یورپ میں تاریخ نویسی کی روایت پرانی ہے۔ ابتدائی تاریخ یا تو حکمرانوں کی ہوتی تھی یا مسیحی اولیا کی سوانح حیات اور ان کی کرامات۔ تاریخ کا ایک بڑا حصہ باہمی جنگوں پر مشتمل تھا یا سفارتی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا۔
تاریخ لاطینی زبان میں لکھی جاتی تھی، جو عوام کی فہم سے بالاتر تھی۔ واقعات کو بیان کرتے وقت ان میں دلکشی پیدا کرنے کے لیے ادبی زبان کو استعمال کیا جاتا تھا اور واقعات کو طول دے کر لکھا جاتا تھا۔
لیکن بیسویں صدی میں جب سائنسی انقلاب آیا تو تاریخ کو لکھنے کا انداز بھی بدل گیا۔ گیورگ جی ایگرز نے اپنی کتاب ‘بیسویں صدی میں تاریخ نویسی‘ میں اس بدلتے ہوئے تاریخ نویسی کے اسلوب کو بیان کیا ہے، جو بدلتے ہوئے حالات کے تحت وجود میں آیا۔
اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اب تاریخ نویسی کا کام پروفیشنل مورخوں کے ذمہ ہو گیا، ورنہ اب تک اس کی کوئی قید نہ تھی۔ ہر فرد مورخ بن کر تاریخ لکھ سکتا تھا، لیکن اب مورخوں کے لیے قواعد و ضوابط کا تعین کیا گیا۔ ان کے لیے یہ لازمی ٹھہرا کہ وہ بنیادی ماخذوں اور دستاویزات کا مطالعہ کریں گے۔ ماخذوں سے متعلق دوسری زبانیں سیکھیں گے، واقعات کو شواہد کی روشنی میں لکھیں گے اور ان کے حوالہ جات بھی دیں گے۔
اس سلسلے میں لیوپولڈ رانکے، جو برلن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے، نے پروفیشنل مورخوں کے لیے نئے قوانین بنا کر اور یونیورسٹی میں سیمینار کا طریقہ روشناس کروا کر نوجوان لوگوں کی تربیت کی۔ ان کے زمانے میں سرکاری دستاویزات مورخوں کی پہنچ میں آ گئی تھیں۔
اس لیے ان کا پہلا اصول یہ تھا کہ درست تاریخ صرف سرکاری دستاویزات کی مدد سے لکھی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے اس تاریخ کا تعلق عوام کے بجائے حکمران طبقوں سے ہو جاتا تھا۔
دوسرا اصول یہ تھا کہ ماضی کے واقعات کو اسی طرح سے بیان کیا جائے، جیسے کہ وہ وقوع پذیر ہوئے تھے۔
تیسرا اصول یہ تھا کہ مورخ کو واقعات کے سلسلے میں نہ تو اپنی رائے دینا چاہیے اور نہ کوئی فیصلہ سنانا چاہیے، بلکہ واقعات کو شواہد کے ساتھ بیان کر دینا چاہیے۔
رانکے کی اس تاریخ نویسی کا فائدہ ریاست کو تھا، کیونکہ مورخ جب کوئی فیصلہ نہیں دے گا اور تنقید نہیں کرے گا تو اس صورت میں حکمران طبقے تاریخ کی عدالت سے بری ہو جائیں گے اور مجرم نہیں ٹھہریں گے۔
رانکے چونکہ پروشیا کی ریاست کا ملازم تھا اس لیے وہ اس کی بالادستی کو قائم رکھ کر جمہوریت کا مخالف تھا۔ اس کے اثر و رسوخ کا فائدہ یہ تھا کہ جرمنی کی تمام یونیورسٹیوں میں اس کے شاگرد تاریخ کے پروفیسر ہو گئے۔ انہوں نے اس کے نظریات کو نہ صرف جرمنی میں پھیلایا، بلکہ یورپ کے دوسرے ملک اور امریکا بھی اس سے متاثر ہوئے۔
امریکا میں تاریخ نویسی کی بنیاد رانکے کے ایک شاگرد جارج بینکروفٹ نے امریکا میں اس کے تاریخی نظریات کی بنیاد رکھی۔ تین جلدوں میں لکھی گئی اس تاریخ نے امریکا کو ایک قوم بنانے اور قوم پرستی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد دی۔
چونکہ اس تاریخ نویسی کی بنیاد دستاویزات اور تاریخی ماخذ تھے اس لیے جرمنی اور فرانس میں بنیادی ماخذوں کو اکٹھا کرنے کا کام شروع ہوا تاکہ ان کی مدد سے تاریخ لکھی جائے۔
لیکن جب یہ ماخذ اور دستاویزات جمع ہوئیں تو ان سب کا تعلق حکمران طبقوں کے علاوہ عوام سے بھی تھا۔ ان میں فوک کہانیاں بھی تھیں، گانے بھی تھے، عدالتوں کا ریکارڈ بھی تھا اور عوام سے جو ٹیکس وصول کیے جاتے تھے، ان کی فہرستیں بھی تھیں۔
خاص طور سے چرچ کے محکمہ تفتیش عقائد میں جن افراد پر مسیحیت سے منحرف ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا اور ان پر مقدمات چلتے تھے، ان کی تمام فائلیں بھی موجود تھیں۔ اسی طرح سے عہد وسطیٰ میں جادوگروں پر جو مقدمات ہوئے، ان کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ خانقاہوں میں راہب جو اپنے ماحول اور واقعات میں لکھتے تھے وہ بھی اب ان کی پہنچ میں تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مورخوں کے پاس تاریخی مواد کا ایسا ذخیرہ ہاتھ آیا کہ اس نے تاریخ نویسی میں کئی مکاتب کو پیدا کیا۔ اب مورخوں کے سامنے تاریخ کے دو مکتب فکر تھے۔
ایک ‘میکرو‘ اور دوسرا ‘مائیکرو‘ ہے۔ میکرو کا مطلب ہے کہ تاریخ کو وسیع تناظر میں لکھا جائے۔ جیسا کہ عالمی تاریخ لکھی گئی ہے یا تہذیب کی تاریخ کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ لکھا گیا ہے۔
وسیع تاریخ لکھتے وقت مورخ معمولی واقعات اور حادثات کو نظر انداز کر دیتا تھا۔ مثلاً بڑے شہروں کی تاریخ لکھی جاتی تھی، مگر گاؤں اور قصبوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔
مائیکرو تاریخ میں حاشیے پر ہونے والے واقعات کو حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے گاؤں کی تاریخ لکھی، ان کے رسم و رواج، عادات اور کھانے پینے کے کلچر کو اہمیت دی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں نت نئے موضوعات آئے۔ جن موضوعات کو اب تک تاریخ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اس کا حصہ بن گئے۔
اب مورخوں نے ریکارڈ کی مدد سے جادو گرنیوں کے حالات لکھے۔ انہیں جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ بھی بیان کیں، جس سے معاشرے کی تنگ ذہنیت کا اندازہ ہوا۔
مسیحی منحرفین کو زندہ جلانے کے واقعات بھی بیان کیے۔ اقلیتوں کے ساتھ، جن میں یہودی شامل تھے، برتے گئے تعصب کو بھی ظاہر کیا گیا۔
نئے تاریخی مواد کی وجہ سے عوامی تاریخ بھی لکھی گئی جس میں کسان، مزدور، کاریگر، چھوٹے دکاندار، گھریلو ملازم اور دوسرے نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
مثلاًایڈورڈ پی تھامسن نے ‘میکنگ آف انگلش ورکنگ کلاس‘ لکھ کر بتایا کہ انگلش ورکنگ کلاس کی تشکیل کیسے ہوئی اور وہ کیوں کر سیاسی طور پر باشعور بنے۔ امریکا میں عوامی تحریک کے بانی ہاورڈ زین نے ’پیپلز ہسٹری آف دی یونائیٹیڈ اسٹیٹس‘ لکھی۔
اب یورپ اور امریکا کے علاوہ برصغیر میں بھی مورخین عوامی تاریخ پر تحقیق کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے تاریخ نویسی ایک نئے اور اہم دور میں داخل ہو چکی ہے۔
جرمنی کے بعد تاریخ نویسی پر دوسرا اہم اثر فرانس کا ہے، جہاں تاریخ کے دو پروفیسروں، لوسیاں فیورا اور مارک بلوک نے ’انالس سکول‘ کی بنیاد رکھی۔ اس مکتب فکر کے مورخین نے تاریخ نویسی کو سیاست سے جدا کر کے سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی پہلوؤں پر زور دیا۔
انہوں نے تاریخ کو علیحدہ رکھنے کے بجائے اس میں سوشیالوجی، نفسیات، آرکیالوجی، علم نشریات، ادب، فن اور سائنس وغیرہ کو بھی شامل کیا۔ اسے وہ ‘ٹوٹل ہسٹری‘ کہتے ہے تاکہ ان تمام علوم کے ذریعے انسانی معاشرے کی مکمل عکاسی کی جا سکے۔
اس سکول کے مورخین نے کسی ایک خاص نکتہ نظر کو اختیار نہیں کیا بلکہ مختلف نقطہ ہائے نظر کو جگہ دی تاکہ وہ اپنے نظریات کا اظہار کر سکیں۔
اس مکتبہ فکر کے اہم مورخ فیرنینڈ بؤرڈیل نے اپنی کتاب ‘دی میڈیٹرینیئن‘ میں آب و ہوا کی تبدیلی اور اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کی دلیل کے مطابق تبدیلی کو لاکھوں برس کے دورانیے میں دیکھنا چاہیے۔ واقعات کی تبدیلی ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے اوپر جھاگ ہو۔
اس سکول کے مورخین نے ایسے اہم موضوعات پر تحقیق کی جو اب تک تاریخ میں روپوش تھے۔ جیسے خوشبو، صفائی، روزمرہ کی زندگی، آداب، رسومات، نجی زندگی، تاریخ میں بچوں کا کردار، بیماریاں اور وبائیں، خوشامد، بے وقوفی، سستی اور کاہلی وغیرہ وغیرہ۔
ان موضوعات کی وجہ سے تاریخ نہ صرف وسیع ہوئی، بلکہ اس کی مدد سے فرد اور معاشرے کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوئی۔
امریکا اور یورپ میں تاریخ کے مضمون کی اہمیت باقی ہے، وہاں کی جامعات میں سختی کے ساتھ تحقیق کے لیے لکھے جانے والے مقالوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ اس لیے وہاں پروفیشنل مورخوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
بھارت میں بھی تاریخ کا مضمون بے انتہا مقبول ہے اور وہاں کی جامعات میں قدیم بھارت، عہد وسطیٰ کا ہندوستان، نوآبادیاتی دور حکومت اور آزادی کے بعد کی جدید تاریخ پر اعلیٰ و معیاری کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان تاریخ نویسی کے معاملے میں اب بھی بہت پسماندہ ہے۔ یہاں طالب علموں کو کم ہی مواقع ملتے ہیں کہ وہ تحقیق کے اصول و ضوابط سیکھیں اور پھر ماخذوں کی مدد سے تاریخ لکھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...