جھنگ مگھیانہ جس کی بنیاد 1604 میگھا سیال نے رکھی اپنی تاریخی حیثیت کا حامل یہ علاقہ مستقل تقسیم سے گزرا آج یہ ریاست سمٹ کر ایک شہر رہ گٸ ہے جو کبھی ایک ریاست تھی اور سیال سٹیٹ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ 1849میں جھنگ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1851میں جھنگ کا کچھ حصہ الگ کر کے ملتان سے ملا کر جھنگ کی تقسیم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ 1854 میں کوٹ عیسٰی شاہ کے جنوبی علاقہ فروکہ کو اس وقت کے ضلع شاہ پور(سرگودھا)میں شامل کر دیا گیا۔ 1899میں لیہ کو جھنگ سے علیحدہ کر دیا گیا،حیدر آباد تھل کو میانوالی اور پنڈی بھٹیاں کو گوجرانوالہ سے ملا دیا گیا۔ جھنگ کے علاقہ ساہیوال کو منٹگمری کے نام سے علیحدہ ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ 1900میں ٹوبہ اور سمندری سمیت 34دیہاتوں پر مشتمل علاقہ کو تحصیل لائلپور میں ملا کر لائلپور(فیصل آباد) کو الگ ضلع کا درجہ دیتے ہوئے جھنگ سے الگ کر دیا گیا۔ حھنگ کی سب ڈویثرن فیصل آباد کو ضلع بنانے کے بعد ڈویژن کا درجہ دیتے ہوئے جھنگ کو اس میں ضم کر دیا گیا۔ 2009میں جھنگ کی تحصیل چنیوٹ کو الگ ضلع کا درجہ دے کر جھنگ سے کاٹ دیا گیا۔
ایک وقت تھا جھنگ میں انڈسٹری کی بہتات تھی۔ 1881 کی انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ مینوفیکچرنگ کی رپورٹ کے مطابق کل ملا کر 1600کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے ہوا کرتے تھے۔ جبکہ ڈسٹرک گورنمنٹ جھنگ کی 2013کی رپورٹ کے مطابق کل ملا 150کے 200کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں موجود ہیں۔
جھنگ صدر کا پرانا نام جھنگ مگھیانہ ہے۔یہ علاقہ سیالوں کے دارالعمارات (موجودہ جھنگ سٹی) سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا تاہم اب بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب دونوں علاقے آپس میں مدغم ہو چکے ہیں۔
پنڈی محلہ میگھا سیال نے جہاں جھنگ مگھیانہ کی بنیاد رکھی تھی اسے آج کل پنڈی محلہ کہا جاتا ہے۔
محلہ سلطان والااس محلے کو جھنگ کے مرکزی علاقے کی حیثیت حاصل ہے جس کی آباد کاری کو مغل شہنشاہ سلطان نورالدین جہانگیر سے جوڑا جاتا ہے۔اس وقت یہ علاقہ انتہائی سرسبزو شاداب تھا اور اس سے ملحقہ ایک بہت بڑا باغ بھی بنایا گیا تھا جہاں پر اب محلہ باغ والا واقع ہے۔تاریخی روایات کے مطابق جب سلطان نورالدین یہاں آیا تو بہار کا موسم تھا اور رمضان المبارک کے آخری ایام تھے۔سلطان نے یہاں ایک کھلے میدان میں نماز عید ادا کی اور وہاں ایک مسجد تعمیر کروانے کا حکم دیا۔نماز کے بعد سلطان آبکاری روڈ ( موجودہ دھجی روڈ) سے ہوتا ہوا کٹڑہ بیر والا کے مقام پر پہنچا
محلہ پرانی عید گاہ یہ وہی جگہ ہے جہاں سلطان نورالدین کے حکم پر عید گاہ تعمیر کی گئی تھی۔اس محلے کو قیام پاکستان تک محلہ عید گاہ کہا جاتا تھا تاہم جب محلہ چندانوالہ کے قریب نئی عید گاہ بنائی گئی تو اسے محلہ پرانی عید گاہ کہا جانے لگا۔
محلہ حق نواز شہیداس محلے کا پرانا نام محلہ پیپلیانوالہ تھا
محلہ بابو والامحلہ سلطان والا کے جنوب میں واقع اس محلے کو بعض مقامی لوگ محلہ یابو والا کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل یہاں ایک ہندو سادھو بابو رام رہائش پذیر تھا اور اس کی نسبت سے اسے بابو والا محلہ کہا جاتا تھا۔ایک اور روایت کے مطابق یہ نام ایک مسلمان بزرگ سے منسوب ہے جن کے درست نام کا کسی کو علم نہیں اور مقامی لوگ انہیں بابو صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ تاہم بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اس محلے میں موجود جامع مسجد فتح بلاول میں مدفن بزرگ پیر فتح بلاول شاہ ہی اصل میں بابو صاحب تھے۔
محلہ جوگیانوالہ محلہ جوگیانوالہ بھی جھنگ کے قدیم علاقوں میں شامل ہے۔
محلہ برجی والاگوجرہ روڈ پر واقع یہ محلہ سکھوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔
دیگر محلے بھی تاریخی حیثیت کے حامل ہیں زرخیزی میں بے مثال یہ شہر جس کے گاٶں گاٶں ہریالی اور فصلیں لہلہاتی ہوٸی نظر آتی ہیں
سب سے بڑھ کر سلطان باھوؒ کا مزار بھی اسی ضلع کی پہچان ہے
لوک داستان جو ناصرف پنجاب بلکہ دنیا میں پنجابی بولنے اور سمجھنے والے انسان کو معلوم ہے ۔ہیر رانجھا۔ کا مزار بھی اسی شہر میں ہے
اس کے علاوہ بہت سی تاریخی سماجی ادبی سیاسی شخصیات اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...