قدرت نے جب ارادہ کیا کہ اس عالم کو پیدا کیا جائے،تو اسمیں سب سے پہلی بناوٹ بیت اللہ کی واقع ہوئی، اس پورے عالم میں پانی ہی پانی تھا یعنی عناصر اربعہ میں سے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی کو پیدا فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے اس پانی سے دوسری کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو پانی میں اتنی جگہ جہاں بیت اللہ واقع ہے اسکا کچھ حصہ ابھرا ہوا تھا جیسے پہاڑی کا ایک مقام ہوتاہے وہ بھر گیا وہ بیت اللہ تھا اس کے بعد کچھ گہرائی واقع ہوئی پھر پانی نے ٹکرانا شروع کیا پانی کے ٹکرانے سے اسمیں گاڑھا پن پیدا ہوا جیسا کہ سمندر کے کناروں پر جب پانی ٹکریں کھاتا تو جھاگ پیدا ہوتی ہے وہ سمندر کے جھاگ مثل پتھر کے ہوتے ہیں اسی طرح گاڑے پن نے سختی اختیار کی اور وہ ایک اینٹ کے برابر سختی پیدا ہوئی اول زمین ایک اینٹ کے برابر بنی تو زمین کی اصل یہی بیت اللہ ہے، اس کے بعد حق تعالیٰ نے اس کو بڑھایا اور پھیلانا شروع کیا وہ پھیلتے پھیلتے زمین بنتی گئی اور اس حد پر آکر رک گئی جس حد پر آج ہے، اس کا حاصل یہ نکلا کہ بیت اللہ ساری زمین کی اصل ہے، ہم سب زمینی مخلوق ہیں ہمیں اللہ نے اسی مٹی سے پیدا کیا حدیث شریف میں فرمایا گیا، ۔۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور ادم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا، ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہماری اصل مٹی ہے اور مٹی کی اصل بیت اللہ ہے معلوم ہوا کہ ہماری اصل بیت اللہ ہے اور ایک عام اصول ہے کہ،۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے ۔۔ اگر شاخیں ہیں تو جڑ کی طرف رجوع کریں گی پانی اپنے مرکز کی طرف لوٹے گا، ہر چیز اپنے مرکز کی طرف فطرۃ دوڑتی ہے اسے کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جیسا کہ بیٹے سے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ باپ سے رجوع کرو، اسی طرح تمام انسان بیت اللہ کی طرف رجوع ہیں اگر بچہ کو پیدا ہوتے ہی باپ کہیں چھوڑ کر چلا گیا بچہ جوان ہوا اب اگر باپ آجائے تو بچہ کی طبعی کشش ہوگی مگر یہ نہیں جانے گا باپ ہے مگر جب پہچان جائے گا کہ یہی باپ ہے تو وہی طبعی کشش عقل بھی بن جائے گی، بالکل اسی طرح بیت اللہ ہے، انبیاء علیہم السلام نے آکر تعارف کروایا کشش پہلے موجود ہے معرفت اور پہچان بعد میں کرادی اگر طبعاً کشش نہ ہوتی تو زبردستی لوگ رجوع کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو مرکز بنادیا جس کی طرف کشش بھی تھی وہ طبعی کشش انسانوں کی اس طرف کھینچ کر لاتی ہے لاکھوں انسان ہر گھاٹی سے نکل نکل کر آرہے ہیں، سفر کی سختیاں اٹھاتے ہیں خلاف طبع باتیں برداشت کرتے ہیں ، محنتیں اٹھاتے ہیں اس کا مطلب کشش تو ضرور ہے فطرتاً تو یوں کہ وہ ہماری اصل ہے اور شرعاً یوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعارف کرادیا کہ ۔۔ وہ بیت اللہ جو تمہاری اصل ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی نبی ایسے نہیں گزرے جنہوں نے آکر بیت اللہ کا طواف نہ کیا ہو، / خطبات حکیم اسلام جلد ٢(
اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا۔۔۔۔ کہ وہ پہلا گھر ہے جسے مکہ کہا جاتا ہے جو بڑی بابرکت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔۔۔
یقینا وہ مکان جو سب مکانات عبادت سے پہلے لوگوں کی عبادت گاہ بننے کے واسطے من جانب اللہ مقرر کیا گیا وہ مکان کعبہ۔ مکہ میں ہے جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے کیونکہ اس میں دینی نفع ثواب ہے اور عبادت خاص مثلاً نماز کا رخ بتلانے میں جہاں بھر کے لوگوں کا رہنما ہے، ساری دنیا کے مکانات یہاں تک کہ تمام مساجد کے مقابلہ میں بیت اللہ کا شرف اور افضلیت کا بیان ہے اور یہ شرف و افضلیت کئی وجہ سے ہے، اول یہ کہ وہ دنیا کی تمام سچی عبادت گاہوں میں سب سے پہلی عبادت گاہ ہے دوسرے یہ کہ وہ برکت والا ہے، تیسرے یہ کہ وہ پورے جہاں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا میں سب گھروں میں سے پہلا گھر عبادت ہی کیلیۓ بنا یا گیا ہے اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ نہ کوئی دولت خانہ وجود میں آیا،حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو،
حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالٰی نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ بنائیں ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طوف کرلیں اور ان سے کہا گیا کہ آپ سب سے پہلے انسان ہیں اور یہ گھر سب سے پہلا گھر ہے جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا ہے، ( معارف القرآن)
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی ہے ملائکہ نے اس کی بنیادیں بھری ہیں اور بنیادیں بھی دس بیس گز نہیں بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ تحت الثریٰ یعنی نچلی تہ تک اس کی بنیادیں بھری گئیں ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بیت اللہ فقط اس حصہ میں نہیں جو چہار دیواری سامنے ہے بلکہ تحت الثریٰ تک جو حصہ چلا گیا ہے وہ سب بیت اللہ ہے اسی طرح سے اوپر کی طرف جائیے تو عرش تک سب بیت اللہ ہے،
حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ ہر آسمان میں ایک قبلہ ہے اور وہ قبلہ ٹھیک بیت اللہ کے سیدھ میں ہے، ساتویں آسمان پر بیت المعمور ہے اور وہ ساتوں آسمان کا قبلہ ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی پتھر بیت المعمور سے گرایا جائے تو وہ سیدھا بیت اللہ کی چھت پر آگرے گا تو بیت اللہ فقط اس چہار دیواری کا نام نہیں جو کعبہ مکہ مکرمہ کی شکل میں موجود ہے وہ ایک علامتی نشان ہے ورنہ بیت اللہ عرش سے لیکر تحت الثریٰ تک ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ہم آسمان پر پہنچ جائیں اور بیت اللہ کی طرف نماز پڑھیں تو آپ کو الٹا نہیں لٹکنا پڑیگا کہ بیت اللہ تو نیچے ہے اس طرح نماز پڑھیں گے جیسے زمین پر پڑھتے ہیں اس لئے کہ وہاں بھی بیت اللہ سامنے ہے اور اگر ہم کشتیوں کے ذریعہ زمین کی تہہ میں پہنچ جائیں تو وہاں ہمیں الٹ کر سجدہ نہیں کرنا ہوگا کہ بیت اللہ تو اوپر ہے بلکہ اسی طرح سجدہ کرتے ہیں جیسے زمین پر کرتے ہیں،
بیت اللہ اوپر سے نیچے تک ایک کیل کے مانند ہے ایک نورانی الاٹ ہے جس کے ارد گرد یہ ساراں جہاں چکی کے پاٹ کے مانند چکر کھارہا ہے یہ بیچ میں ایک مرکز ہے اسی مرکز کو قدرت حق نے دیکھا اور وجودی تجلی یہیں نازل ہوئی اس لئے بیت اللہ محض کوئی کوٹھا نہیں ہے کوئی عمارت نہیں ہے بلکہ وہ تجلی گاہ ربانی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی وہ تجلی جو اقرب الی اللہ ہے وہ موجود ہے اسی تجلی کو ہم سجدہ کرتے ہیں اسی تجلی کو سجدہ کرنا عین ذات کو سجدہ کرنا ہے اس لئے کہ عین ذات اتنی لطافت میں ہے کہ کوئی سیدھ اور محاذات بن نہیں سکتی، اگر محض ذات کو سجدہ کرایا جاتا تو تصور محض ہوتا ظاہر میں اصلیت کچھ نہ ہوتی، بیت اللہ فی الحقیقت ہماری مادی اصل بھی ہے اور روحانی بھی مادی اصل تو یوں ہے کہ زمین اسی سے بنی اور ہم سب زمینی مخلوق ہیں اس طور پر وہ ہماری مادی اصل ہے، اور روحانی یوں ہے کہ جب عبادت کریں گے تو انوار ربانی اسی کے ذریعہ سے قلب میں آئیں یہ روحانی اصل ہے،۔ / خطبات حکیم الاسلام/
قرآن کی آیات میں کہیں بیت اللہ کو پاک و صاف رکھنے کا ذکر ہے تو کہیں بیت اللہ کی جگہ بتانے کا ذکر ہے یہ کہیں مذکور نہیں کہ آج کوئی نیا گھر بنانا ہے اس کی تعمیر کریں اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا وجود اس واقعہ سے پہلے موجود تھا طوفان نوح میں منہدم ہوگیا یا اٹھا لیا گیا، پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوئی تو قبیلہ بنو جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا لیکن قریش نے جو تعمیر کی تھی وہ بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تھی کہ ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کردیا گیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے اور خلیل اللہ کی بناء میں دو دروازے تھے ایک داخل ہونے کیلئے اور دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کیلئے قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا، تیسرا تعمیر یہ کیا کہ بیت اللہ کا سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے بلکہ جن کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے اس کو بالکل بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کئے ہیں ان کی اصلاح کردوں لیکن نو مسلم نا واقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اس لئے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں اس ارشاد کے بعد آپ کی حیات زیادہ نہیں رہی لیکن حضرت عائشہ کے بھانجے عبد اللہ بن زبیر یہ ارشاد گرامی سنے ہوئے تھے خلفائے راشدین کے بعد جس وقت مکہ مکرمہ میں اس کی حکومت بنی تو انہوں نے بیت اللہ کو منہدم کرکے ارشاد نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا مگر عبد اللہ بن زبیر کی حکومت چند روز رہی ظالم الامت حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کرکے انکو شہید کردیا اور حکومت پر قبضہ کرکے اس کو گوارہ نہ کیا کہ عبداللہ بن زبیر کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک انکی مدح سرائی کا ذریعہ بنے، اس لئے لوگوں میں یہ مشہور کیا کہ عبداللہ بن زبیر کا یہ فعل غلط تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حالت میں چھوڑا اسی حالت میں رہنے دیا جائے،
حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بنا پر ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سر نو حدیث رسول کے مطابق بنادیں لیکن اس زمانہ کے امام مالک بن انس نے فتویٰ دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والے بادشاہوں کیلئے بیت اللہ کھلونا بن جائے گا ہر بادشاہ اپنی ناموری کیلئے یہی کارنامہ انجام دے گا،
ان روایات سے معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے یا پہلا عبادت خانہ،