تاریخ غلطیوں کو معاف نہیں کرتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ زندگی ایک سٹیج ہے اور یہاں ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرنے آتا ہے، پرفارمنس کے بعد رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدرت بعض لوگوں کو غیر معمولی کردار نبھانے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔ وہ اگر سو فی صد پرفارم کر جائیں تو تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ یہ البتہ دیکھا گیا کہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جن میں بڑا کام کرنے کا پوٹینشل ہے، وہ اگر چاہتے تو نئی تاریخ رقم کر دیتے، اپنی نفسانی خواہشات، لالچ، پست ہمتی یاکسی اور شخصی کمزوری کے باعث وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔فیل ہوجانے پر ، وہ دوسروں کو مطعون کرتے اور باقی زندگی شکوے شکایت میں گزار دیتے ہیں۔
چند دن پہلے آسٹریلیا کے ممتاز بلے باز اور ان کے کامیاب کپتان سٹیو سمتھ زندگی کے ایک امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔شہرت، عزت اور دولت کے عروج پر موجود شخص اچانک ندامت، شرمندگی اور ناکامی کے گہرے گڑھے میں جا گرا۔ سمتھ کا عروج بھی حیران کن ہے۔ صرف آٹھ سال پہلے وہ آسٹریلین کرکٹ ٹیم میں ایک مڈل آرڈر بلے باز کے طور پر آئے ، جو پارٹ ٹائم باﺅلنگ بھی کرا لیتاتھا۔۔ 2014/15 کے سیزن میں آسٹریلیا آئی ہوئی بھارتی ٹیم کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں میں چار سنچریاں جڑ دیں۔ 2014ءمیں اکیاسی رنز کی ایوریج سے رنز کئے، اگلے تین برسوں میں ان کی ٹیسٹ ایوریج تہتر، اکہتر اور چھہتر رہی، جو کسی بھی بلے باز کے لئے قابل رشک ہوسکتی ہے۔ سمتھ ان کھلاڑیوں میں سے ہیں، کپتان بننے کے بعد جن کی کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ پہلے پچاس کی اوسط سے رنز کئے، بطور کپتان ستر سے زیادہ کی اوسط رہی۔ ٹیسٹ میچوں کے حوالے سے یہ انتہائی اعلیٰ اوسط ہے، جہاں پچاس کی اوسط بھی شاندار سمجھی جاتی ہے۔سمتھ کی ایک اور خوبی انہیں دوسرے بڑے بلے بازوں سے نمایاں کرتی ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا، انگلینڈ ، جنوبی افریقہ وغیرہ کے ساتھ جنوبی ایشیا میں بھی رنز کئے ہیں۔ عام طور پر یورپی بلے باز بھارتی سپن وکٹوں پر ناکام ہوجاتے ہیں، سمتھ کی وہاں پر اوسط 60کی رہی۔ اس وقت وہ دنیا کے ممتاز ترین بلے بازوں میں سے ایک تھے۔ نمبر ون ٹیسٹ بلے باز رہے، ون ڈے میں بھی شاندار پرفارم کیا۔ چند ماہ پہلے اپنے روایتی حریف انگلینڈ کو ایشز میں بدترین شکست دی۔آل ٹائم گریٹ بلے بازوں میں وہ ڈان بریڈ مین کے بعد پوائنٹس کے حوالے سے دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ اٹھائیس سال کی عمر میں اتنے زیادہ اعزاز سمیٹ لئے تھے، ہر کسی کا اندازہ تھا کہ اگلے چند برسوں میں سٹیو سمتھ ٹنڈولکر اور بریڈ مین جیسے کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ قدرت ہر لحاظ سے ان پر مہربان تھی۔آسٹریلوی کپتان کے طور پر وہ لاکھوں ڈالر کما رہے تھے۔ بھارتی ٹی ٹوئنٹی لیگ آئی پی ایل میں ان کا کنٹریکٹ ایک ملین ڈالر کے لگ بھگ تھا۔
اس سب میں قدرت کے طرف سے دئیے گئے مواقع ، سمتھ کی اپنی محنت اور لیاقت بھی شامل تھی، ان سب نے کامیابی کی انتہا تک پہنچا
دیا۔ اچانک ایک واقعہ ایسا ہوا، جس نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا ، ان کے گرد لپٹا ہوا سونے کا ہالہ سیاہ ہوگیااور وہ بلندیوں میں پرواز کرتے چکر کھا کر زمین پر جا گرے۔ آسٹریلوی ٹیم آج کل جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ میچز کھیل رہی ہے۔ تیسرے ٹیسٹ میچ میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ آسٹریلوی فاسٹ باﺅلر بینکرافٹ نے باﺅلنگ کراتے ہوئے گیند سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی۔آج کل تیس سے زائد کیمروں سے میچوں کی کوریج ہوتی ہے، ان میں سے چند ایک کیمرے ہر وقت گیند پر فوکس رہتے ہیں۔ بینکرافٹ نے چھوٹے سے ریگ مال کے ٹکڑے سے گیند کو رگڑنے کی کوشش کی، یہ منظر ٹی وی پر لائیو چل گیا۔ امپائرز کو پتہ چلا تو انہوں نے باﺅلر سے پوچھا، اس نے جیب سے ایک سیاہ رنگ کا کپڑا نکال کر دکھا دیا، جس سے سن گلاسز صاف ہوتے ہیں۔ اس دوران ایک اور ڈرامہ ہوا۔ جب بال ٹمپرنگ کا منظر ٹی وی پر چلا تو آسٹریلوی کوچ ڈیرن لہمین یہ دیکھ کر چونک گئے۔ انہوں نے واکی ٹاکی پر گراﺅنڈ سے باہر بیٹھے بارھویں کھلاڑی کو کہا کہ جا کر بینکرافٹ سے پوچھو کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس دوران ایک تیز طرار کیمرہ مین نے کیمرہ آسٹریلوی ڈریسنگ روم کی جانب فوکس کیا تو لہمین کو واکی ٹاکی پر بات کرنے کا پتہ چل گیا، جب بارھویںکھلاڑی نے گراﺅنڈ میں جا کر بین کرافٹ کو یہ بتائی تو اس کا رنگ فق ہوگیا، جلدی سے اس نے جیب سے پیلے رنگ کی ٹیپ نما ریگ مال نکال کر اپنی ٹراﺅز ر میں چھپانے کی کوشش کی، یہ سب ٹی وی کیمروں نے ریکارڈ کر لیا۔ ثابت ہوگیا کہ آسٹریلوی باﺅلر نے بال ٹمپرنگ کی کوشش کی ۔
یاد رہے کہ بال ٹمپرنگ پر پابندی اس لئے لگائی گئی کہ باﺅلر اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا لیں۔ کرکٹ قوانین میں بال کی سیم بگاڑنا، کسی چیز سے اس کی جلد کو کھردرا کرنا سخت منع ہے۔یوں گیندکو بگاڑنے سے ریورس سوئنگ میں مدد ملتی ہے۔گیند اپنے فطری انداز میں جانے کے بجائے نہایت تیزی سے کٹ ہوکر وکٹوں کی طرف جاتی ہے اور اچھے اچھے بلے بازوں کے لئے بھی اسے کھیلنا ممکن نہیں رہتا۔ ریورس سوئنگ تو منع نہیں، مگر ایسا کرنے کے لئے گیند کو بگاڑنے پر سخت پابندی ہے۔ شاہد آفریدی نے ایک میچ میں دانتوں سے گیند کو چبا کر خراب کرنے کی کوشش کی تو ان کو سزا سنائی گئی۔ جنوبی افریقہ کے موجودہ کپتان فاف ڈوپلیسی بھی بال ٹمپرنگ کرتے پکڑے گئے تھے، انہوں نے ایک خاص وضع کا ٹراﺅزر پہنا تھا، جس کی پنڈلی پر لمبی سی زپ لگی تھی، گیند کو رگڑنے کے بہانے وہ زپ کے ذریعے اس کی سطح خراب کر رہے تھے۔ حالیہ کیس اس لحاظ سے مختلف تھا کہ ایک تو اس میں باﺅلر بال ٹمپرنگ کرتا پکڑا گیا اور اس نے واضح طور پر ریگ مال استعمال کیا۔۔ ایک اور فرق یہ بھی تھا کہ آسٹریلوی کپتان نے اعتراف بھی کر ڈالا، یعنی یہ ایک سوچی سمجھی ، منظم سازش تھی۔ یہ خبر ایک دھماکہ ثابت ہوئی۔ کسی کو سمتھ جیسے بڑے بلے باز سے ایسی گھٹیا حرکت کی توقع نہیں تھی۔ آئی سی سی نے تو سمتھ اور باﺅلر بینکرافٹ کو نرم سزا سنائی ،مگر آسٹریلیا میں اس واقعے کا شدید ردعمل ہوا۔ بڑے اخبارات نے اسے لیڈ کے طور پر لگایا، شیم، چیٹنگ، دھوکا وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے۔ کرکٹ آسٹریلیا نے تحقیقات کیں تو علم ہوا کہ کوچ ڈیرن لہیمن اس معاملے میں بے قصور ہیں، اگر انہیں علم ہوتا تو وہ اضطرابی کیفیت میں بارھویں کھلاڑی کو ماجرا معلوم کرنے نہ بھیجتے۔ آسٹریلوی بورڈ کے مطابق یہ تجویز نائب کپتان ڈیوڈ وارنر نے دی تھی، سمتھ نے اس کی منظوری دی اور ان دونوں کے کہنے پر باﺅلر نے ایسا کیا۔شائدسمتھ شکست سے بچنے کے لئے دھوکہ کو جائز سمجھتے تھے ، شائد وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کر کے بچ نکلیں گے۔وجہ جو بھی ہو، غلط اندازہ انہیں ڈبو گیا۔آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے سمتھ اور وارنر پر ایک سال کی پابندی لگا دی ہے، باﺅلر کو جونیئر سمجھتے ہوئے نو ماہ کی معطلی کی سزا سنائی۔ سمتھ ایک سال بعدقومی ٹیم میں تو آ سکیں گے، مگر کپتان وہ مزید ایک سال نہیں بن سکیں گے، جبکہ سابق نائب کپتان وارنرآئندہ کبھی کپتان نہیں بن سکیں گے۔ا ب صورتحال یہ ہے کہ سمتھ اور وارنر کے تمام بڑے ایگریمنٹ منسوخ ہوگئے ہیں، سپانسر شپ ختم ہوچکی ہیں۔ سمتھ نے گزشتہ شام نہایت جذباتی کانفرنس کی، جس میں وہ دھاڑیں مار کر روئے اور قوم سے معافی مانگی۔ اگرچہ یہ اظہار ندامت بے سود تھا۔
سٹیو سمتھ جیسے لوگوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت بعض لوگوں کو غیر معمولی کردار نبھانے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔کامیاب ہوتے تو نئی تاریخ رقم کر ڈالتے ۔ نفسانی خواہشات، لالچ، پست ہمتی یادیگرشخصی کمزوریوں کے باعث وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ یوں امر ہونے کے بجائے عبرت کی مثال بن جاتے ہیں ۔ کھلاڑی ہوں ،اداکار، بزنس مین یا سیاستدان ….، ان میں سے کسی کو رعایت حاصل نہیں۔ تاریخ ہر ایک سے انصاف کرتی ہے۔ زندگی میں جو مواقع ملتے ہیں، ان سے فائدہ اٹھا کر ڈیلیور کر دیا جائے تو آدمی امر ہوجاتا ہے۔ زندگی کے امتحانوں میںناکام رہنے والے کے پاس شکوہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔