تاریخ اور ضمیر
یہ بھی تاریخ کا ایک مذاق ھے کہ پچیس کروڑ کی آبادی والے گریٹ انڈیا کو جس کتے بلے کا دل کرتا تھا وہ چند ھزار یا ایک آدھ لاکھ کے لشکر سے اسے فتع کرکے لوٹ مار مچا کر۔۔ سونا غلام لونڈیاں ھانک کر لے جاتا اور مہان انڈیا کے پاس جزیہ اور تاوان بھرنے اور جنگلوں میں چھپنے کے سوا کوئ چارہ نہ تھا اور اگر اکا دکا باغی۔۔۔وطن پرست۔۔۔نے سر اٹھانے کی کوشش کی بھی تو اسے اور اس کی پورے گاوں اور قوم کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے لبریز ھے۔ آریاوں سے کر آج تک برصغیر ھند و پاک پر اکثر غیروں کی ھی حکومت رھی ھے بدقسمتی سے مقامی قبائل(ھندو۔۔مسلمان ۔۔۔یا سکھ ) کبھی بھی پہلے درجے کے شہری نہیں رھے ھیں سماجی اونچ نیچ اور ذات پات ھر مذھب اور عقیدے میں یہاں پائ جاتے ھے۔ خود ساختہ اونچی ذاتوں کا اثرورسوخ کسی نا کسی صورت میں ہمیشہ حاوی رھا ھے۔
مغرب سے آنے والوں میں انگریز پہلے قابضین نہیں بلکہ آخری تھے جبکہ اس سے پہلے ڈینش ۔۔۔فرنچ۔۔۔ ڈچ اور پرتگیز اپنا اپنا زور لگا چکے تھے بلکہ ان سب کو یہاں سے انگریزوں نے ھی بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔
غزنوی سے لے کر اورنگزیب تک کون سا ایسا بادشاہ گزرا ھے جس نے ہندوستانیوں کے خون سے ھاتھ ناں رنگے ھوں ۔۔اس سے ذیادہ ستم ظریفی کیا ھوگی کہ اکبر بادشاہ اور اس کے اکلوتے بیٹے شہزادہ سلیم کے درمیان ایک کینز انار کلی کے معاملے پر جو جنگ ھوئ اس میں دونوں طرف کے کل ملا کر تقریبا" گیارہ ھزار سپاھی اپنی جان سے گئے تھے اور چند دنوں بعد باپ بیٹا روتے پیٹتے گلے لگ گئے تھے لیکن ان بےگناہ گیارہ ھزار انسانی جانوں کے زیاں کے متعلق ھمیں کتنا بتایا اور پڑھایا جاتا ھے؟ محمود غزنوی نے انڈیا پر سترہ حملے کئے تھے وہ جنگیں کیا شطرنج کی بساط پر لڑیں گئیں تھیں؟ تیمور لنگڑے۔۔۔احمد شاہ ابدالی ۔۔۔نادرشاہ ۔۔۔اورنگزیب ۔۔۔ان چاروں کی تلواروں نے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کا خون پیا تھا۔
انگریزوں کے بہت سارے گناہوں میں ایک گناہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے جمہوریت اور ووٹ کو ھندوستان میں متعارف کروایا تھا۔ ستی اور غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل۔۔۔بیٹیوں کے زندہ درگور ۔۔۔اور بچوں کو بلیدان کرنے پر پھانسی کی سزا لاگو کی تھی ورنہ اس سے پہلے غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل عام ایسے ھی ھوتا تھا جیسے خیر سے آجکل ھو رھا ھے
دوسری جنگ عظیم سے قبل انگریزایک روایتی۔۔۔متعصب ۔۔ اور مذھب پرست قوم تھی جس کے اپنے بڑے سخت اصول ھوتے تھے۔ عورتوں کے معاملے میں ان کے معاشرتی نظریات ھم سے بالکل الگ تھے۔ میں بار بار ایک سوال تمام ماھرین تاریخ سے پوچھتا ھوں کہ آزادی یا غدر کی اس جنگ میں مولویوں کو تو توپوں سے اڑایا گیا پھانسیاں بھی دیں گئیں تھیں مگر 1857 کی جنگ غدر کے بعد کتنی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر انگلینڈ بھیجا گیا تھا؟ مجھے کوئ ایک مثال یا واقعہ ھی بتا دیں( یاد رھے غلام لونڈی اور نوکر میں فرق ھوتا ھے نوکر کو معاوضہ ملتا ھے اور غلام اور لونڈیاں صرف روکھی سوکھی روٹی پر گزارہ کرتے ھیں )
انگلش سرکار نے پچیس کروڑ کی آبادی والے گریٹ انڈیا پر صرف گیارہ ھزار گورے فوجی اور افسران کی مدد سے سو سال تک اس ملک پر حکومت کی تھی یعنی انڈین چاھتے تو تھپڑ مار مار کر ھی گوروں کو انڈیا سے بھگا سکتے تھے مگر گورے نے اپنے سخت قوانین اور اصولوں کی بنیاد پر ایسی حکومت کی کہ وہ ھندوستان کی تاریخ میں سب سے کم خونی اور سب سے ذیادہ صنعتی اور ایگریکلچرل ترقیاتی منصوبوں کا دور کہلایا ھے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جب سلطنت برطانیہ یورپ کے مختلف محاذوں پر جنگ و جدل میں مصروف تھی ھندوستان واحد مقبوضہ خطہ تھا جو اس جنگ کے اثرات سے محفوظ تھا ۔ انہی دنوں ایک گھٹیا اور شرمناک واقعہ امرتسر میں پیش آیا۔ حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ھوے چند آوارہ قسم کے لفنگوں نے راہ چلتی ھوئ گوری عورتوں کو اپنے حصار میں لے کر ان کے کپڑے پھاڑ دئے اور انہیں برھنہ کرکے شہر کی گلیوں میں دوڑایا اور اس اسقدر ان کو ذلیل و حراساں کیا کہ ان میں سے ایک خاتون پاگل ھو گئی تھی۔ انہی دنوں ایک سیاسی جلسہ جلیانوالہ باغ میں انعقاد ھونے جا رھا تھا۔ انتظامیہ نے شہر میں کرفیو لگا دیا مگر لوگ حکم عدولی کرتے ھوے باغ میں پہنچ گئے تھے۔
سوال حکومت کی رٹ کا بھی تھا۔ اس کی واضح مثال 1947 میں ھم نے دیکھ لی تھی انگریز سرکار کی گرفت ڈھیلی پڑتے ھی ھزاروں سالوں سے اکھٹے رھنے والے ھندو مسلمان سکھ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور اک دوجے کی جان۔۔مال اور عزتوں کے اسطرح دشمن ھوگئے کہ ھندوستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہ تھی۔ حیرانگی کی بات ھے جلیانوالہ باغ کے سانحہ کا نوحہ کرنے والے 1947 کے لاکھوں انسانوں کے قتل کو کسقدر بےحیائ اور بے حسی کے ساتھ آسانی سے نگل جاتے ھیں ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ شاید تاریخ میں سے ضمیر کو تلاش کرنا کافی مشکل کام ھے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“