(تاریخ میں موت کا تصوّر)
انسانی زندگی میں موت کا آنا اگرچہ لازمی امر ہے لیکن ابتدا ہی سے انسانی ذہن اس کے لئے تیار نہیں دنیا کی سب سے قدیم داستان گلگامش میں جب وہ اپنے دوست کی موت کے بعد اس سے واقف ہوتاہے تو وہ ایک ابدی کی تلاش میں جگہ جگہ مارا پھرتاہے اور آخر میں اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسان کو لافانی زندگی کا حصول ممکن نہیں دنیا کی قدیم تہذیبوں میں آب حیات اور اکسیر کی تلاش کی کہانیاں موجود ہیں لیکن آخر میں سب کو موت کی حقیقت تسلیم کرنا پڑی.
ان مورخ یہاں معاشرے کے دوسرے پہلووں کا جائزہ لےرہے وہیں وہ مقبروں پر لیکھے کتبوں ڈراموں شاعری مصوری کے ذریعے ماضی میں موت کے تصور پر تحقیق کر رہے ہیں خاص طور سے اس پہلو پر کہ مختلیف اپنی ذات کی شناخت موت کے بعد کس طرح سے چاہتے ہیں.
مثلاً یونان کےمشہور ڈرامہ نگار Aeschelus نے جو اپنی قبر پر کتبہ لگوایا اس میں خود کو ڈرامہ نگار کی بجائے ایک جنرل کی حیثیت سے روشناس کروایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کے یونانی معاشرے میں فوجی جرنیل کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور اس کا وقار دانشور سے زیادہ تھا فرانس کے اسکول کے مورخوں نے سماجی اور ثقافتی تاریخ اور اس کے پہلووں پر بہت زیادہ توجہ دی ہے خاص طور سے انہوں نے انسانی احساسات جذبات وار رویوں کی تاریخ لکھ کر تاریخ کے مضمون وسعت دی ہے اسی کتب سے تعلق رکھنے والےAries Philip ثقافتی موضوعات پر لکھ کر تاریخ کو بےحددلچسپ بنادیا اس کی ایک کتاب.. (بچپن کی کئی صدیاں) جن میں تحقیق کی بعد بتایا ہے کہ ماضی میں بچوں کو بڑوں کی طرح ہی تصور کرکے ان سے سلوک کیا جاتا تھا بچوں کے بارے میں ہمارا جدید نطقہ نظر ماضی سے جدا ہے اب ہم بچوں کو ان کی عمر کے مطابق ان سے سلوک کرتے ہیں ان کے کھانے لباس اور کھلونے ان کی کہانیاں ماضی کے مقابلے میں باکل مختلف ہیں فلپ ایریز. نے ہی ایک اور اہم کتاب لکھی ہے اس میں اس نے عہد وسطیٰ سے لےکر موجودہ زمانے تک موت کے بارے میں لوگوں کے خیالات اور تصورات کو پیش کیاہے مثلاً جب اس نے عہد وسطیٰ کی صلیبی جنگوں میں لڑنے والے فوجی مہم جووں کے مقبروں اور ان کی قبروں لگے کتبوں کا مطالعہ کیا تو اس نے دیکھا کہ ان میں نائٹ Knight کو اس کے فوجی لباس میں دکھایا گیاہے اور عبارت سے اس بات کا اظہار ہے کہ اس نے بہادری اور شجاعت کے ساتھ مذہب کی خاطر جان دےدی لہٰذا میدان جنگ میں عقیدے کی خاطر جان قربان کرنے والا تاریخ میں امر ہوگیا یہاں فوجی مہم جو خوشی سے زندگی کے عوض موت کو قبول کر رہاہے اور معاشرہ اس کی موت پر نازاں ہے ایری نے جب تیرہویں اور چودہویں صدی کے مقبروں کا مطالعہ کیا تو اب مقبروں کے بارے میں اسے نِئے تصور نظر آئے یہ وہ دور تھا جب یورپ میں طاعون کی بیماری آئی تھی جس نے آناً فاناً میں لوگوں کی کثیر تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اس لئے یہ عہد بلیک ڈیتھ کے نام سے موسوم ہوا
مذہبی راہنماوں نے اس آفت کو انسانی گناہوں کا سبب قرار دیا طاعون کی بیماری قہر الہٰی تھی جس نے لوگوں کو سزا دی اس کا اظہار مقبروں میں ان تصاویر سے ہوتاہے کہ جس میں مردہ جسم کو کیڑے کھا رہے ہیں جس میں سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا جارہا ہے اس لئے طاعون کی بیماری میں مرنے والوں نے اپنے گناہوں کی سزا پائی اس کے بعد جب تاریخ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور وہ زمانہ آتاہے کہ یورپ میں جب تاجروں کا طبقہ ابھرا اور جنہوں نے اپنی تجارت کے ذریعے خوب دولت کمائی لہٰذا پندرہویں اور سوہلویں صدی میں ان دولت مند تاجروں نے جب اپنے مقبرے بنوائے تو اس کے ساتھ ہی اپنی دولت کا ایک حصہ آخرت میں اپنی مغفرت کے لئے علیحدہ سے رکھ دیا چرچ نے اس زمانے میں اس خیال کو پھیلایا کہ مرنے کے بعد انسان نہ تو فوراً جنت میں جاتاہے نہ جہنم میں بلکہ اس کی روح عالم برزخ میں رہتی ہے اب اس کے وارث مرنے والے کی مغفرت کے لئے مذہبی رسومات ادا کریں اور چرچ کو ان رسومات کی ادائیگی کی اخراجات ادا کرتے رہیں تو خدا انہیں عالم برزخ سے نکال کر جنت میں لے جائےگا چنانچہ تاجروں کے خاندان عبادت گاہوں کی تعمیر کراتے تھے اور مغفرت کے لئے دعاوں کا اہتمام کرواتے تھے پھر زمانے کی تبدیلی اور اس کے ساتھ موت کے بارے میں تصورات کا ذکر کرتاہے ایریز
مثلاً مذہبی تحریک . تحریک اصلاح مذہب پروٹسٹنٹ فرقے میں برزخ کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی مرنے والوں کی مغفرت کےلئے مذہبی رسومات کا ذکر ہے اسی لئے جب مورخوں نے اس عہد کے دولت مند طبقے کی وصیتوں کا مطالعہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ چودہویں صدی کے لوگ اپنی دولت کا ایک حصہ چرچ کے نام کرجاتے لیکن اب ان کی وصیتوں میں ان کی جائیداد سیکولر اداروں کے لئے وقف کی گئی ہیں یعنی اہسپتعال تعلیمی ادارے اور یتیم خانے وغیرہ.
ایک دوسری تبدیلی ایریز ذکر کرتاہے وہ یہ ہے کہ اب تک قبرستان چرچ کے احاطے میں ہوتے تھے اور شہر کے لوگ ان قبرستانوں میں بازار بھی لگاتے تھے اور میلے بھی منعقد کرتے تھے ان سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے زیادہ لوگوں کا تعلق مرنے والوں سے مستقل رہتاتھا لیکن اب قبرستان چرچ سےکر شہر سے باہر اپنے ایک مخصوص علاقے میں آگئے اس کا مطلب یہ تھا کہ قبرستانوں پر چرچ کی مذہنی اجاراداری نہیں رہی تھی اور وہ ان سے آزاد ہوکر اپنا علیحدہ مقام رکھنے لگے جب کوئی خاندان کا بزورگ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہوتاتھا تو خاندان کے افراد اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے تھے اور وہ اپنے لوگوں میں گھرا ہوا دم توڑتا تھا لیکن اب موجودہ زمانے میں جب کوئی فرد آخری سانس لیتاہے تو اس کے ارد گرد خاندان کے لوگوں نہیں بلکہ اہسپتال کی مشینیں ڈاکٹر نرسیں ہوتیں ہیں موجودہ زمانے میں ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ اب دفن کرنے کی بجائے مردہ جسم کو جلانے کی وصیت کرتے ہیں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جنگوں میں مرنے والوں کی یاد میں یادگاریں تعمیر کی جاتی ہیں کبھی یہ یاد گار کسی ایک فرد کے لئے ہوتی ہے اور کبھی فوجیوں کی اس جماعت کیلئے جنہوں نے جنگوں میں اپنی جانیں دیں یہ یادگاریں لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرتی ہیں کہ اگر وہ ملک اور قوم کیلئے جان دیں گے تو قوم بھی انہیں یاد رکھے گی…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“