خطہ ملتان قدیم ایام سے ہی ہندوستان کا سرحدی شہر ہونے کی نسبت صدیوں تک بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا‘ ہندوستان پر لشکرکشی کرنے والے تمام حملہ آوروں نے پہلے پہلے اسی شہر کا پانی پیا۔
مرزا ابن حنیف کے مطابق ’’پُرانے زمانوں میں افغانستان کے ساتھ جن جن راستوں یا پہاڑی دروں کے ذریعے تجارت ہوتی تھی‘ ان میں درہ گومل کو ایک مخصوص حیثیت حاصل تھی‘ گومل کا درہ دریائے گومل کی راہ سے گزرتا تھا اور اس درے کا راستہ ڈیرہ جات کے علاقے سے ہوتا ہوا ملتان پہنچتا ہے‘ اسی طرح پُرانے وقتوں میں ایک اور تجارتی راستہ بھی تھا جو سلسلہ کوہ سلیمان کے سخی سرور کے درے سے گزرتا ہوا ملتان پہنچتا تھا۔ یہی راستہ مغربی جانب قندھار سے ملتا تھا اور وہاں سے ایران سے‘ مذکورہ راستوں کے ذریعے ہی تاریخی و ماقبل تاریخی ادوار میں تاجروں کے قافلے ملتان آتے جاتے تھے‘ آبی شاہراہوں کے ذریعے آمدورفت اس کے علاوہ تھی‘‘۔
قدیم ایام میں افغانستان‘ ایران اور مشرق وسطیٰ سے ملتان آنے کے جو تجارتی راستے تھے‘ دراصل وہی راستے حملہ آوری کے راستے بھی تھے، گویا یہ راستے یا درے ان مہم جو سپہ سالاروں کو حملے کی دعوت دیتے تھے۔ ہندوستان پر محمود غزنوی کے حملہ آور ہونے سے بھی پہلے ایران‘ یونان اور مشرق وسطیٰ کے تمام حملہ آور انہی راستوں سے ہوتے ہوئے ملتان آئے اور پھر ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف پیش قدمی کی۔
افغانستان‘ ایران اور مشرق وسطیٰ سے ہندوستان کی سرزمین پر ایسے بہت سے حملہ آور آئے جو بعدازاں اس خطے کے حکمران بنے اور طویل عرصہ تک یہاں حکومت بھی کرتے رہے۔ محمود غزنوی کے ہندوستان پر پے در پے حملوں اور بعدازاں نادر شاہ درانی کی غارت گری نے تو افغانستان کے افغان قبائل کیلئے ہندوستان پر لشکر کشی اور یہاں حکومت کرنے کا راستہ ہی کھول دیا تھا۔
ملتان جو سلاطین کے عہد میں ہندوستان کا اہم ترین سرحدی صوبہ تھا‘ بابر کے ہاتھوں ابراہیم لودھی کی شکست کے ساتھ ہی مغل قلم رو میں شامل ہو گیا تھا لیکن ہم آج تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں کہ دہلی میں ابھی مغلوں کے اقتدار کا سورج گہنایا نہیں تھا مگر صوبہ ملتان مغلوں کی دسترس سے نکل کر تخت کابل کے زیرنگیں آ گیا تھا۔
جی ہاں! دہلی میں مغل حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ملتان تخت کابل کے زیر اثر آ گیا تھا‘ اس کہانی میں حیرت کا مرحلہ یہی ہے کہ صوبہ ملتان کو تخت دہلی کی گرفت سے نکال کر تخت کابل کے زیرنگیں لانے والے دراصل افغانوں کے وہی قبائل تھے جنہیں کبھی مغل حکمران ہی بے سروسامانی کے عالم میں افغانستان سے سرزمین ملتان میں لائے تھے۔
افغانستان سے شوریدگی اور بے امنی کی وجہ سے ملتان ہجرت کر کے آنے والے افغان قبائل میں سدوزئی خاندان بھی شامل تھا۔ پنجاب میں سکھوں کے عروج سے پہلے سدوزئی افغان قبائل نے پنجاب بالخصوص ملتان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق افغان سدوزئی خاندان نے ملتان پر 50 سال سے زائد حکومت کی اور اس خاندان نے ملتان کو متعدد حکمران دیئے۔ افغانستان سے ملتان آنے والے اس سدوزئی خاندان میں احمد شاہ ابدالی جیسا عظیم سپہ سالار بھی پیدا ہوا جس نے تمام افغان قبائل کو متحد کر کے ایک مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی‘ اسی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کو بابائے افغان بھی کہا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی اپنے مضمون ’’سرگزشت افغان‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’افغان قبائل میں یوسف زئی‘ علی زئی‘ بارک زئی‘ محمد زئی اور لودھی سرداروں نے بہت نام کمایا‘ بالآخر سدوزئی بابائے افغان کہلائے کیونکہ احمد شاہ ابدالی سدوزئی تھا جس نے غور‘ خراسان اور کوہ سلیمان کے علاقوں کو یکجا کر کے 1747ء میں افغانستان کی سلطنت قائم کی ورنہ پہلے یہ علاقے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے اور ہر علاقہ کا سردار ہی حکمران ہوا کرتا تھا‘ ان قبائل کو ہمیشہ تاجدار ایران کنٹرول کرتا تھا چنانچہ احمد شاہ ابدالی نے افغان مملکت کی بنیاد رکھی اور افغانوں کو آزاد مملکت میں رہنے کا درس دیا‘ اسی لئے احمد شاہ ابدالی کو بابائے افغان کہا جاتا ہے‘‘۔
خطہ ملتان میں سدوزئی خاندان کی آمد اور یہاں ان کی حکومت کئی حوالوں سے یادگار اور تاریخی حیثیت کی حامل ہے‘ اس خاندان نے ملتان کی تاریخی اور سیاسی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کئے ہیں وہ آج بھی کسی نہ کسی صورت زندہ ہیں۔ اسی خاندان کے آخری حکمران نواب مظفر خان جنہوں نے سکھوں کیخلاف ایک تاریخی مزاحمتی کردار ادا کیا‘ کو سرائیکی خطے کا ہیرو بھی کہا جاتا ہے‘ یہ نواب مظفر خان کا تاریخی و مزاحمتی کردار ہی تھا کہ جس کی وجہ سے وہ ناصرف اس خطے کی آواز بنے بلکہ آئندہ زمانوں کیلئے اس خطے کی سیاست کا ایک رخ بھی متعین کر گئے۔ سدوزئی خاندان کی ملتان آمد‘ مغلوں سے تعلق‘ احمد شاہ ابدالی کی پیدائش اور ملتان میں سدوزئی خاندان کی طویل حکمرانی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔
کہا جاتا ہے سدوزئی قبیلے کا مورث اعلیٰ اسد اللہ خان معروف بہ امیر سدو خان غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک تھا‘ اسد اللہ خان کی پیدائش 1558ء میں ہوئی‘ اسی اسد اللہ خان معروف بہ سدو خان کی اولاد ہی بعدازاں سدوزئی کہلائی۔ سدوزئی خاندان کے مورث اعلیٰ اسد اللہ نے اپنے علاقے کے افغان قبائل کو متحد کیا‘ افغانستان اور ایران کو ملانے والی شاہراہ کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا چنانچہ صفوی تاجدار شاہ عباس صفوی نے اسے امیر سدو کے خطاب سے نوازا اور قندھار کے شمال مشرق میں علاقہ صفا کی حکومت بھی عطاء کی۔
امیر سدو کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا خواجہ خضر خان قبیلہ کا سردار بنا‘ خضر خان جو اپنے علاقہ میں خواجہ خضر کے نام سے معروف تھا‘ ایک درویش آدمی تھا اور اسے اپنے علاقے میں بڑا احترام حاصل تھا‘ اپنے درویشی مزاج کی وجہ سے خضر خان نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور حکومت اپنے چھوٹے بھائی خان مودود کے حوالے کر دی۔
خان مودود کے بعد شاہ حسین سدوزئی قبیلہ کا سردار بنا مگر خضر خان کے لڑکے سلطان خداداد خان نے علم بغاوت بلند کر دیا‘ ایک خونریز جنگ کے بعد شاہ حسین کو شکست ہوئی اور سلطان خداداد نے صفا پر قبضہ کر لیا‘ شاہ حسین نے خواص خان حاکم قندھار سے امداد طلب کی اور اس کی بھجوائی ہوئی فوج کی مدد سے سلطان خداداد خان کو صفا سے بھگا کر دوبارہ قبضہ کر لیا‘ اس شکست کے بعد سلطان خداداد خان نے ایران کی راہ لی اور اصفہان پہنچ کر شاہ عباس صفوی کو صفا پر حملہ کیلئے اُکسایا اور حملے کی صورت میں اپنی قوم کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا‘ صفوی تاجدار شاہ عباس جو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا‘ اس نے بلا تامل ایک لشکر روانہ کیا۔
جس نے قندھار اور صفا کو محاصرے میں لے لیا‘ اس وقت سدوزئی قبائل دو حصوں میں بٹ چکے تھے‘ شاہ حسین سدوزئی مغلوں کا حامی جبکہ سلطان خداداد خان ایرانیوں کا ساتھ دے رہا تھا بالآخر صفوی حکمرانوں کو فتح حاصل ہوئی اور ایران نے قندھار پر قبضہ کر لیا‘ قندھار پر قبضہ کے بعد سلطان خداداد خان نے شاہ حسین سدوزئی سے صفا بھی چھین لیا۔ان دنوں مغل حکمران شاہ جہان کابل گیا ہوا تھا اور اسے قندھار اپنی قلمرو سے نکل جانے کی اطلاع مل چکی تھی۔
شاہ حسین سدوزئی مغل بادشاہ سے کابل میں ملا اور قندھار پر دوبارہ حملہ کرنے کی ترغیب دی چنانچہ شاہ جہان نے اپنے بیٹے اورنگزیب عالمگیر جو ان دنوں ملتان کا گورنر تھا کی سرکردگی میں ایک لشکر جرار روانہ کیا‘ شاہ حسین سدوزئی بھی اپنے زیر اثر قبائل کے ہمراہ اورنگزیب کے ساتھ گیا، اورنگزیب نے کافی عرصہ اس شہر کا محاصرہ کیے رکھا مگر شدید سردی کی وجہ سے مغل فوج حوصلہ ہار گئی اور محاصرہ اٹھانا پڑ گیا۔
شاہ حسین سدوزئی کی حالت اس وقت قابل رحم تھی کیونکہ صفا سلطان خدا داد کے پاس چلا گیا تھا اور ایرانی شاہ حسین کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ اس نے اورنگزیب کی طرف سے ملتان چلے جانے کی دعوت قبول کر لی، یوں اورنگزیب شاہ حسین کو ملتان لے آیا، ایک معقول رقم بطور وظیفہ مقرر کر دی‘ اس کے علاوہ ملتان اور رنگ پور کے علاقے میں وسیع جاگیر بھی دی۔
شاہ حسین سدوزئی جو صفا اور خراسان کا خود مختار حکمران رہ چکا تھا ملتان (ہندوستان) میں بادشاہ اور شہزادوں کے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کچھ نامواقف حالات اور صبر آزما مصائب و آلام نے بھی اسے چڑچڑا بنا دیا تھا۔ شاہ حسین ایک بار اورنگزیب عالمگیر سے ہم کلام تھا کہ ایک اور شخص نے اس کی بات کاٹ کر ہم کلام ہونے کی کوشش کی‘ شاہ حسین سدوزئی نے اسے ڈانٹا تو اس شخص نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا تو شاہ حسین نے آداب شاہی کا خیال کیے بغیر اس پر تلوار کا ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ وہ وہیں دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا‘ اس پر اورنگزیب عالمگیر بہت برہم ہوا ‘ اس کی سابق خدمات کا لحاظ نہ ہوتا تو شاید قصاص میں قتل کر دیا جاتا۔ شاہ حسین سدوزئی اس کے باوجود بھی شاہی گرفت سے نہ بچ سکا‘ اسے دربار میں حاضری اور سلام شاہ سے محروم کر دیا گیا اور حکم ہوا کہ ملتان میں ہی رہے لیکن دربار میں نہ آئے ۔
(افغانستان سے ملتان میں آنے والے سدوزئی خاندان کی تاریخ کا سب سے بڑا مآخذ شہزادہ علی محمد خان ملوک کی تصنیف ‘‘تذکرۃ الملوک‘‘ ہی ہے، اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ شاہ حسین سدوزئی جو چھوٹے قد اور کالی رنگت کا حامل ہونے کے باوجود بھی بڑی نخوت رکھتا تھا دراصل اورنگزیب عالمگیر سے ہم کلام ہونے والے شخص نے شاہ حسین سدوزئی کی ظاہری حالت پر ہی طنز کیا تھا جسے وہ برداشت نہ کر سکا) ۔ جب شاہ حسین معتوب ہو کر گھر بیٹھ گیا تو سدوزئی خاندان کے معتبرین نے شاہ حسین سدوزئی کے چھوٹے بھائی سردار اللہ داد خان کو اپنا سربراہ تسلیم کر لیا‘ اس نے اپنی قوم کو خوب سنبھالا اور دربار شاہی سے ازسر نو تعلقات قائم کیے۔
اس کی وفات کے بعد سدوزئی قوم کی سربراہی سردار اللہ داد خان کے صاحبزادے نواب عابد خان کے حصے میں آئی اور اسے مغل حکومت کی طرف سے وفادار خان کا خطاب ملا۔ یہی عابد خان شاہ حسین سدوزئی کا وارث بھی تھا اور آگے چل کر اسی کی نسل نے ملتان پر طویل عرصہ تک حکمرانی کی۔ شاہ حسین کی وفات کے بعد اسے اس کی تعمیر کردہ مسجد جو آج بھی ابدالی مسجد کے نام سے معروف ہے کے جنوب میں دفن کیا گیا جس پر نواب عابد خان نے شاندار مقبرہ بنوایا ۔ نواب عابد خان نے دریائے چناب کے کنارے ایک شاندار باغ بھی لگوایا جسے باغ عابد خان کہا جاتا تھا۔
شاہ حسین سدوزئی کو صفا میں شکست سے دو چار کرنے والا سلطان خدا داد خان 1078ھ تک بلا شرکت غیرے حکومت کرتا رہا‘ جب اس کا انتقال ہو گیا تو اس کا لڑکا سلطان حیات خان تخت نشین ہوا ۔ اس نے اپنے والد کی پالیسی کے برعکس صفوی سلاطین سے تعلقات ختم کر کے اورنگزیب عالمگیر سے روابطہ استوار کیے ۔
اورنگزیب عالمگیر نے ہی اسے ’’سلطان خداکئی‘‘ کے خطاب سے نوازا‘ اس نے مغل افواج کے ساتھ مل کر قندھار کے ایرانی گورنر شاہ نواز خان کو شکست فاش دی اور اکتیس جنگیں لڑنے کے بعد تمام خراسان کو اپنے قبضے میں لے لیا‘ مغل افواج تو فتح کے بعد دہلی واپس آگئیں مگر سلطان حیات خان خراسان میں اکیلا رہ گیا‘ ایران کا تاجدار جو قندھار کے چھن جانے کو بھولا نہیں تھا نے 1091ھ میں سلطان حیات خان پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ یہ جم نہ سکا اور شکست کھا کر صفا کی حکومت اپنے بھتیجے جعفر سلطان کے حوالے کر کے خود مع اہل و عیال ملتان آ گیا۔
شہزادہ علی محمد خان مصنف ’’تذکرۃ الملوک‘‘ نے اس کی ملتان آمد کی تاریخ 14 شوال 1093ھ درج کی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر نے اسے بھی ملتان میں بہت بڑی جاگیر مرحمت کی اور اس جگہ آباد ہوا جہاں اب ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی ہے۔ سلطان حیات خان کی تحریک پر مغل افواج نے شہزادہ معز الدین کی کمان میں قندھار پر دو تین حملے کیے لیکن کامیابی نہ ہوئی یوں وہ اپنی آباد کردہ کڑی میں خاموش زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گیا۔
سدوزئی قبائل کی ملتان میں تعمیرات
چند روایات کے مطابق شاہ حسین سدوزئی 1682ء میں ملتان آیا‘ اس نے اپنی ملتان آمد کے بعد ابدالی روڈ پر جہاں آج کل کارڈیالوجی سنٹر کی توسیعی عمارت زیر تعمیر ہے شیش محل تعمیر کرایا اور شیش محل کے عین سامنے کڑی شاہ حسین آباد کی جہاں اس کے قبیلے کے دیگر افراد کی رہائش گاہیں تھیں۔ کڑی شاہ حسین کے قریب ہی اس نے ایک دیدہ زیب مسجد بھی تعمیر کرائی جسے آج بھی ابدالی مسجد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
شاہ حسین سدوزئی کی وفات کے بعد اس کے بھتیجے نواب عابد خان نے اس کا مقبرہ ابدالی مسجد کے جنوب میں تعمیر کرایا۔ شاہ حسین سدوزئی کو افغانستان میں شکست سے دو چار کرنے والے سلطان اللہ داد خان کا بیٹا سلطان حیات خان جو دولت سے لدا پھندا ملتان آیا تھا‘ نے بھی اورنگزیب کی عطا کردہ زمین پر کڑی خدکہ آباد کی‘ یہاں اس نے اپنے لیے ایک محل تعمیر کرایا جو سکھوں کے عہد حکومت میں تباہی سے دو چار ہوا۔ سلطان حیات خان نے اپنے محل میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کرائی‘ یہ مسجد ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی سے شمالی جانب واقع ہے۔ خدکہ خاندان نے ملتان میں ایک مسجد اور بھی تعمیر کرائی جس پر ملتانی روغنی اینٹوں کا کام بڑی نفاست سے ہوا ہے‘ یہ مسجد ملتانی فن تعمیر کا آخری شاہکار کہی جا سکتی ہے۔
احمد شاہ ابدالی کی ملتان میں پیدائش
شاہ حسین سدوزئی جو افغانستان میں شکست سے ہم کنار ہو کر ملتان میں آباد ہوا بے اولاد تھا‘ اس نے اپنے ہی قبیلے کے ایک فرد جلال خان سدوزئی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔احمد شاہ ابدالی کے والد جس کا نام زمان خان تھا کے حوالے سے دو قسم کی روایات ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سلطان حیات خان کے ہمراہ ملتان آیا اور اس نے شاہ حسین سدوزئی کے منہ بولے بیٹے جلال خاں سدوزئی کی سوتیلی ہمشیرہ جس کا نام زرغونہ تھا سے ملتان میں شادی کی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ زمان خان جو پہلے سے ہی شادی شدہ اور صاحب اولاد تھا نے زرغونہ سے افغانستان میں ہی شادی کی‘ زمان خان کو امیر عبداللہ خان نے زنجان کی حکومت دے رکھی تھی۔
1132ھ میں امیر عبداللہ خان ایرانی مقبوضات کو فتح کرنے کے لئے نکلا تو اس نے زمان خان کو زنجان سے بلا کر ہرات کا حاکم بنا دیا‘ قلعہ غور فتح کرنے کے بعد امیر عبداللہ خان آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ اسے ہرات میں زمان خان کی بغاوت کی اطلاع ملی‘ عبداللہ خان نے ایرانی علاقے فتح کرنے کا خیال ترک کرکے فوراً ہرات کا رخ کیا‘ عبداللہ خان کی آمد کا سن کر زمان خان قلعہ بند ہوکر بیٹھ گیا لیکن عبداللہ خان نے محافظین قلعہ کی مدد سے ہرات فتح کرلیا اور زمان خان اپنے ساتھیوں سمیت اس مہم میں مارا گیا۔ زمان خان کے اہل خانہ جو افغانیوں کے جذبہ انتقام سے واقف تھے امن تلاش کرتے پھرتے تھے‘ اس افراتفری میں زمان خان کی چھوٹی بیگم جو حاملہ تھی اپنے بھائی جلال خان سدوزئی کے پاس ملتان آگئی۔
جلال خان جو کڑی شاہ حسین میں رہتا تھا‘ کے گھر میں زمان خان کے قتل کے چار ماہ بعد1722ء میں احمد شاہ ابدالی پیدا ہوا‘ احمد شاہ ابدالی کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی اس کی والدہ بھی انتقال کرگئی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال ملتان میں ہی گزارے اور ابدالی مسجد میں تعلیم حاصل کی‘ بعض محققین احمد شاہ ابدالی کی پیدائش کا شہر ہرات قرار دیتے ہیں لیکن ’’تذکرہ الملوک‘‘ جو سدوزئی خاندان کی تاریخ کا اہم ترین مآخذ ہے‘ کے مطابق احمد شاہ ابدالی کی پیدائش ملتان میں ہی کڑی شاہ حسین میں ہوئی جہاں برطانوی دور حکومت میں اس جگہ ایک کتبہ نصب کیا گیا‘ قیام پاکستان کے بعد یہاں باقاعدہ یاد گار تعمیر کی گئی۔
سدوزئی خاندان کے حکمران
محمد شاہ شہنشاہ ہند نے 1740ء میں صلح کے وقت نادر شاہ کو جہاں دہلی کا سارا خزانہ نذر کیا تھا وہاں پنجاب‘ کابل اور سندھ کے علاقے بھی پیش کئے تھے‘ نادر شاہ کے انتقال کے بعد احمد شاہ ابدالی جب تخت کابل پر براجمان ہوا تو یہ تمام علاقے اس نے بزور شمشیر اپنی قلم رو میں شامل کر لئے تھے‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ دہلی احمد شاہ تیموری نے ازخود ایک فرمان کے ذریعے ملتان اور لاہور کے صوبہ جات احمد شاہ ابدالی کے حوالے کر دیئے تھے جس پر 1752ء میں اس نے ملتان میں اپنے نام سے سکہ جاری کیا تھا۔
یہ الگ بات کہ ملتان میں سدوزئی خاندان کی حکمرانی کا آغاز شاہ ابدالی کے تخت کابل پر براجمان ہونے سے پہلے ہی ہو چکا تھا لیکن سدوزئی خاندان کی یہ تقرری لاہور میں مغل گورنر نواب زکریا خان کی سفارش پر کی گئی تھی۔ ملتان مین سدوزئی خاندان کا پہلا حکمران نواب عابد خان کا بیٹا نواب زاہد خان تھا‘ نواب زاہد خان کو نواب عابد خان کی وفات کے بعد سدوزئی خاندان نے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کیا تھا‘ 1150ھ میں نواب عبدالصمد خان حاکم لاہور کی وفات کے بعد نواب زکریا خان نے اسے ملتان میں اپنا نائب مقرر کیا‘ ان دنوں لاہور اور ملتان مغل حکومت کے ہی زیرنگیں تھے لیکن اس دور میں مغل نظام سلطنت کی چولیں ڈھیلیں ہو چکی تھیں چنانچہ ابھی نواب زاہد خان کو حکومت کرتے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ خواجہ اسحٰق کو ملتان کا چارج دے دیا گیا بعد ازاں پھر زاہد خان کی تقرری ہوئی۔
نواب زاہد خان کی وفات کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا نواب شاکر خان بھی کچھ عرصہ کیلئے ملتان کا گورنر بنا لیکن یہ تقرری بھی لاہور کے مغل گورنر کے ہی ماتحت تھی۔ ملتان کے سدوزئی خاندان کے دیگر افراد کو بھی وقتاً فوقتاً ملتان کی حکومت ملتی رہی جن میں نواب عبدالعزیز خان خدکہ سدوزئی جو سلطان حیات کے صاحبزادے تھے‘ نے ملتان پر 6 ماہ حکومت کی۔
اسی دوران احمد شاہ ابدالی نادر شاہ درانی کے قتل کے بعد افغانستان کا بادشاہ بن گیا تھا‘ اس نے لاہور اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد پہلے پہل 1750ء میں علی محمد خان خوگانی کو ملتان کا گورنر بنایا لیکن مرہٹوں نے پنجاب اور ملتان کو فتح کرلیا‘ احمد شاہ ابدالی نے دہلی کے قریب مرہٹوں کو شکست دی تو ملتان بھی ان کے قبضہ سے نکل آیا‘ یوں 1756ء میں احمد شاہ ابدالی نے زاہد خان کے بیٹے نواب شجاع خان کو ملتان کا گورنر بنایا جسے علی محمد خان خوگانی نے قید کردیا‘ جس پر احمد شاہ ابدالی ملتان آیا اور علی محمد خوگانی کو نشان عبرت بنا کر دوبارہ نواب شجاع خان کو ملتان کی حکومت سونپی‘ نواب شجاع خان دو بار ملتان کے گورنر رہے۔
کچھ عرصہ بعد حاجی شریف سدوزئی دربار کابل سے حاکم ملتان نامزد ہوکر آیا لیکن حکومت پھر شجاع خان کے ہاتھ میں آئی‘ 1776ء میں نواب شجاع خان کا بیٹا نواب مظفر خان ملتان کا گورنر بنا جس نے 1818ء تک ملتان پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ نواب مظفر خان نے ملتان پر قریباً 40 سال حکومت کی بظاہر تو ان کی حکومت تخت کابل کے زیراثر تھی لیکن ایسا صرف برائے نام تھا‘ نواب مظفر خان ایک طرح سے ملتان کے خودمختار حکمران تھے۔
“