ایک جنگل زندگی سے بھرا پڑا ہے۔ بلندوبالا درخت، قسم قسم کے جانور اور پرندے۔ یہ وہ زندگی ہے جو نظر آتی ہے لیکن اتنی ہی زندگی وہ ہے جو زمین کے نیچے مٹی میں ہے۔ یہاں پر اس زندگی کی بہتات ہے جس کو آنکھ سے دیکھنا بھی مشکل ہے۔ اس جنگل کی صحت کے بڑے جانوروں سے کہیں زیادہ اہم مٹی میں رہنے والے تاریک دنیا کے باسی ہیں۔
جنگل میں درختوں کو فنگس کے پتلے تار جوڑتے ہیں جو درختوں کی جڑوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ (اس پر تفصیل نیچے لنک سے)۔ اگر مٹی کا ایک چمچ اٹھائیں تو اس میں کئی میل لمبی فنگل وائر موجود ہے۔ چھوٹے کیڑے جیسا کہ ویول، بیٹل مائیٹ، سپرنگ ٹیل، سوڈوسینٹیپیڈ وغیرہ ہمیں نظر نہیں آتے اس لئے ہم انہیں ہدہد، بھیڑیوں، ہرنوں، چیتوں، بندروں کی طرح اہمیت نہیں دیتے لیکن یہ مٹی کو بناتے ہیں، اس کو بدلتے ہیں اور درختوں کے لئے کارآمد بناتے ہیں۔ خوراک کے جال کی سیڑھی کا بھی نچلا پیر ہیں، ویسے جیسے سمندر میں پلانکٹن۔
یہ چھوٹے جانور خبروں کا حصہ نہیں بنتے لیکن اس تمام ایکوسسٹم کا حصہ ہیں۔
بیٹل مائیٹ۔ جن کی ہزار سے زیادہ انواع ہیں، ایک ملی میٹر سے کچھ کم سائز کے ہیں، مکڑی کی طرح جسم اور چھوٹی چھوٹی ٹانگیں۔ مٹی جیسا رنگ کہ اس میں چھپ جائیں۔ اگر ان کے بھوکی فوجیں نہ ہوں تو جنگل میں گرنے والے پتوں اور چھال کے ٹکڑوں کے انبار لگ جائیں۔ ان میں سے کچھ فنگس سے رس چوسنے کے ماہر ہیں۔ فنگس اپنا رس درخت کی جڑوں سے حاصل کرتا ہے اور یہ اس رس کو۔ مردہ گھونگا ہو یا سڑتی لکڑی، یہ ان سے اپنی خوراک لیتے ہیں۔
ویول۔ یہ چھوٹے سے بغیر کانوں والے ہاتھی جیسے لگتے ہیں۔ ان کی بھی ہزاروں انواع ہیں۔ اپنی سونڈوں کی مدد سے پتوں اور تنے میں سوراخ کر دیتی ہیں تا کہ وہاں پر انڈے دے سکیں جہاں ان کے انڈے شکاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ویول کے کچھ انواع اڑنا بھول گئی ہیں کیونکہ ان کو جنگل کی سست رفتار زندگی کی عادت ہو گئی ہے۔ ایک سال میں تیس فٹ سے زیادہ سفر ہی نہیں کرتے۔ اور اس سے زیادہ کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک ہی درخت کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ اگر وہ درخت مر جائے تو انہیں نے صرف اگلے درخت تک جانا ہے۔
جب پرانے جنگل صاف کئے گئے، تو یہ بھی ان جگہوں سے ختم ہو گئے۔ مصنوعی جنگل شجرکاری کے ساتھ لگائے جاتے ہیں تو یہ جاندار وہاں پر نہیں ہوتے۔ کسی جنگل کی عمر جاننے کا ایک آسان طریقہ ہے کہ اس میں زیرِ زمین زندگی کی حالت کو دیکھ لیا جائے۔ جنگل کے ایکوسسٹم کا توازن بنتے بنتے دہائیاں یا لگ جاتی ہیں۔ جب جنگل کی عمر بڑھتی جائے تو یہ جاندار بھی آنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کیڑا جو چند فٹ سے زیادہ اپنی پوری عمر نہیں حرکت کرتا، دور دراز کی جگہوں میں کیسے پہنچ جاتا ہے؟ لفٹ لے کر۔ پرندے مردہ پتوں میں لوٹنیاں لگاتے ہیں تا کہ پروں کو صاف رکھ سکیں۔ اس دوران اس کے پروں سے ان میں سے کئی چپک جاتے ہیں اور ان کو لے اڑتے ہیں۔ چھوٹے کیڑے، بیکٹیریا، فنگس اپنی اس سواری پر اگلے جنگل تک پہنچ جاتے ہیں۔ جنگل میں موت و حیات کے سائیکل متوازن ہونے میں وقت تو لگاتے ہیں لیکن جب بھی موقع اور وقت دیا جائے، قدرت اپنے آپ کو جلد بحال کر لیتی ہے۔ اپنے وہ چکر بھی، جن کو ہم ٹھیک طرح سے نہیں جانتے۔ گوئتے مالا میں مایا بائیوسفئیر ریزرو، سکاٹ لینڈ میں کالیڈونین جنگل، جرمنی میں لونے برگ ہیتھ، امریکی جنوب مشرق میں پائن کے جنگلات، وہ چند مثالیں ہیں جہاں پر قدیم جنگلات کی واپس بحالی کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ زندگی بھرپور طریقے سے واپس آ رہی ہے۔ زمین کے اوپر کی روشن دنیا میں بھی اور زمین کے اندر کی تاریک دنیا میں بھی۔