"جنے لہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نہیں" کے مصداق ہمارا جنم ہماری حقیقی پیدائش کے سات آٹھ سال بعد جولائ 1992 میں ہوا جب ہم اپنے ننھیال کے ہمراہ لاہور کی سیر کو آۓ۔ سخت گرمی کے دنوں میں شاہی قلعہ، مزارِ علامہ اقبال، بادشاہی مسجد اور مینار پاکستان کی سیر سے خوب محظوظ ہوۓ۔ قلعہ کی سیر کے دوران ہمارے لاہوری کزن سید حارث علی نے ایک منجھے ہوۓ گائیڈ کی طرح قلعہ کے مختلف مقامات کے بارے آگاہی دی۔ قلعہ کا دیو ہیکل دروازہ، طویل القامت دیواروں، بڑے بڑے سٹیپس پر مشتمل ہاتھی پیر سیڑھی، سرنگوں کے مقفل دروازوں، گہرے گہرے کنوؤں، قلعہ کے سرسبز باغات، شیش محل کی دیدہ زیب نقاشی، قلعہ کے میوزیم میں سجاۓ ہوۓ نوادرات نے ہمیں خوب مرعوب کیا اور شاہی قلعہ کی دھاک ہمارے ذہن میں بٹھا دی۔ بعد ازاں پی ٹی وی پر نشر ہونیوالے قلعہ لاہور پر فلمبند کیے گۓ مارون گولڈ کے اشتہار Unity of rythm نے قلعہ کی لازوال محبت دل میں پختہ کر دی۔یوں بچپن سے ہی قلعہ لاہور کا رعب و دبدبہ دل و دماغ میں نقش ہو گیا۔ قلعہ کے بعد مزارِ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی حاضری ہوئ اور بچپن میں ہی اپنے قومی شاعر کی لحد پر فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئ۔ شاہی مسجد کے میوزیم میں محفوظ کیے گۓ تبرکاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت کے جذبات میں ترقی کا ساماں ہوا۔ مینار پاکستان اس وقت کھلا ہوتا تھا۔ ماموں جان سید آصف علی صاحب کا ہاتھ پکڑے، ڈرتے ڈرتے بالائ منازل سے شہر لاہور کا نظارہ بھی خوب محظوظ کن تھا۔ اپنے ہوش میں یہ تاریخی لاہور کا پہلا سیاحتی دورہ تھا۔ اسکے تقریبا دس گیارہ سال بعد 2003 میں والد صاحب نے تمام اہل خانہ کو ملتان تا مری سیر کرائ۔ لاہور میں قیام کے دوران ایک بار پھر تمام گھر والوں کے ساتھ قلعہ، بادشاہی مسجد، مینار پاکستان اور شالامار باغ دیکھنے کا خوشگوار و یادگار موقع میسر آیا۔
تاریخی لاہور کی صحیح معنوں میں سیر ہمارے محترم بائیکر سیاح دوست حافظ کاشف بھٹی نے نومبر 2016 میں کرائ جب ہم میڈیکل کے ایک امتحان کے سلسلہ میں لاہور آۓ۔ کاشف بھائ سے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ ہماری لاہور آمد پر ہمیں اپنا قیمتی وقت عنایت کریں گے اور لاہور کے تاریخی مقامات دکھائیں گے۔ سترہ نومبر کی صبح تقریبا ساڑھے چھ بجے ہم ڈیرہ غازی خان سے بذریعہ بس یتیم خانہ لاہور پہنے۔ کچھ دیر میں کاشف بھٹی ہمیں لینے پہنچ گۓ۔ میو ہسپتال سے داخلہ سلپ لینی وصول کرنی تھی۔ لیکن دفتر کھلنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ہم نے کاشف بھائ سے اندرون شہر کا چکر لگانے کا کہا۔ کاشف بھائ نے سب سے پہلے نیلا گنبد مسجد دکھائ جو 1085 ہجری میں تعمیر ہوئ اور نیو انار کلی بازار میں واقع ہے۔ شاہ عالمی گیٹ پہنچے جو مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں لاہور کا معروف کاروباری مرکز شاہ عالمی مارکیٹ بھی قائم ہے۔ کچھ آگے بڑھے شاہ عالم چوک میں واقع راتوں رات تعمیر ہونیوالی لاہور کی منفرد و مشہور مسجد "مسجد شب بھر" پہنچے۔ یہ مسجد 1917ء میں تعمیر کی گئی۔ علامہ اقبال کو جب تیسرے روز اس مسجد کی تعمیر کا پتہ چلا تو آپ یہاں تشریف لائے اور بہت خوش ہوئے اور یہ مشہور شعر کہا:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اسکے بعد لاہور کے ایک اور قدیم گیٹ دہلی گیٹ پہنچے اور شاہی گزرگاہ سے شہر میں داخل ہوۓ۔ شاہی حمام کی بحالی کا کام ابھی جاری تھا اور داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ ہم آگے بڑھے اور وزیر خان مسجد میں داخل ہو گۓ۔ لاہور کے دل میں یہ عالیشان شاہجاں دور کے گورنر لاہور علم الدین انصاری المعروف نواب وزیر خان نے 1635 میں تعمیر کروائ۔ وزیر خان مسجد مغلیہ طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ لاہور آنے والے سیاح ضرور اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد کی عکاسی کے بعد رنگ محل پہنچے جو 1849 میں تعمیر ہوا۔ آجکل یہاں گورنمنٹ ہائ سکول (سابقہ کرسچن ہائ سکول) قائم ہے۔ ٹولنٹن مارکیٹ پہنچے جو لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے نام پر تعمیر کی گئ تھی۔ آجکل یہاں ثقافتی میوزیم قائم ہے۔ یہاں لاہور کی معروف سیاح شخصیت عادل لاہوری سے ملاقات ہوئ جو اپنے مہمان سیاحوں کا انتظار کر رہے تھے۔ میو ہسپتال کا رخ کیا جو کہ علاج معالجہ کے مرکز کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی ورثہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ داخلہ سلپ لینے کے بعد فوڈ سٹریٹ میں لاہور کا روایتی ناشتہ کیا۔ امتحان کا وقت نزدیک آگیا تھا۔ باغِ جناح کے عقب میں واقع پنجاب کالج کے کیمپس پہنچے۔ کاشف بھٹی صاحب کو تین گھنٹے کی رخصت دی اور بارہ بجے واپس آنے کا کہا۔
امتحان سے فارغ ہو کر باغِ جناح کا رخ کیا۔ باغِ جناح کا شمار لاہور کے تاریخی پارکس میں ہے۔ اسکا سابقہ نام لارنس گارڈن ہے جو کہ انڈیا کے وائسرائے جان لارنس سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ باغ 1862 سے آباد ہے۔ بارہ دری گیٹ سے باغ جناح میں داخل ہوۓ۔ خوبصورت باغیچے، قدیم قد آور درخت، رنگ برنگے پھول، ترتیب وار کیاریاں باغ جناح کا حسن ہیں۔ بارہ دری اور اس سے مربوط فواروں کی الگ خوبصورتی ہے۔ یہاں شیطٰن درخت Alstonia Scholaris سے بھی ملاقات ہوئ۔ بارہ دری گیٹ سے داخل ہو کر سامنے چلتے جائیں تو وکٹوریہ عہد کی ایک شاندار سفید عمارت آپکو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ یہ خوبصورت عمارت 1866 میں تعمیر ہوئ۔ اسکے دو ہال لارنس اور منٹگمری ہال ہیں۔ 1878 میں یہاں میاں میر انسٹیٹیوٹ قائم ہوا۔ 1906 میں یہاں لاہور جمخانہ کلب بنا۔ 1972 میں جمخانہ کلب اپر مال کی طرف شفٹ ہو گیا۔ 1981 میں اسکی مرمت کا کام شروع ہوا اور 1985 میں صدر ضیاء الحق نے یہاں قائد اعظم لائبریری کا افتتاح کیا۔
باغ جناح میں ایک جانب لاہور جمخانہ کرکٹ کلب بھی واقع ہے جو 1880 میں بنا۔ کلب کی دیدہ زیب عمارت میں کرکٹ میوزیم اور آرکائیو قائم ہے۔ اس کلب میں برطانوی فوج اور ورلڈ الیون کی کرکٹ ٹیموں کے مابین پہلا کرکٹ میچ 1911 کو کھیلا گیا جبکہ پہلا بین الاقوامی میچ میلبورن کرکٹ کلب اور برطانوی فوج کی ٹیم کے مابین 1926 میں کھیلا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 میں کرکٹ کنٹرول بورڈ آف پاکستان کا قیام بھی اسی کلب میں ہوا جو بعد میں قذافی اسٹیڈیم میں شفٹ ہو گیا۔
باغ جناح کی سیر کے بعد ہم نے شاہدرہ کا رخ کیا جہاں مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ پہلے مقبرہ نور جہاں پہنچے جہاں مرمت و بحالی کا کام جاری تھا۔ نور جہاں نور الدین جہانگیر کی بیوی تھی۔ جہانگیر کی وفات کے بعد 18 سال زندہ رہی اور 1645 میں وفات پائی۔ اس مقبرہ کے تہہ خانہ میں دو قبریں ہیں ایک نور جہاں اور دوسری اسکی بیٹی لاڈلی بیگم کی۔ چونکہ مرمت کا کام جاری تھا لہذا ہم تہہ خانہ تک نہ جاسکے۔ فاتحہ کے بعد مقبرہ جہانگیر کا رخ کیا جہاں اکبری سراۓ، اکبری مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ آصف خان ساتھ ساتھ ہی واقع ہیں۔
آصف خان ملکہ نور جہاں کا بھائ تھا۔ 1641 میں وفات پائ اور اکبری سراۓ سے منسلک باغ میں تدفین ہوئ۔ شاہجہان نے آصف خان کا مقبرہ تعمیر کرایا جو کہ ایک ہشت پہلو عمارت ہے جسکی چھت پر دوہرا گنبد تعمیر کیا گیا ہے۔ اکبری سراۓ اور مقبرہ آصف خان کے درمیان تین گنبدوں پر مشتمل ایک مسجد ہے جو اکبری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اکبری سراۓ مغلیہ دور کی فوجی بیرک سمجھی جاتی ہے جہاں سپاہی قیام کرتے تھے۔ جہانگیر کا مقبرہ مغلیہ عہد کے طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ پویلین سے داخل ہوتے ہی مقبرہ کی شان و شوکت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ مقبرہ 1637 میں مکمل ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں تاج محل آگرہ کے بعد جہانگیر کے مقبرے کو مغلوں کی لاثانی عمارت قرار دیا جاتا ہے۔ جہانگیر کی قبر کا تعویز خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ مغل شہنشاہوں کی عظمت آج کئ صدیوں بعد بھی انکے مقبروں اور مساجد سے ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مغل فن تعمیر سے کس قدر لگاؤ رکھتے تھے۔
جہانگیر کے مقبرے پر شام ہو چکی تھی۔ اسی رات واپس ڈیرہ غازی خان کے لیے بھی نکلنا تھا لہذا شہر کا رخ کیا۔ ہم نے جاوید منزل دیکھنے کی خواہش کی۔ اس دن لاہور میں شدید ٹریفک جام تھا۔ مقبرہ جہانگیر سے جاوید منزل پہنچتے ہوۓ پورے دو گھنٹے لگ گۓ۔ جاوید منزل گڑھی شاہو میں واقع علامہ اقبال کی رہائش گاہ ہے جو آپ نے 1935 میں تعمیر کرائ۔ آپ اپنی وفات 21 اپریل 1938 تک یہیں مقیم رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی ملاقات اسی مکان میں ہوئ۔ اس مکان کا نام علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید اقبال سے منسوب کیا۔ 1977 میں علامہ اقبال کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر وفاقی حکومت نے جاوید منزل کو خرید کر یہاں علامہ اقبال سے وابستہ میوزیم قائم کر دیا۔ فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال نے علامہ اقبال کی ذاتی استعمال کی جملہ اشیاء و مسوادات میوزیم کے سپرد کر دیے۔ ہماری قسمت نے یہاں بھی ساتھ نہ دیا۔ جاوید منزل کی مرمت کا کام جاری تھا لہذا میوزم بند تھا۔ ہم باہر سے ہی چند ایک تصاویر بنا کر آگے بڑھ گۓ۔
ایک بار پھر انارکلی بازار کا رخ کیا اور ایبک روڈ پر مقبرہ قطب الدین ایبک پر حاضری دی۔ قطب الدین ایبک برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے 1206 میں دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو دہلی سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی۔ قطب الدین ایبک ترک نسل سے تھا۔ ایک سوداگر اس کو ترکستان سے خرید کر نیشا پور لے آیا اور قاضی فخرالدین عبد العزیز کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ جس نے اس کو سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے کثیر رقم دے کر اسے خرید لیا۔ شکل و صورت توقبیح تھی لیکن ایک چھنگلیا ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لیے لوگ اس کو ایبک شل (خستہ انگشت) کہتے تھے۔ قطب الدین ایبک 1210 میں گھوڑے سے گر کر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ فوت ہوا۔ یہ اس روز ہماری آخری ایکسپلورنگ تھی۔ اسکے بعد ہم ہمسایہ ہاؤس اپنے مرشد سیاحت جناب مکرم ترین جہانگرد کے ہاں پہنچے۔ فروغ سیاحت پر سیر حاصل گفتگو ہوئ۔ موٹر بائیک ٹورزم کے میدان میں مکرم صاحب کے تجربات اور قیمتی نصیحتیں سننے کو ملیں جنہیں ہم نے پلو سے باندھ لیا۔ عشائیہ کے بعد مکرم صاحب نے ہمیں بس ٹرمینل ڈراپ کیا اور ہم ڈیرہ غازی خان کے لیے روانہ ہوۓ۔ شکریہ ادا کرتا ہوں بائیکر دوست جناب کاشف بھٹی کا جن کے طفیل ہم ایک ہی روز میں شہر لاہور کے متعدد تاریخی مقامات دیکھ پاۓ اور آخر میں مکرم صاحب سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...