدگیاں لئے منتظر ہے کہ اس کے حصے میں کیا آتا ہے ۔