کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو ارتقا اور ترقی کے تمام اصولوں کی نفی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص قدیم یونان کا سولون تھا جس نے ایک پرامن انقلاب ممکن بنایا۔ اُس کے امیر کبیر باپ نے لوگوں پر عنایات کر کے دولت لٹا دی۔ لہٰذا سولون نے تجارت شروع کی اور ایک کامیاب تاجر بنا۔ وہ 594قبل مسیح میں 45 سال کا تھا جب علاقے کا مجسٹریٹ منتخب کر لیا گیا؛ اور تمام طبقات اور علاقوں نے منظوری دی کہ اسے طبقاتی لڑائی دور کرنے، ایک نیا آئین بنانے اور ریاست کا استحکام بحال کرنے کی خاطر مطلق اختیارات تفویض کیے جائیں۔
ارسطو کے بقول سولون نے ”سبک دوشی نامہ“ (Seisachtheia) کے ذریعہ ”نجی ساہوکاروں اور ریاست کو واجب الادا تمام قرضے منسوخ کر دیے؛“ اور یوں ایک ہی وار میں ایٹیکا کی تمام زمینیں رہن سے آزاد کروا لیں۔ قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید تمام افراد کو رہا کر دیا گیا؛ دوسرے علاقوں میں بطور غلام فروخت کیے گئے افراد کو واگزار کروا کے آزاد کیا گیا؛ اور آئندہ کے لیے اس قسم کی غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ امیروں نے اس پر احتجاج کیا، لیکن ایک عشرے کے اندر اندر سبھی کہنے لگے کہ اس اقدام نے ایتھنز کو انقلاب سے بچا لیا تھا۔
ول ڈیورانٹ کے بقول وہ تاریخی فرامین ان اصلاحات سے بھی زیادہ پائیدار تھے جنھوں نے سولون کا آئین تشکیل دیا۔ سولون نے سب سے پہلے عام معافی کا قانون جاری کیا جس کے تحت سیاسی الزامات کی بِنا پر قید یا جلاوطن کیے گئے تمام افراد کو رہا کیا یا واپس لایا گیا۔ اس نے ایٹیکا کے آزاد عوام کو ان کی دولت کے مطابق چار طبقات میں تقسیم کیا: پہلے درجے کے امرا پر سالانہ 12 فیصد انکم ٹیکس، درجہ دوم پر 10فیصد، درجہ سوم پر 5 فیصد اور درجہ چہارم پر کوئی بھی شرح عائد نہ کی۔ اس نے قومی اسمبلی (Ecclesia) کو تمام شہریوں کے لیے کھول دیا اور اسے (درجہ اول میں سے) مجسٹریٹ منتخب کرنے اور ان کی نگرانی و احتساب کا اختیار دیا۔ تمام شہری ووٹ قرعے کے ذریعہ heliaea (6,000 ارکان کی جیوری) منتخب کرنے کے اہل تھے جو قتل اور بغاوت کے سوا تمام امور میں سپریم کورٹ اور کسی مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی عدالت کا کام دیتی تھی۔ عوام کی یہ طاقت ایتھنی جمہوریت کا قلعہ بن گئی۔
سولون نے اخلاقیات اور طرز عمل کے خطرناک میدان میں بھی قوانین پیش کیے۔ مستقل آوارہ گردی اور بیکاری ایک جرم قرار پائی، اور کسی بھی نشاط پرست شخص کو اسمبلی سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس نے قحبگی کو قانونی حیثیت دی اور اس پر ٹیکس عائد کیا؛ عوامی چکلوں کو ریاست کی نگرانی میں لیا۔ اس نے کسی آزاد عورت کی حق تلفی پر 100 drachmas کا متعدل جرمانہ عائد کیا، لیکن کسی کو بدکاری کرتے ہوئے پکڑ لیے جانے پر وہیں مار ڈالنے کی اجازت تھی۔
اور بھی کئی ایسے اقدامات تھے جن کا آج کی جدید ریاست میں آپ محض مطالبہ ہی سنتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...