گو سمندری قزاق ہونا بالعموم مردوں کا پیشہ رہا ہے، تاہم کچھ خواتین سمندری قزاقوں نے بھی اس پیشے میں بڑا نام پیدا کیا۔
بحری قزاقی کی موجودگی تاریخ میں کافی پرانی ہے۔ ہومر نے بھی الیئڈ اور اوڈیسی میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ رومیوں کے زمانے میں بھی بحری قزاق تجارتی جہازوں کو لوٹتے تھے لیکن ان میں اس وقت اضافہ ہوا جب امریکہ کی دریافت کے بعد سپین کی حکومت چاندی سے بھرے جہاز واپس لاتی تھی۔
بحری قزاق ان جہازوں کو لوٹتے تھے۔ اُس وقت اُن کی پناہ گاہیں ویسٹ انڈیز کے جزائر تھے اور بہت غیرآباد جزیرے بھی تھے جہاں وہ کچھ عرصے قیام کر کے پھر سمندر میں لوٹ آتے ۔
برطانیہ اور دوسری یورپی حکومتیں نوجوانوں کو زبردستی جہاز میں بھرتی کرتے تھے اور اُن کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ اس لیے بحری جہازوں میں بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں اور باغی جہاز پر قبضہ کر کے سمندری قزاق بن جاتے تھے۔
اگرچہ اُن کی زندگی پُرخطر تھی اور یہ قانون کے مجرم ہوتے تھے مگر ایک مرتبہ قزاق ہونے کے بعد اُن کی واپسی ممکن نہیں ہوتی تھی۔ ان قزاقوں میں عورتوں کا بھی پتہ چلتا ہے جو مردانہ بھیس میں قزاق بن جاتی تھیں۔
تاریخ میں ہمیں سوائے چند عورتوں کے باقی عورتوں کے بارے میں پتہ نہیں چلتا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عورتیں ہونے کی وجہ سے اُن پر جو ظلم ہوتا تھا تو اُس کے نتیجے میں وہ مرد بن کر اپنی زندگی گزارنا پسند کرتی تھیں۔
گو سمندری قزاق ہونا بالعموم مردوں کا پیشہ رہا ہے۔ تاہم کچھ خواتین سمندری قزاقوں نے بھی اس پیشے میں بڑا نام پیدا کیا۔ یہ اصول تھا کہ سمندری جہاز میں عورتوں اور لڑکوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ بلکہ جہاز کا ایک معاہدہ تحریر کیا جاتا جس پر جہاز کا سارا عملہ دستخط کرتا کہ جہاز میں نہ کوئی عورت لے جائی جائے اور نہ ہی لڑکا۔
چونکہ عورتوں کا سمندری جہاز پر سفر کرنا ممنوع تھا، لہذاکچھ خواتین مردوں کا حلیہ بنا کر اور مردانہ نام رکھ کر سمندری جہاز میں گھسنے کے قابل ہو جاتیں۔
دنیا کی مشہور ترین بحری قزاق عورتیں میری ریڈ اور این بونی بھی مردانہ لباس اور حلیہ بنا کر سمندری ڈاکوؤں کے جہازوں میں سوار ہوتیں اور اُن کے گروہ کا حصہ بن جاتیں۔
دنیا کے بڑے بحری قزاقوں میں سے ایک کیپٹن کالیکو جیک تھا۔ یہ دونوں عورتیں مردوں کے حلیے میں اُس کے گروہ میں شامل تھیں۔ سمندری قزاق بہت ظالم ہوتے تھے۔ اُن کو سمندر میں قابو کرنا حکومتوں کے لیے بھی آسان کام نہ ہوتا تھا۔
ایک دور ایسا آیا جس کو سمندری قزاقی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ یہ دور تقریباً 1650 سے 1720 تک کا دور تھا۔ اس دور میں بہت سے مرد اپنے گھربار چھوڑ کر رزق کمانے کے لیے سمندری جہازوں کے راستے دور دراز علاقوں میں جا نکلتے۔
اس طرح پیچھے صرف خواتین کو مردوں کے روایتی کردار کو بھی اپنانا پڑتا۔ اس طرح بہ امر مجبوری معاشرے کو بھی خواتین کے مردانہ کردار میں اپنی فیملی کو پالنے کا حق دینا پڑا۔ عورتوں کو کاروبار کرنے کے حقوق دینے پڑے۔
عورتوں نے شاہراہوں پر سرائے کھول لیں حتیٰ کہ شراب خانے بھی عورتیں چلانے لگیں۔ یہاں تک کہ کئی سمندری علاقوں میں بندرگاہوں والے چھوٹے شہروں میں بیوہ عورتیں اپنے مرحوم شوہروں کے پیشوں کو اختیار کر لیتیں تاکہ وہ معاشی طور پر اپنے گھروں کو چلا اور بچوں کو سنبھال سکیں۔
اس طرح عورتوں کو معاشی آزادی بھی مل جاتی اور وہ کاروبار بھی نسبتاً آزادی سے کرنے لگیں۔ عورتیں اُن بحری قزاقوں کی ڈاکہ زنی سے حاصل کردہ اشیا کی خریدوفروخت میں بھی شامل ہو گئیں۔
اس طرح کا باہمی تعلق باہمی تعاون کا باعث بنا اور یہ خواتین بعض اوقات دیرینہ تعلقات کی بنیادوں پر حکومتی ہرکاروں اور پولیس سے بھی اپنے گاہک قزاقوں کو بچالیا کرتیں۔
کچھ خواتین بحری قزاقوں سے شادیاں بھی کرلیا کرتیں کیونکہ وہ اکثر لوٹ مار کی وجہ سے دولت مند ہوتے تھے۔
بحری قزاقوں کے ساتھ میل جول کے نتیجے میں بعض خواتین اُن میں شامل ہو جاتیں اور خود بحری قزاق بن جاتیں۔ اُس زمانے میں عورتوں کو بدقسمتی کی نشانی سمجھا جاتا۔
اس لیے قزاق اُن کو بحری جہازوں پر کسی بھی صورت ساتھ لے جانے پر راضی نہ ہوتے۔ دوسرا یہ بھی تھا کہ قزاق عورتیں آپس میں اُلجھ پڑتیں اور قتل و غارت تک بھی نوبت پہنچ جاتی۔
ان حالات کے پیش نظر قزاق عورتوں کو اپنے جہازوں میں نہ لے جاتے۔ عورتوں نے مردوں کا بھیس بدل کر قزاقوں کے جہازوں میں انٹری حاصل کی اور بطور مرد اُن کے ساتھ شامل ہو جایا کرتیں۔ دو مشہورِ زمانہ قزاق خواتین جن کا ذکر اوپر آچکا ہے بھیس بدل کر مردوں کا حلیہ بنا کر مشہور بحری قزاق کیپٹن کالیکو جیک کے گروہ میں شامل ہوئیں۔ اُن دونوں یعنی میری ریڈ اور این بونی کی داستان حیرت انگیز ہے۔
این بونی
بونی آئرلینڈ میں 1700 میں پیدا ہوئی۔ جوان ہونے کے بعد یہ وہاں سے لندن آگئی۔ وہ ایک نوکرانی کی بیٹی تھی جس کا نام میری برینن تھا۔
اُس کا مالک ایک وکیل ولیم کومارک تھا۔ اُسے اپنی نوکرانی سے محبت ہو گئی جس کے نتیجے میں بونی پیدا ہوئی۔
اُس کی بیگم کو جب یہ پتہ چلا تو اُس نے اپنے شوہر کے ناک میں دم کا کر دیا۔ اسی لیے وہ اپنا شہر چھوڑ کر لندن آبسا۔ وہ بونی اور اُس کی والدہ کو ساتھ لے آیا۔ اُس نے شروع سے ہی بونی کو مردانہ بچوں والے کپڑے پہنائے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ ایک لڑکی ہے۔
اپنی بیوی سے جھگڑوں کے نتیجے میں وہ بیٹی اور اُس کی والدہ نوکرانی میری برینن کو لے کر امریکہ میں کیرولائنا چلا آیا۔
وہاں بھی اُس نے وکالت شروع کر دی اور خوشحال ہو گیا۔ بونی نے تعلیم حاصل نہیں کی اور اکثر سکول میں بھی دوسری لڑکیوں سے جھگڑا کر لیتی۔
اس کی عادتیں جرائم کی طرف مائل تھیں، حتیٰ کہ اس نے کسی لڑکی کو جھگڑے کے دوران خنجر بھی گھونپ دیا تھا۔
بونی خوش شکل اور آزاد منش تھی، اس لیے وہ گھر گرہستی میں کوئی دلچسپی نہ رکھتی تھی۔وہ ایک عام سے قزاق جیمز کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ ان حالات میں اُس کے والد نے اُسے گھر سے نکال دیا اور اپنی جائیداد سے عاق کر دیا۔
کہتے ہیں اُس نے اپنے والد سے بدلہ لینے کے لیے اُس کے کھیتوں کو آگ لگا دی۔ وہ ایک کینہ پرور اور نڈر عورت تھی۔ گھر سے نکل کر وہ اپنے شوہر کے ساتھ بحری قزاقوں کی آماجگاہ نیو پروویڈنس پہنچ گئی تھی۔
وہاں اُس کے تعلقات بہت سے بحری قزاقوں سے بن گئے۔ مگر اُس کا شوہر جیمز وہاں پر قزاقوں کے خلاف سرکاری جاسوسی کرنے لگا۔ اس لیے بونی کو اس سے نفرت ہوگئی۔
اس دوران ایک نوجوان جان کلیکو جیک ریخم سے بونی کی دوستی ہو گئی جو کہ ایک اُبھرتا ہوا بحری قزاق تھا ۔
بونی اپنے خاوند کو چھوڑ کر ریخم کے ساتھ چلی گئی۔ پھر انہوں نے اپنا ایک گروہ بنا لیا اور ‘ریونج’ نامی جہاز چُرا کر لوٹ مار شروع کر دی۔ اس دوران میں بونی کے ہاں ریخم سے حمل ٹھہر گیا۔ تب اُس نے بونی کو کیوبا میں آبادکر دیا جہاں اُس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔
بونی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں ریخم اور اُس کے گروہ کے ساتھ رہتی۔ جمیکا کے گورنر نے مفرور قزاقوں کی جو فہرست جاری کی اُس میں بونی کا نام بھی تھا۔
1720میں گورنر جمیکا کے دستوں نے چھاپہ مار کر ریخم کے جہاز سے ان سب لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ بونی اور اُس کی ساتھی عورت میری ریڈکے علاوہ سب کو پھانسی دے دی گئی۔ دونوں عورتوں نے اپنے حاملہ ہونے کی پلی لی تو اُن کو پھانسی نہیں دی گئی۔ اس کے بعد کی بونی کی تاریخ کم ہی ملتی ہے۔
میری ریڈ
میری ریڈ انگلینڈ میں 1685میں پیدا ہوئی۔ بچپن سے ہی اس کی ماں نے اسے بطور لڑکا پالا۔ بچپن سے ہی اس کو لڑکوں والے کپڑے پہنا دیے گئے۔
اُس کو بطور لڑکا پالنے کی وجہ یہ تھی کہ اُس کی والدہ کو پتہ تھا کہ وراثت صرف لڑکوں کو ملتی تھی لڑکیوں کو نہیں۔
پھر ایک لڑکے کے طورپر وہ برٹش فوج میں بھرتی کر لی گئی۔ پھر اُس کی شادی ہو گئی مگر اپنے خاوند کی وفات کے بعد وہ 1720 میں ویسٹ انڈیز میں آگئی، جہاں اُس کی ملاقات بونی سے ہوگئی اور وہ ریخم کےگروہ میں شامل ہوگئی۔ وہ مردانہ لباس کی عادی تھی۔ بونی کے ساتھ وہ بھی اصل میں لڑکی ہونے کے باوجود مردانہ لباس اور وضع قطع بنا کے رکھتی تھی جب بونی نے میری کو بتایا کہ وہ دراصل ایک عورت ہے، تب میری نے بھی اُسے اپنے راز سے آگاہ کر دیا۔
اس طرح اُن کی باہمی دوستی اور قربت بہت بڑھ گئی۔ 15 نومبر 1720میں جب جمیکا کے گورنر کے حکم پر ان کے جہاز پر چھاپہ مارا گیا تو ریخم اور اس کے ساتھی شراب پی کر بے ہوش پڑے تھے۔
میری اور بونی نے جہاز کا بچاؤ کیا لیکن سب کے سب گرفتار ہو گئے۔ ان دونوں خواتین نے حاملہ ہونے کی وجہ سے رحم کی اپیل کی اور انہیں معاف کر دیا گیا۔
ریخم اور اُس کے تمام مرد ساتھیوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ میری شدید بخار کی وجہ سے فوت ہو گئی جبکہ بونی کی تاریخ بھی یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے۔
اگرچہ ان دو عورتوں کے بارے میں جو سمندری قزاق بنیں ہماری معلومات نامکمل ہیں۔ مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں میں مہم جوئی کا جذبہ پوری طرح موجود ہوتا ہے۔
وہ ایک آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے خطرات اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جو عورتوں کی زندگی میں تبدیلی لا رہا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...