تاریخ جو کتابوں سے نکل کے سڑکوں پر آ گئی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زمانے کا یہی چلن جو ہوا۔۔ پردہ نشین دختر مشرق سڑک ہر جلوہ نما ہویؑ۔۔۔۔ سیاست اور دین سڑک پر آگےؑ ۔استاد اور مسیحا سڑک پر آ گےؑ ۔ نام اس سے بھی پہلے سڑک پرآ گےؑ تھے۔۔ آیؑ آیؑ چندریگر روڈ پاکستان کا کمرشل ہب ہے۔۔۔ زیب انسا اسٹریٹ کراچی کی جگمگاتی جدید ترین فیشن کی شاہراہ۔۔ اب کون یاد رکھے اور کیوں کہ یہ تمیزالدین اور نشتر کون تھے۔۔ یہاں تو جدھر جاو پتا نہیں کس کس کا نام لکھا دکھایؑ دیتا ہے
اورایسا ہر شہر میں ہے۔لاہور کی ایک ٹریفک جام والی سڑک پر لکھا تھا۔۔وارث میر انڈر پاس۔۔ اپنے خضر راہ سے پوچھا کہ یہ کون تھا تو جواب ملانہیں معلوم۔۔ کہا "یہ جیو والےحامد میر کا باپ تھا" تواس نے چونک کے کہا"اچھا؟" چنانچہ جب میں نے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب انسا کے 358 سال پرانے مدفن کوتلاش کر لیا توخیال چند لمحوں کے لےؑ مجھے اتنا ہی پیچھے لےگیا مگرمجھے پھر اکیسویں صدی کا غیر جذباتی کیمرہ بدست بلاگر بننے میں دیر نہ لگی جس کے لےؑ یہ ایک چونکانے والا موضوع تھا
عبرت اب کون پکڑے۔۔دیکھےؑ ان چار تصویروں کو۔ پہلی سمن آباد موڑ سے داییؑں جانب نواں کوٹ کی تنگ گلیوں میں بھنسی اورنگ زیب عالمگیر کی لاڈلی بیٹی شہزادی شاعرہ زیب النسا مخفی کی آخری آرامگاہ ہے۔۔ پھر باہر لگا کتبہ۔۔ قبر اور تعمیر نو کا منظر اور عقبی حصہ آپ دیکھ سکتےہیں ۔لاہور کی دوسری چوبرجی کا احوال اسی کے بیان کا حرف اول تھا۔۔ باپ کی تاریخ میں شہرت کا دو طرفہ آییؑنہ ہے ۔ ایک رخ میں وہ اکبر اعظم کے بعد 49 سال حکومت کرنے والا دوسرا حکمراں نظر آتا ہے تھا جواتنا نماز روزے کا پابند اور پابند شرع تھا کہ گزارے کیلؑےؑ قرآن کی کتابت کرتا تھا اور ٹوپیاں سیتا تھا شاعری اور موسیقی وغیرہ کو لہو لعب اور گناہ کبیرہ شمار کرتا تھا۔۔پلٹ کر آییؑنے کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ "اس نے کویؑ نماز نہیں چھوڑی اور کسی بھایؑ کو نہیں چھوڑا" ۔ انجینییؑر باد شاہ۔۔ باغ اور محل بنوانے والا اور تاج محل کے معمار کوقلعہ آگرہ کے برج میں ڈالا کہ اب یہاں سے دیکھا کر اپنے ساتویں عجوبے کو۔۔ سب سے بڑے بھایؑ دارا شکوہ کا سر کاٹا اور طشت میں سجا کے تحفہ بھیجا۔ دوسرے بھایؑ کی آنکھوں میں دہکتی گرم سلایؑ پھیری تیسرے کو ہاتھی کے پاوں میں ڈالا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔آپ جس رخ سے چاہیں آییؑنہ دیکھیں
باپ کی لاڈلی بیٹی نے تین سال میں قرآن حفظ کیا عربی فارسی پر عبور رکھتی تھی۔ ادب اور فلسفہ کا مطالعہ وسیع تھا۔ مخفی تخلص کے ساتھ شاعری کرتی رہی ۔ اس کا دیوان بہت ضخیم ہے جو ایران سے شایؑع ہوا تھا۔ شاید یہاں کسی لاییؑبریری میں ہو۔ کہتے ہیں وہ بہت حسین تھی لیکن اس کی شادی نہ ہو سکی اور 45 سال کی عمر میں وہ چل بسی۔ ایک کہانی اس سے منسوب ہے کہ وہ کسی شاعر کے عشق میں مبتلا تھی۔ایک دن مخبروں نے اورنگ زیب کو اطلاع دی کہ وہ شہزادی کے محل میں موجود ہے۔ اچانک اورنگ زیب کے آنے کی اطلاع پر زینب نے اسے پانی کی ایک دیگ میں چھپادیا۔ اورنگ زیب کو مخبری پر بھروسہ تھا اس نے تاڑ لیا کہ بیٹی اپنے محبوب کو کپاں چھپا سکتی ہے۔ وہ کچھ دیربیٹھا باتیں کرتا رہا ۔پھر بولا کہ "کچھ نہانے کا موڈ ہے اس دیگ میں پانی گرم کراو۔" ، دیگ کے نیچے آگ روشن کر دی گیؑ۔ کہتے ہیں اس وقت زیب النسا نے یہ شعرپڑھا
افشاےؑ رازمن مکن اے اشک زینہار
دردم بہ پیش محرم و بیگانہ روشن است
(ترجمہ:ایسا نہ ہوکہ انسو میرا راز افشا کر دے۔۔ ۔ میرے درد کا اپنے بیگانوں کو پتا ہے )
کپتے ہیں کہ محبت کے امتحان سے گزرنے والے نے اس کا مطلب سمجھ لیا اور پانی ابلتا رہا لیکن اس کی آہ سنایؑ نہ دی۔ اورنگ زیب کی اس شقاوت کی سند یہ شعر نہ سمجھا جاےؑ۔ یہ کویؑ تاریخی روایت نہیں۔ پوری نظم یوں ہے۔
از شعلہ ہاےؑ آہ مرا خانہ روشن است
روشن مکن چراغ کہ کاشانہ روشن است
نازم بہ فیض بادہ کہ شبہاےؑ تیرہ دل
دلہا زا عکس ساغر و پیمانہ روشن است
تا آفتاب حسن بہ عام طلوع کرد
مخفی چراغ عاقل ودیوانہ روشن است
آخری شعر آپ پڑھ چکے ۔نمونہؑ کلام کے طور پر ایک اور شعر بھی ہے
مخفی بقدر طاعت ما گر عطا دہند
در روز حشر رحمت پروردگار چیست؟
( ترجمہ ۔۔ اے مخفی۔۔اگر ہمیں ہماری اطاعت کے مطابق مل جاتا ہے تو روز محشر خدا کی رحمت کے معنی کیا ہیں؟)
اگر چہ موضوع یہ نہیں لیکن فارسی شاعری پر نورجہاں کو بھی عبور تھا اور جو شعراس کی لوح مزار پر درج ہے اسی کا بتایا جاتا ہے۔ ایک موقعہ پر اس نے بھی ایک شعرسے جہانگیر کی مدد کی تھی۔ کہتے ہیں کہ جہانگیر نے شطرنج کی بازی میں نورجہاں کو داو پر لگا دیا تھا۔ ہار کے آثار نظر انے لگے تو جہانگیر سخت پریشان ہو۔ اس وقت پردے کے پیچھے سے بساط پرنظر ڈال کے ایک شعرپڑھا
شاہا دو رخ بدہ وہ دل آرام را مدہ
فیل وپیادہ پیش کن و اسپ کشت و مات
جہانگیر نے اس کی بات سمجھی اور بازی جیت گیا۔
(ترجمہ: شہنشاہ اپنے دو رخ دے محبت نہ دے پھرفیل اور پیادے کو آ گے بڑھا گھوڑے کو مار اور مات دے) یہ بھی تاریخی طور پراس روایت کو بھی سند حاصل نہیں
حکومت نے زیب انسا کے مرقد کی تعمیر نو کا کام شروع کیا ہے جو شاید دو سال جاری رہے گا۔ میں نے ٹھیکے دار کی منتسماجت اور اندر جاکے تصویر نہ اتارنے کی شرط پرداخلے کی اجازت لی تھی۔۔اللہ معاف کرے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔