اجتماعی ہسٹیریا Mass Hysteria ایک شدید نوعیت کا نفسیاتی مرض ہے جس میں کئی افراد بیک وقت غیر معمولی حرکات و سکنات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اجتماعی ہسٹیریا کو طبی زبان میں mass psychogenic illness یا MPI کہا جاتا ہے۔۔۔۔ تاریخ میں اجتماعی ہسٹیریا کے لاتعداد واقعات ہوچکے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
1- فرانس 🇨🇵
۔1844 میں لکھی گئی ”جے ایف سی ہیکر” کی کتاب Epidemics of the Middle Ages
میں ازمنہ وسطٰی کے فرانس کا واقعہ درج ہے کہ ایک کیتھیڈرل جہاں بہت سی Nuns رہتی تھیں ۔
ایک دن عبادت کی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد کی بات ہے ایک چرچ نے بیٹھے بیٹھے بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنا شروع کردیا ۔
اتنے میں ایک اور پھر دوسری پھر تیسری یہاں تک کہ سبھی ننز بلاوجہ اندھادھند میاؤں میاؤں شروع ہوگئیں۔
اس کے بعد یہی سلسلہ چل نکلا اس کیتھیڈرل کی ننیں روز مل کر کئی کئی گھنٹوں تک میاؤں میاؤں چھیڑے رکھتی تھیں وہ بھی با آوازِ بلند۔
کبھی آدھی رات کو شروع ہوجاتیں کبھی دن کو کبھی کھانے کے وقت ۔
اردگرد کے گھروں میں رہنے والے لوگ ان کی اس میاؤں میاؤں سے بہت تنگ آتے تھے یہاں تک کہ ایک دن انہوں اس زمانے کی پولیس کو اطلاع کردی ۔
پولیس والوں نے آ کے ننوں کو کوڑے مارنے کی دھمکی دی تو تب یہ سلسلہ تھما ۔
۔۔۔
2- فرانس 🇨🇵
– 1518 میں فرانس کے شہر سٹراس برگ میں ایک روز ایک مقامی خاتون نے ایک سڑک کے کنارے خوامخواہ بےہنگم رقص شروع کردیا ۔
شروع شروع میں تو آس پاس سے گزرنے والے لوگوں نے اسے نشے میں سمجھ کر نظر انداز کردیا۔۔۔۔ لیکن اس کا رقص جب گھنٹوں اور پھر دنوں تک طویل ہوگیا تو یہ معاملہ شراب نوشی کے اثرات سے اوپر کا لگنے لگا ۔
وہ خاتون محض دن میں ایک آدھ بار کچھ کھانے پینے کے لیے رکتی یا پھر رات کو جب تھک کے چُور ہوکر گر جاتی تو تب ہی رکتی اور صبح پھر سے شروع ہوجاتی ۔
لیکن۔۔۔۔معاملہ یہیں تک محدود نہیں تھا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ دو چار لوگ اور بھر آکر اس کے ساتھ یوں ہی بےہنگم رقص کرنا شروع ہوگئے ۔۔۔ یہاں تک کہ سڑک کنارے دن رات صبح شام ہر وقت محوِ رقص لوگوں کی تعداد جب 40 ہوگئی تو حکومت کو ہوش آیا اور ڈاکٹرز نے اندازہ لگایا کہ یہ اجتماعی رقص ضرور کسی مرض کا نتیجہ ہے ۔
رقص گردوں کی تعداد میں روزانہ جہاں دس سے پندرہ افراد کا اضافہ ہوتا جارہا تھا وہیں اب روزانہ 5 سے 10 رقاص ایگزاسچن کا شکار ہو کر مرتے بھی جارہے تھے ۔
مجموعی طور پر یہ تعداد 400 افراد تک جا پہنچی۔
حکومت نے تنگ آکر کسی بھی پبلک مقام پر رقص کرنے پر پابندی عائد کردی اور ان سیکنڑوں متاثرین کو شہر سے دور ایک الگ مقام پر منتقل کردیا کہ اب یہاں جتنا چاہے رقص کرو ۔
ان متاثرینِ اجتماعی ہسٹیریا میں اکثریت لوگ ایگزاسچن کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
۔۔۔۔۔
3- پرتگال 🇵🇹
اس واقعہ کو اب تک کئی مسیحی ایک معجزہ مانتے ہیں یعنی اس دور میں بھی اس واقعہ کو حقیقی تسلیم کرنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں۔۔۔
ہوا کچھ یوں کہ پرتگال کے گاؤں فاطمہ Fátima میں تین بچوں نے یہ پیشنگوئی کی کہ 13 اکتوبر 1917 کو سورج میں ایک معجزہ رونما ہوگا اور حضرت مریم کا چہرہ سورج میں دکھائی دے گا ۔بعض اخبارات نے یہ خبر شائع کردی چنانچہ 13 اکتوبر کے روز کم از کم 70 ہزار افراد اس نیت کے ساتھ سورج پر نظر جمائے بیٹھے تھے کہ اب معجزہ رونما ہوگا ۔
اس روز ہزاروں لوگوں نے سورج کو کئی مرتبہ رنگ بدلتے ، گیند کی طرح تیزی سے ادھر ادھر حرکت کرتے دیکھا اور اکثریت لوگوں کو سورج میں حضرت مریم کے چہرے کی جھلک نظر آئی۔۔۔
اب یہ واقعہ اجتماعی نفسیاتی مغالطے کا مستند ترین واقعہ ہے جب ہزاروں لوگوں نے بیک وقت وہ کچھ دیکھا کہ جس کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا بلکہ یہ چند بچوں کی شرارت تھی۔
۔۔۔۔۔۔
4- تنزانیہ 🇹🇿
1962 میں تنزانیہ کے شہر “کشاشا” میں لڑکیوں کے ایک سکول کا واقعہ ہے کہ کلاس میں بیٹھے بیٹھے تین لڑکیوں نے بلاوجہ ہنسنا اور پھر قہقے لگانا شروع کردیا۔۔۔۔۔اب ٹیچر ان کو اس حرکت پر سرزنش کرنے ہی لگی تھی کہ کلاس کے مزید بچوں نے قہقہے لگانا شروع کردیا ۔
یہ قہقہہ بازی کا سلسلہ 217 سٹوڈنٹس تک پھیل گیا اور پورے 16 دن تک جاری رہا ۔۔۔ لیکن اتنا ہی نہیں۔۔۔۔ اس سکول سے یہ وبا 13 مزید سکولز تک پہنچ گئی اور سبھی کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا ۔
کئی روز تک کشاشا کی گلیاں سینکڑوں بچوں کے قہقہوں سے گونجتی رہیں ۔
۔۔۔۔
5- امریکہ 🇺🇲
1988 میں سان ڈیگو ، امریکہ میں ایک ہی دن ایک ہی وقت میں امریکی بحریہ کے 600 افراد کو اچانک سانس کی بندش نے آن گھیرا ۔۔۔۔ وہ سب افراد ایک ہی مقام پر نہیں تھے بلکہ الگ الگ جگہوں پر الگ الگ کام سرانجام دے رہے تھے ۔
ہنگامی صورتحال کے پیش نظر سب کو ہسپتال منتقل کردیا گیا اور بحریہ کی تنصیبات کو یہ سمجھ کر سیل کردیا گیا کہ وہاں کسی کیمیکل یا گیس کی لیکج ہوئی ہے۔
لیکن تفصیلی معائنہ کے بعد نہ تو ان مقامات سے کسی گیس ، کیمیکل ، وینٹی لیشن کے مسئلے یا کسی بھی خرابی کی نشاندہی ہو پائی ۔
اور نہ ہی ان سبھی اہلکاروں میں کسی جسمانی مرض کی نشاندہی ہوسکی۔
۔۔۔۔۔۔۔
6- ہندوستان 🇮🇳
2001 میں ہند کے دارالحکومت دہلی میں ایک افواہ پھیلی گئی کہ دہلی میں بار بار ایک ایسی مخلوق کو دیکھا جارہا ہے کہ جو بندر اور انسان کی ملی جلی شکل و صورت رکھتی ہے۔۔۔ اس مخلوق کو The Monkey man of Dehli کا نام دیا گیا ۔
سینکڑوں لوگوں نے اسے دیکھنے کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ 3 لوگ ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اس اس وقت دیکھا کہ جب وہ کسی چھت یا اونچی جگہ پر تھے اور خوف کے مارے انہوں نے چھت سے چھلانگ لگا دی۔
اجتماعی نفسیاتی مغالطے کا یہ واقعہ بالکل مستند ہے ۔۔۔۔ ہندو مت میں چونکہ بند کی پوجاکی جاتی ہے ، دہلی میں بےحساب بندر پائے جاتے ہیں اور ہندومت کے بھگوان ہنومان کی شکل بھی بند و انسان کی مشترکہ صورت سے ملتی جلتی ہے لہذا سینکڑوں لوگوں نے اس افواہ کے پھیلنے کے بعد لاشعوری طور پر ایک ایسی مخلوق کو دیکھ لیا کہ جو سرے سے وجود نہیں رکھتی۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...